بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒکا قول ہے کہ خون کا قطرہ جب تک جسم میں رہتا
ہے اس سے فرد پلتا ہے اور جب یہ قطرہ شھید کے جسم سے نکل کر زمین پر گرتا
ہے تو اس سے قومیں پلتی ہیں ۔قوموں کی حیات اور ترقی کے قصر ذی شان کی
بنیادوں کی مضبوطی شھداء کی قربانیوں پر منحصر ہوتی ہے،تاریخ انسانیت کی
ورق گردانی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی ان قوموں کا سہرا بنی جو
اپنے موقف ،مشن اور کاز پر زندگی کی حدوں سے گزرنا جانتے تھے۔یہ عزیمت اور
جوانمردی کی روش روز اوّل سے آج تک جاری ہے اورراہ حق کے دیوانے و مستانے
جام حیات کو منہ سے لگاتے آ رہے ہیں ۔3جنوری 2014کی شام سرزمین اسلام آباد
پر اسی قافلے کے ایک عظیم راہرو مفتی منیر معاویہ ؒ نے اپنے رفیق سفر قاری
اسد عباسیؒ کے ہمراہ عظمت اصحاب رسولؓ واہلبیت پیغمبرﷺ کی ناموس کی خاطر
حیات جاوداں پائی تو شاعر کا یہ شعر بار بار میری ورد زباں ہوا۔
جشن مقتل جب بھی سجا
قرعہ فال میرے نام اکثر نکلا
مفتی منیر معاویہ شھیدؒکا تعلق میرہ حسنال یونین کونسل سیری غربی ابیٹ آباد
سے تھا۔آپ جامعہ احسن العلوم کے فاضل اور مدینۃ العلم اسلام آبادکے مہتمم ،اہلسنت
و الجماعت پاکستان کے وفاقی سیکرٹری جنرل ،منجھے ہوئے خطیب،متحرک اور ہر
دلعزیز قائد،ماہر مدرس اور اہل اسلام کا عظیم سرمایہ تھے۔2اور 3جنوری کی
درمیانی شب آپ 14روز کی اسیری کاٹ کراڈیالہ جیل سے رہا ہوئے تھے ،جب کہ
مولانا اسد محمود عباسی کا تعلق سیری غربی گاؤں چوریاں ضلع ایبٹ آباد سے
تھا۔ آپ دارالعلوم زکریا ترنول اسلام آباد کے فاضل اور اہلسنت و الجماعت کے
زونل راہنما تھے۔ شھداء تو کامیاب ہو گئے،حق یہ ہے کہ موت ہار گئی اورزندگی
جیت گئی۔ملک و ملت دشمن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حق کی آواز دبانے میں
ناکام رہا، اسلام آباد جناح ایونیو پر شھداء کے جنازوں کے ہمراہ اہلسنت و
الجماعت کے ہزاروں کارکنوں نے احتجا ج ریکارڈ کروایا جن کی قیادت اکابر
علماء کرام فرما رہے تھے۔اس موقع پر مولانا اشرف طاہر صدر اہلسنت و الجماعت
پنجاب نے عبد الرحمان سلطانی کو نیا وفاقی سیکرٹری جنرل مقرر فرمایا۔مولانا
عبد الرحمان سلطانی نے قیادت کے اعتماد پر پورا اترنے اورمشن حق نواز
شھیدؒکو پورا کرنے کا عہد کرتے ہوئے دشمن ملک و ملت تمام کوششوں کو ناکام
بنانے کا عزم کیا۔
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اتنے بڑے عالم دین اور مذہبی راہنما ؤں کو
برسرشاہراہ دہشت گردی کا نشانہ بنانا ریاستی اداروں کی کھلی ناکامی کا منہ
بولتا ثبوت ہے ۔ہفتہ 4جنوری کی صبح احسن العلوم کراچی کے دو طالب علم مدرسہ
جاتے ہوئے دھشت گردی کا نشانہ بنے۔گزشتہ ماہ اہلسنت والجماعت صوبہ پنجاب کے
صدر مولانا شمس الرحمان معاویہ ؒ کو لاہور شہر میں شھید کیا گیا تھااب
اسلام آباد میں اہلسنت والجماعت کے راہنما کی شھادت ملک اور اسلام دشمن
قوتوں کے منصوبوں کا پردہ چاک کررہی ہے۔یہ سانحہ اسلام آباد اپنے پیچھے کئی
سولات ،خدشات اور اشارات چھوڑ گیا ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بحثیت
قوم سوچنا ہو گا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔کیا مفتی منیرمعاویہ
ؒکی شھادت کے ذریعے اسلام آباد میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کی فضا اور ماحول
پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے ذریعے ملک عدم استحکام کی راہ پر چل
پڑے؟ مفتی منیر معاویہؒ کی شھادت میں کسی تیسری بیرونی قوت کا ملوث ہونا
بھی بعید از قیاس نہیں لیکن سب سے بنیادی سوالان اداروں کے کردار پر اٹھتا
ہے جو ہمارے تحفظ کے امین ہیں کہ پاکستان کے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد
وسط شہر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں معزز شہریوں کو وحشیت
ودرندگی کا نشانہ بنا دیا جا تا ہے اور دھشت گرد کاروائی کرنے کے بعدمحفوظ
مقام پر چلے بھی جاتے ہیں ۔کیا شرپسند اور دھشت گرد اتنے دلیر اور مضبوط ہو
چکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے کمزور ؟
علماء کرام و طلبہ علوم نبوت کی شھادتوں کے پے در پے واقعات خصوصا دارلعلوم
تعلیم القرآن راولپنڈی کا سانحہ اور مولانا شمس الرحمن معاویہؒ و مفتی منیر
معاویہؒ کی شھادتوں سے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ حکومت علماء کرام ،دینی
راہنماؤں اور مدارس دینیہ کی سیکورٹی کے موجودہ انتظامات نہ ہونے کے برابر
ہیں ۔کیا حکومت غداری کیس کے قومی ملزم کو1600سیکورٹی اہلکار مہیا کر سکتی
ہے تو علماء کرام و دینی راہنماؤں کے تحفظ کو یقینی کیوں نہیں بنا سکتی ؟
علماء کرام سے وقت کا اہم تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے انتظامات کے
ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد وتنظیم کو پیدا کریں ۔پاکستان کا دشمن سب سے
پہلے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ طبقہ یعنی علماء کرام اور مدارس
دینیہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ،دشمن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہو چکا ہے
کہ پاکستان بنانے میں بھی ان ہی لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور
پاکستا ن کا استحکام اور ترقی ان ہی لوگوں سے وابستہ ہے۔تمام دینی قیادت کو
چاہیے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک جامع پالیسی از سرنو
مرتب کریں جس کے ذریعے ملک و دین دشمن قوتوں کے ہر پروپیگنڈے کا ہر سطح پر
مؤثر جواب دیا جا سکے اور ملک میں رونما ہونے والے دھشت گردی کے تمام
واقعات کا سد باب کیا جاسکے۔امیدہے کہ مفتی منیر معاویہ ؒ کامقدس خون
اہلسنت والجماعت عوام و خواص کی بیداری کا سبب بنے گاکیونکہ وہ لہو ،لہو
نہیں ہے جو رنگ نہ لائے۔ |