فطرتِ انسانی میں جشن پسندی کا عنصر رکھا گیا ہے۔انسان
Celebrative Natureرکھتا ہے۔اسی لیے واقعاتِ غم کو جلدازجلد بھلادینااور
انعام و اکرام کویاد کرتے رہنا پسند کرتا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔فطرت کاہر
ہر اصول نظامِ شریعت کی تائید و حمایت کرتا ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ شریعتِ
اسلامی میں ایامِ ماتم صرف چند دن تک محدود ہیں مگر خوشی اور جشن منانے کے
لیے کوئی قیدنہیں لگائی گئی،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں جگہ جگہ
اﷲ کی نعمتوں، انعام و اکرام اور ایام اﷲ کو یاد کرنے ،منانے ، چرچا کرنے
کا حکم دیا۔اس کے علاوہ انسان امتحان میں کام یابی پر خوشی مناتاہے،شادیوں
پر عمدہ سجاوٹیں اسی ضمن میں کی جاتی ہیں،جائز مقاصد میں کام یابی پربھی
مسلمان مختلف طریقوں سے اظہارِ مسرت کرتے ہیں،دعوت و ضیافت بھی جشن ہی کا
حصہ ہے ۔اس کے علاوہ جشن کے اور کئی مواقع،طریقے اور انداز ہیں جن کامشاہدہ
ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں۔
تصورِعیداور دو عیدیں:قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
گذشتہ اُمتوں کی طرح اُمت مسلمہ میں بھی انعام و اکرام ملنے پر خوشی اور
جشن کا اہتمام کیا گیا۔یومِ عاشورہ کو جن واقعات سے نسبت ہے ان میں اﷲ کریم
کے اپنے بندوں پر انعام و اکرام ہی کی وجہ سے عید کے طور پر منایا جاتا
رہااور اسی نسبت کی بنا پر یومِ عاشورہ کی اہمیت و خصوصیت کو اُمت مسلمہ
میں بھی برقرار رکھا گیا۔اسی طرح فراعنہ کے پنجۂ استبداد سے نجات اور نزولِ
سکینہ کے دن کو بھی انبیاے سابقین اور ان کی اُمتوں نے یومِ عید کے طور پر
منایا۔غرض کہ ذکر وتحدیثِ نعمت کا نبوی طریقہ رہا ہے کہ ان ایام کو بطورِ
جشن یا عید منایا جاتا رہا ،جن کا ذکر قرآن و حدیث میں جگہ جگہ ملتا
ہے۔اسلام میں صراحتاً عیدالفطر اور عیدالاضحی کو بطورِ عید یاد کیا گیا
ہے،یہ ایام بھی اﷲ کی نعمتوں،انعام و اکرام کے شکرانہ ہیں۔مگر اس کا یہ
مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ’’اسلام میں صرف دو ہی عید کا تصور ہے۔عیدالفطر اور
عیدالاضحی کے علاوہ کسی تیسری عید کی گنجائش نہیں۔‘‘اگر کوئی شخص اس کا
دعویٰ کرے تو یہ اس کے جہلِ مرکب کی علامت ہوگی کہ وہ اپنے جہل پر بھی آگاہ
نہیں۔کیوں کہ اسلام میں دو سے زائد عیدوں کا تصور ہے۔اور اسلامی تعلیمات
اورتاریخ اس پر شاہد ہے، اسلاف نے بھی ان کا اہتمام کیا ہے۔
تیسری عید’’جمعہ‘‘:اسلام میں دو عیدوں کے علاوہ بھی تیسری عید احادیث سے
ثابت ہے۔دلائل ملاحظہ کریں:
(۱)حضرت عمر بن خطاب سے ایک یہودی نے کہا کہ آپ اپنی کتاب میں ایسی آیت
پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم (یہودیوں)پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن
کو عید بنالیتے۔آپ نے اُس آیت کی بابت پوچھا تو اُس یہودی نے آیت تلاوت کی
ألْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلاَمَ دِیْناً(سورۃالمائدۃ،آیت۳)۔حضرت عمر نے
فرمایا:جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل
ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اُس وقت جمعہ کے دن
عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔(بخاری ومسلم و ترمذی،کتاب التفسیر)(یعنی
وہ(جمعہ کا) دن پہلے ہی سے ہمارے لیے عید کا دن ہے۔)
(۲)مذکورہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں سیدالمفسرین حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے
ہیں:’’بے شک یہ آیت عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ (حج )کے دن نازل
ہوئی۔‘‘(ترمذی،کتاب تفسیر القرآن،باب من سورۃالمائدۃ)
(۳)حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک یہ عید کا دن ہے
جسے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے (بابرکت)بنایاہے۔پس جو کوئی جمعہ کی نماز
کے لیے غسل کرکے آئے ،اور اگر ہوسکے تو خوش بو لگا کر آئے۔‘‘(ابن ماجہ،کتاب
اقامۃالصلوٰۃ،باب فی الزینۃ یوم الجمعۃ)
(۴)مذکورہ آیت سے متعلق اس یہودی کے سوال کاجو جواب حضرت عمر اور حضرت
عبداﷲ بن عباس نے دیا تھا اس کی اکابر ائمہ،فقہا اور محدثین نے سنن
نسائی،فتح الباری،المعجم الاوسط،المعجم الکبیر،تفسیرابن کثیر،تفسیر طبری
وغیرہ میں یہی تفسیر کی ہے کہ اُس آیت کے نزول کا دن پہلے ہی سے ہمارے یہاں
دو عید کا مقام رکھتا ہے ایک جمعہ اور دوسری عیدالاضحی جس دن میدان عرفات
میں حج کا رکن ادا کیا جاتا ہے۔جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کی
’’تیسری عید‘‘ یومِ جمعہ ہے جو اسلامی شان و شوکت کے ساتھ ہر ہفتہ منائی
جاتی ہے۔غسل کیا جاتاہے،دھلے ہوئے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں،اچھے اچھے کھانے
بنائے جاتے ہیں اورخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
قرآن کا اسلوبِ بیان:یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ اسلام میں عیدالفطر اور
عیدالاضحی کے علاوہ بھی عید کا تصور ہے۔اور جمعۃ المبارکہ کو بھی احادیث
میں عید ہی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔جمعہ کے یوم عید ہونے کی وجہ معلوم
کرنے سے پہلے یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے اسلوبِ بیان اور
اندازِ تربیت کی ایک مثال سمجھتے چلیں۔قرآن پاک میں اﷲ پاک نے اپنے بندوں
کی تربیت کے لیے کہیں کہیں اشارے کنائے اور کبھی معمولی سی مثالوں یا تنبیہ
کے ذریعے بڑی بڑی اور غیر معمولی باتوں اور احکام کی تعلیم فرمائی ہے۔مثلاً
اﷲ کریم نے قرآن میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے متعلق فرمایا کہ’’
اپنے ماں باپ کو’’ اُف‘‘تک نہ کہو۔‘‘(القرآن)……اس حکمِ قرآنی کی روشنی میں
مسلمان کواپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور ان کی نا فرمانی
اور ایذارسانی سے بچنا چاہیے۔ قرآن نے ’’اُف‘‘تک نہ کرنے کی تعلیم دے کر
والدین کو مارنے،گالیاں بکنے اور بدسلوکی سے بچنے کی بھی تعلیم دے دی۔اسی
طرح اﷲ کریم نے قرآن مجید میں اممِ سابقہ کی عیدوں کے حالات اور وجوہات
بیان کیے ہیں کہ وہ اﷲ کی نعمتوں کے ملنے کے شکرانے میں عید مناتے تھے۔جس
سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اﷲ کی نعمتوں کے ملنے کی خوشی میں جشن اور عید
منانی چاہیے،حصولِ نعمت کے دن عید ٹھہرے ،نزولِ رزق کے دن عید ٹھہرے اور جس
دن اﷲ کریم نے اپنے فضل سے اپنی سب سے عظیم نعمت بلکہ جانِ نعمت،قاسمِ نعمت
مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کوعالمِ بشریت میں جلوہ گرکیا تو
وہ دن سب سے بڑی عید’’عیدوں کی عید‘‘ کا دن نہ ٹھہرا۔؟کیوں کہ
عیدالفطرہویادوسری عیدالاضحی ہو یا عیدالجمعۃ ہو سب کے سب میلادُالنبی صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا صدقہ ہے۔امامِ اہلِ سنت امام احمد رضاؔقادری فرماتے
ہیں:
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
جمعہ کی فضیلت کیوں؟:اب دیکھیے یومِ جمعہ کو کیا فضیلت حاصل ہے کہ اسے یوم
عید کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث حضرت اَوس بن اَوس سے مروی ہے کہ
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے دنوں میں سب سے
افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق(یعنی ولادت
)ہوئی،اس روز ان کی روح قبض کی گئی۔‘‘(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب تفریح ابواب
الجمعۃ و فضل یوم الجمعۃ و لیلۃالجمعۃ)
جس دن حضرت آدم کی تخلیق ہو وہ دن یوم عید ہو اور ہر ہفتہ منایا جائے اور
جس دن امام الانبیا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ ہو وہ
دن عیدکیوں نہ ہو۔؟بلا شبہہ یومِ ولادتِ رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم بھی عید کا دن ہے۔اور ایسی عید جس کی صدقہ میں کائنات کو عیدیں عطا
ہوئیں۔
دنوں کی اہمیت:اسلام میں مبارک و مسعود دنوں کو کافی اہمیت حاصل ہے
۔پروفیسر مسعود احمد نقش بندی لکھتے ہیں:’’جس دن اﷲ کے محبوبوں کی زندگی
میں کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے اس دن کو ’’ایام اﷲ‘‘میں شمار کرلیا جاتا ہے
اور جو واقعہ پیش آتا ہے اسے ’’شعائراﷲ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔‘‘(جشنِ
بہاراں،ص۱۳،نوری مشن مالیگاؤں)……خود حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم نے بھی مخصوص دنوں کو یاد کیا ان میں مخصوص اعمال انجام فرماکر دنوں
کو مخصوص کیا۔چناں چہ حضرت ابوقتادہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ نے
فرمایا:اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز
میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘(مسلم شریف،کتاب الصیام)
مذکوہ حدیث میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین ایام کوذکر کیا پہلا
یومِ ولادت،دوسرا یومِ بعثت اور تیسرا یومِ ابتدائے نزول قرآن۔غور طلب بات
یہ ہے کہ اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نزدیک دنوں کی کوئی اہمیت نہیں
تھی تو آپ نے حضرت آدم کی ولادت و وفات کے دن جمعہ کو عید کیوں فرمایا؟اپنے
یومِ ولادت،یومِ بعثت اور یومِ ابتدائے نزول قرآن کے دن روزہ کا اہتمام
کیوں فرمایا کرتے تھے؟……یقینا آپ نے اپنی اُمت کو درس دیا کہ انبیا اور
محبوبینِ خدا کے مخصوص ایام کو یاد کرنا چاہیے اور ان کا اہتمام بھی کرنا
چاہیے۔مذکورہ حدیث ان لوگوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے جو لو گ ہر سال’’ جشن
نزولِ قرآن‘‘،’’جشن دستار بندی‘‘،’’العیدالوطنی‘‘ کے نام سے سعودی ڈے اور
ناجانے کیا کیااور کیسا کیسا جشن مناتے ہیں مگر جشن ولادتِ رحمت عالم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم،عید میلادُالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منانے کواپنے
فتوؤں کی توپ سے مجروح کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
پہلی عید:عید میلادُالنبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی پہلی عید ہے۔کیوں کہ
تخلیقِ آدم سے بھی پہلے نورِ محمدی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تخلیق ہوچکی
تھی اور حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سرِاقدس پر تاجِ نبوت و
رسالت سجا کرانہیں نبوت ورسالت کا تاج دار بنادیا گیاتھا۔چناں چہ دیوبندی
مکتبِ فکر کے پیشوا مولانا اشرفعلی تھانوی صاحب اپنی کتاب ’’نشرالطیب‘‘ کے
آغاز میں مُصَنَّف عبدالرزاق کی وہ حدیث جس میں حضور رحمت عالم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کو اوّل الخلق فرمایا گیا ہے،کے ضمن میں نقل کرتے
ہیں:’’اس حدیث سے نورِ محمدی کا اوّل الخلق ہونا باوّلیت حقیقیہ ثابت
ہوا۔‘‘ (نشرالطیب،ص۵،دارالکتاب دیوبند)……پھر آگے چل کر ایک اور حدیث نقل
کرتے ہیں:’’حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اﷲ!آپ کے لیے
نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی؟آپ نے فرمایا کہ جس وقت میں کہ آدم علیہ السلام
ہنوز روح اور جسد کے درمیان میں تھے۔(یعنی ان کے تن میں جان بھی نہ آئی
تھی)‘‘(ایضاً،ص۶)
مذکورہ احادیث اکابر و اسلاف، علما و محدثینِ اسلام نے بھی نقل کیں اور
کتبِ احادیث میں مذکور ہے مگر یہاں تھانوی صاحب کا حوالہ اس لیے دیا گیا کہ
ان کے معتقد افراد کے لیے بھی سامانِ درس ہو۔بہر حال حضور اقدس صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی تخلیق اور انہیں منصبِ نبوت پر سب سے پہلے فائز کیا
گیااور تمام انبیا کے آخر میں مبعوث فرماکر خاتم النبیین کا شرف بھی عطا
کیا گیا۔گویانورِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نظمِ رسالت کا چمکتا ہوا
مطلع ہے اور ولادتِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اسی نظمِ رسالت کا مقطعِ
انوار ہے۔تو ثابت ہوتا ہے حقیقتاً پہلی عید میلادِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم ہی ہے بقیہ تمام خوشیاں،تمام عیدیں،تمام انعامات،تمام اکرام و
الطاف اور تمام اسلامی جشن اسی بارہویں تاریخ والے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کا صدقہ و عطیہ ہیں۔
تمام ہوگئی میلادِ انبیا کی خوشی
ہمیشہ اب تری باری ہے بارہویں تاریخ |