بس یہی سوچ کے کھولی ہے زباں ہم نے بھی
سننے والوں میں کچھ احساس ہنر بھی ہوگا....!
حکمرانوں کی ستم ظریفیوں کا تذکرہ کر کر کے اب تو اکتاہٹ سی ہونے لگی ہے
مگر پھر بھی لکھ رہا ہوں کہ لکھنا میرا کام ہے اوربے حس لوگوں کو جگانے کی
کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے نئی صبح کی تلاش ہے اور میں جانتا ہوں کہ ہر
اندھیرے کے بعد اک اجالا ہے ۔بات اگر حکمران طبقے کی ہو تو وہ اپنی عیاشیوں
میں اس قدر مست ہے کہ انہیں ہمارے نالے سننے کی فرصت ہی نہیں یا پھر سنتے
ہیں تو اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے
نکال دیتے ہیں۔ چند سو لوگ اٹھارہ کروڑ عوام کو یرغمال بنائے ہوئے
ہیں۔اقتدار کی ہوس اور کرسی کے نشے میں غرق ان لوگوں کو غریب کے بارے میں
جاننے کا وقت ہی نہیں۔
یوں لگتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد قومی خزانے کو ہمارے حکمران اپنی
میراث سمجھ لیتے ہیں تبھی اپنے اللے تللوں میں اس کا بے دریغ استعمال کرتے
ہیں۔ سابقہ و موجودہ وزرائے اعظم کے دوست احباب کے ساتھ پیرونی دورے /سیر
سپاٹے اور شاپنگ تو زبان زد عام تھی ہی، اب ’’نفیس طبع‘‘ صدر پاکستان ممنون
حسین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ موصوف کی تصاویر کے لئے اس غریب اور مقروض
قوم کے پندرہ لاکھ روپے پھونک دیے گئے ہیں۔ایوان صدر کے ہال کی دیواروں پر
صدر پاکستان کی تصویر آویزاں کرنے کئے لاہور کے فوٹو گرافر قمر پرویز کی
خدمات حاصل کی گئیں۔ فوٹو گرافر نے بھی موقع غنیمت جانا اور سربراہ مملکت
کے عہدے کا خوب خیال کرتے ہوئے پندرہ لاکھ روپے کا بل بھجوا دیا۔ اس معاملے
میں جب صدارتی ترجمان صبا محسن سے رابطہ کیا گیاتو انہوں نے کندھے اچکاتے
ہوئے بے نیازی سے جواب دیا کہ ایوان صدر میں لگی صدر پاکستان کی یہ تصاویر
ان کے چارج سنبھالنے سے پہلے آویزاں تھیں جبکہ فوٹو گرافر نے پندرہ لاکھ کو
’’حلال‘‘ ثابت کرنے کے لئے یہ جواز پیش کیا کہ’’ پورٹریٹ کا پچھترفیصد حصہ
ہاتھ سے بنانا پڑتا ہے ، یہ کوئی عام تصویر نہیں، بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔‘‘
اب صدر صاحب اس بارے میں کیا دلیل پیش کرتے ہیں یہ تو میں نہیں جانتا تاہم
عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لئے گئے ٹیکس کا اس طرح بے دریغ استعمال
یقینا قابل مذمت ہے اور قابل افسوس بھی ۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہی پندرہ لاکھ روپے چار
معصوم بچوں کے اس غریب باپ کو دے دئیے جاتے جو اپنی غربت کے باعث دل کی
بیماری کا علاج کروانے سے قاصر ہے تو یقینا علاج کے بعد وہ غریب محنت کش
ایک صحت مند زندگی گزار سکتا تھا اوراپنے بچوں کی بہتر پرورش کر سکتا تھا،
، اگر یہ پندرہ لاکھ روپے اس پانچ سالہ بچی کے والدین کو دے دئیے جاتے جو
پیسے ہونے کی وجہ سے اس کے دماغی کینسر کا علاج نہیں کروا پا رہے تویقینا
اس پانچ سالہ بچی کا علاج بھی ممکن ہو جاتا اور ایک ماں کی خوشیاں واپس آ
سکتی تھیں، اگر یہ پندرہ لاکھ روپے اس بیوہ کو دے دئیے جاتے جو ٹریفک حادثے
کی نذر ہونے والے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنی تین بیٹیوں کی کفالت توکر
رہی ہے مگر ان کی شادیاں نہیں کر پا رہی تو یقینا اس خاندان کے معاشی مسائل
کا تدارک ممکن تھا اور اس ماں کا بوجھ کسی حد تک کم ہو جاتا اور اگر یہ
پندرہ لاکھ روپے اس یتیم بچے کو دے دئیے جاتے جس نے میٹرک میں اسی فیصد
نمبر حاصل کئے مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کر سکا تو کل
کو وہ بھی ڈاکٹر عبداالقدیر بن سکتا تھا، ڈاکٹر عبدالسلام بن سکتا تھا،
ڈاکٹر ثمر مبادک مند بن سکتا تھا، جنرل اشفاق پرویز کیانی بن سکتا تھا،
جنرل راحیل شریف بن سکتا تھا۔مگر ہائے افسوس کہ میرے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ
قوم مفلس ، بیمار اور جاہل ہی چاہیئے تاکہ وہ ہمیشہ اقتدار کا مزہ لے سکیں
اور اپنی من مانیاں کر سکیں۔ |