پاکستان کے شہر ہنگو میں خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش
میں ہلاک ہونے والے نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسن کے خاندان نے حکومت
سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعتزاز کو تمغۂ شجاعت دینے کا اعلان کرے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اعتزاز حسن کے کزن مدثر بنگش ایڈووکیٹ کا کہنا
تھا کہ پیر کی صبح اعتزاز سکول جا رہے تھے تو راستے میں سکول یونیفارم پہنے
ہوئے ایک نوجوان نے ان سے سرکاری ہائی سکول ابراہیم زئی کا پتہ دریافت کیا۔
|
|
’اعتزاز نے اسے کہا کہ آپ تو ہمارے سکول کے نہیں ہو، جس پر لڑکے نے کہا کہ
وہ اسی سکول کا طالب علم ہے۔‘
مدثر بنگش کے مطابق’اعتزاز نے شاید یہ بھانپ لیا تھا کہ یہ کوئی تخریب کار
ہے، اس کے دوستوں نے اسے خبردار کیا کہ یہ خودکش بمبار ہو سکتا ہے تم پیچھے
ہٹو، لیکن اس نے انھیں کہا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں اور میں اس کو قابو کرنے
کی کوشش کرتا ہوں ورنہ یہ سکول کے اندر جا کر تباہی مچا دے گا۔‘
سڑک پر جب 15 سالہ اعتزاز بمبار کو روکنے جا رہا تھا، اس وقت سکول میں
اسمبلی جاری تھی، جس میں ایک ہزار کے قریب بچے موجود تھے۔
مدثر بنگش کے مطابق ’بمبار کا ٹارگٹ اسمبلی تھی لیکن اعتزاز نے اسے روک لیا
ورنہ کئی اعتزازوں کے جنازے پڑے ہوئے ہوتے، اس قربانی پر بنگش قبیلے، بنگش
وادی اور خیبر پختونخوا کو اس پر فخر ہے۔‘
|
|
اعتزاز حسن کے والد ابوظہبی میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کا اعتزاز کے علاوہ
ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔
مدثر بنگش کا کہنا ہے کہ اعتزاز کے والد لوگوں کو کہتے ہیں کہ ان سے کوئی
تعزیت کے لیے نہیں بلکہ ’شہادت‘ کی مبارک باد دینے آئے۔
اعتزاز حسن کے والد کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی ماں کو رلا کر سینکڑوں ماؤں کو
رونے سے بچا گیا۔‘
ہنگو میں محرم الحرم کے دوران بھی صورتحال کشیدہ رہی اور اس سے پہلے بھی
فرقہ وارانہ بنیادوں پر تخریب کاری کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
مدثر بنگش کا کہنا ہے کہ ’اگر عوام حوصلہ دکھائیں اور اعتزاز جیسے حوصلے کا
مظاہرے کریں گے تبھی کچھ ہو سکے گا، ُمردوں کی طرح پڑے رہیں گے تو کچھ نہیں
ہوگا۔‘
ایڈووکیٹ مدثر بنگش کے مطابق خاندان اور علاقے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ
ہائی سکول کا نام اعتزاز حسن بنگش کے نام سے منسوب کیا جائے اور اسے تمغۂ
شجاعت سے نوازا جائے تاہم لیکن حکومت کی جانب سے ایک بیان بھی سامنے نہیں
آیا۔
’اگر ہم اپنے ہیرو کی تشہیر نہیں کریں گے کہ تو ہماری نسل کو یہ پیغام کیسے
جائےگا کہ ایک ہیرو کیا ہوتا ہے؟ شہادت کیا ہوتی ہے آج کا بچہ اور نوجوان
کیسے پہچانے گا، یہ شناخت ہمیں دینی ہے۔‘ |