شاید بہت سے لوگوں کو بُرا لگے مگر سچی بات یہ ہے کہ
برصغیر کے لوگوں کے خمیر میں دو چیزیں پوری طرح رچی بسی ہیں۔ ایک شاہی اور
دوسری غلامی۔ اتفاق سے بھی اگر کسی کے ہاتھ اقتدار آ جائے تو وہ خود کو
بادشاہ سمجھتا ہی نہیں نظر بھی آنے لگتا ہے۔ اور اگر اقتدار میں نہ ہو تو
غلام بننے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا بلکہ غلامی کو قسمت جان کر
پوری طرح قبول کر لیتا ہے۔ کبھی کبھی کچھ آشفتہ سر غلامی کو قبول نہیں کرتے
اور بغاوت پر اُتر آتے ہیں مگر غلامانہ ذہن والوں کی اکثریت کی بنا پر اکثر
ناکامی ہی سے دوچار ہوتے ہیں۔
بادشاہی پر اناطرزِ حکومت تھا اور بادشاہ ہمیشہ آمر ہی ہوتا تھا ۔مگر اُس
وقت وہ آمر نہیں کہلاتا تھا۔ آجکل کے بادشاہ کا نام ہی آمر رکھ دیا گیا ہے۔
آمریت ایک طرزِ عمل ہے اور ضروری نہیں کوئی آمر فوجی ہی ہو۔ اس طرزِ عمل کو
وردی سے موسوم کرنا غلط ہے۔ آزادی کے فوراً بعد چند سال چھوڑکر آج تک
پاکستان کسی نہ کسی آمر کے زیر تسلط رہا ہے۔ جب سیاسی آمر کمزور ہوئے تو
فوجی آمروں نے اُن کی جگہ لی اور جب فوجی آمر عوام میں اپنی ساکھ برقرار نہ
رکھ سکے تو سیاسی آمر یا کوئی دوسرا آمر اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن
گیا۔
تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو جب کوئی فوجی آمر آیا اُسے عوام نے پوری
طرح خوش آمدید کہا کیونکہ سیاسی حماقتوں سے لوگ تنگ آچکے ہوتے تھے اور
سیاسی لوگوں سے نجات کے لیے دعا گو ہوتے تھے۔ آج کے بر سرِ اقتدار لوگ
تاریخ مسخ کرکے چاہے کچھ کہہ لیں مگرسچ تو یہی ہے کہ لوگ 12اکتوبر 1999ء
کو جمہوری حکومت سے خوش نہیں تھے۔ پرویز مشرف کی آمد کو عوام کی اکثریت نے
پسند کیا۔ اُسے خوش آمدید کہا۔ مٹھائیاں بانٹیں اور جشن منائے۔ آج نوازشریف
کے بہت سے ہمنوا جو ہمارے سیاسی کلچر کے زیر اثر شرمندگی تو کیا کوئی احساس
بھی نہیں کرتے کل تک پرویز مشرف کے حلقہ اراوت میں رہے اور اُس کی عظمت کے
گُن گاتے رہے ہیں۔
آمریت کیا ہے اور آمر کون ہے اس کی تعریف مختلف کتابوں اور ڈکشنریوں میں
کچھ یوں ہے۔
آمریت سے مراد وہ طرزِ حکومت ہے جس میں اختیار کسی فر دِ واحد کے پاس ہو جو
حکومت کو اپنی مرضی سے چلائے۔
آمریت وہ طرزِ حکومت ہے جسے ایک شخص اپنے مطابق چلاتا ہے۔ یہ شخص منتخب بھی
ہوسکتا ہے اور موروثی حکمران بھی۔ اُس کا آمر ہونا اس سے عبارت ہے کہ اُس
کا کہا حتمی ہوتا ہے۔
آمر وہ شخص ہے جس کی غلامی لوگ نا چاہنے کے باوجود قبول کرنے پر مجبور ہوتے
ہیں۔
آمریت وہی چیز ہے جسے لوگ صدیوں بادشاہت کے نام سے قبول کرتے رہے ہیں۔ ماضی
میں یہ موروثی ہوتی تھی مگر چونکہ لوگ اب تبدیلی پسند ہیں اس لیے وہ ممالک
جہاں لوگ باشعور ہیں انہوں نے آمریت چھوڑ کر جمہوریت اپنا لی ہے مگر جہاں
شعور کی کمی ہے وہاں بادشاہت کے چاہنے والے جمہوری آمر تلاش کر لیتے ہیں جو
بدلتے رہتے ہیں۔
آمر وہ شخص ہے جس کے پاس حتمی طاقت ہوتی ہے۔ اکیلا شخص جو ہر چیز پر قدرت
رکھتا ہے چاہے وہ سیاست میں ہو کسی خاندان میں ہو۔ کسی گروپ میں ہو۔ کوئی
استاد جو کسی کلاس روم میں ہو یا کوئی شخص جو کسی بھی مقصد کے لیے گروپ
لیڈر ہو۔
یونانی لفظ (Dictare) کے معنی ہیں دھرانا یا ایک ہی بات بار بار کہنا۔
آمریت میں ایک ہی شخص کی طاقت ہر مقصد کے لیے دھرائی جاتی ہے ۔ اور وہ
جانتا ہے کہ (My way or the HIghway)یعنی اُس کا کہا ہی حکم عظیم ہے۔ اور
اُسی کا بنایا ہوا راستہ عظیم راستہ ہے۔
آمر وہ شخص ہے جو طاقت یا دھوکہ دہی کی بنا پر سیاسی قوت حاصل کرلیتا ہے
پھرزور زبردستی کے بل پر انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو
دوام بخشتا ہے مزید یہ کہ غلط تشہیر کا سہارا لے کر خود کو ہیرو بنانے پر
عمل پیرا ہوتا ہے۔
آمر وہ با اختیار شخص ہے جو آئینی یا غیر آئینی کسی بھی طریقے سے اقتدار
حاصل کرکے اُسے پوری طرح استعمال کرے اور دوسروں کے اختیارات سلب اور حقوق
پامال کرکے خود کو مزید قوت دے۔
قدیم رومن ریپبلک میں مملکت یا حکومت کو جن لوگوں سے شدیدخطرہ ہوتا تھا اُن
لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک مجسٹریٹ مقرر کیا جاتا تھا جسے وسیع اختیارات
دیے جاتے تھے ۔ وہ بے پناہ اختیارات کا حامل مجسٹریٹ ڈکٹیٹر کہلاتا تھا۔
ڈکٹیٹر کا لفظ اُسی بے پناہ اختیارات کے مالک مجسٹریٹ سے ماخوذ ہے۔
دنیا بھر کے لوگ بادشاہوں کی صورت میں ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے زیر تسلط رہے لیکن
اب انسانی سوچ بہت آگے نکل چکی ہے۔ انسان نے کسی حد تک اپنی مرضی سے جینا
سیکھ لیا ہے۔ لوگ اپنے حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس لیے اپنی مرضی کی
حکومت اور اپنی مرضی کے لوگ منتخب کرتے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی کیوں نہیں
آتی شاید اس وجہ سے یہ ہے کہ ہم لوگ غلامانہ ذہنیت سے چھٹکارہ نہیں پاسکے۔
ہم غلام تھے، غلام ہیں اور شاید بہت دیر تک غلام رہیں گے۔ ہماری سوچ بہت
سطحی ہے۔ ہم کسی بھی چھوٹی سی خوبی کی بنا پر کسی کو ہیرو بناتے اور حکمران
چن لیتے ہیں۔ پہلے وہ ہمارا لیڈر ہوتا ہے۔ پھر اُس کی اولاد اور پھر اولاد
کی اولاد ہم خاندانی غلام بن کے رہ گئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ہمارا لیڈر تھا۔ اُس کی بیٹی چونکہ ہمارے خیال میں ذہین
تھی اس لیے وہ بھی ہماری لیڈر تھی۔ مگر حد ہے بھٹو کی عقیدت کی بنا پر
زرداری بھی ہماراہیرو اور لیڈرہے اور مزید کمال یہ ہے کہ ز رداری کا نا
بالغ بیٹا بھٹو کی چھاپ کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری بن کر ہمارا مستقبل کا
لیڈر ہے۔ رہبر ہے۔ حکمران ہے۔ ہم گود سے گور تک لیڈر پالتے اور اُن کی
غلامی کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں۔ میاں شہباز شریف پہلے تو اُن کے بھائی ہونے
کے ناطے ہمارے لیڈر تھے۔ مگر اب اپنی کارکردگی کی بنا پر خود بھی ایک مستند
لیڈر ہیں۔ حمزہ شہباز شہزادے ہونے کی وجہ سے لیڈر ہیں۔ یہی خوبی سلمان
شہباز میں بھی ہے۔ مریم نواز اور اُن کے میاں ہمارے بڑے لیڈر ہیں۔ میاں
صاحب کے خاندان کی بات بیٹے اور بیٹیوں پر ہی ختم نہیں ہوتی اُن کے دور
دراز کے سبھی رشتہ دار بھی ہمارے لیڈر اور ہمارے رہبر ہیں۔ ووٹ دیتے وقت
ہمارا کوئی دوسرا معیار نہیں ہم میاں خاندان کے غلام ہیں اور بحیثیت غلام
اُن کے ابرو کے اشارے کے منتظر۔ ابھی میاں صاحب کے پوتے اور نواسے منظر عام
پر نہیں آئے۔ لوگوں کو نام پتہ لگنے کی دیر ہے۔ اُن کی لیڈری میں کوئی دیر
نہیں۔
جناب جسٹس افتخار چوہدری پاکستان عدلیہ ہی کا نہیں پاکستان کا ایک بہت بڑا
نام ہے۔ ایک عرصہ تک سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس رہے۔ مشرف کے سامنے
انکار کی بنا پر معزول ہوئے اور جب دوبارہ عوامی حمایت کے نشے سے سرشار چیف
جسٹس کے طور پر سامنے آئے تو اُن کا اندازِ عدل بہت مختلف تھا۔ 7جولائی
2012ء کو انہوں نے کراچی رجسٹری میں وکلا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین
کا آرٹیکل 8(جو بنیادی حقوق کے متعلق ہے)اُنہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ آئین
کی وضاحت کریں اور ہر معاملے کو دیکھیں۔ چنانچہ انہوں نے اسمبلی اور بیور
کریسی سمیت ہر ایک کے خلاف اپنا حق استعمال کیا۔ اور اپنی مطلق العنانی
ثابت کرنے اور عوام سطح پر اپنا تشخص بنانے کے لیے ہر حربہ اپنایا۔شاید یہی
وجہ کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ افتخار چوہدری چیف جسٹس
ہو۔ پرویز کیانی چیف آف آرمی ہو تو وزیر اعظم کے حصے میں گالیوں کے سوا کیا
آئے گا۔
سوچنے والوں کو سوچنا چاہیے۔ فوجی ہی آمر نہیں ہوتے۔ ہر مطلق العنان آمر
ہوتا ہے۔ ایوب ضیا اور مشرف فوجی آمر تھے تو بھٹو اور نوازشریف سمیت سارے
سیاستدان سیاسی آمر تھے۔ لیکن پچھلے چند سال اس ملک پر حکمرانی نہ تو فوج
کی تھی اور نہ سیاستدانوں کی۔ عملاً حکمرانی عدلیہ کی تھی اور اگر عدلیہ
حکمران تھی تو کیا وقت کا چیف جسٹس ایک آمر تھا یا نہیں سچ بولنا مشکل سہی
مگر میر ہے بہت سے لوگ سچ بولیں گے اور تاریخ کو تو سچ بولنے سے کوئی روک
نہیں سکتا۔ |