کہتے ہیں کہ اگر انسان صبح صبح کچھ اچھا دیکھ لے تو اُس
کا پورا دن اچھا گزرتا ہے مگر ہمار ے مُلک میں اچھی خبریں کم کم ہی سُننے
کو ملتی ہے کیونکہ جب ٹی وی کھولو تو نیوز چینل پر کوئی دہشت زدہ خبر ملتی
ہے اور اگر کوئی انٹرٹینمنٹ چینل لگاؤ تو سوائے شادیوں کے علاوہ کچھ نہیں
آتا ہے لگتا ہے کہ پاکستان میں شادی کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں چونکہ
آجکل ہر چینل نے اپنی ایک ہی روایت بنا لی ہے کہ جیسے اُ ن کے پاس اور کوئی
اچھا موضوع زیر بحث نہیں رہا اس لیے عوام کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے
فالتو اور بے معنی ہتھکنڈوں سے پروگرام پیش کیا جاتا ہے تقریباً ہی تمام
مشہور چینل جو کہ عوام میں بے حد مقبول ہیں اُ ن کے ذریعے سے ہی معاشرے میں
فحا شی پھیلائی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی ایک روایت بنا لی ہے کہ جس
کی شادی نہ ہو رہی ہو وہ ان سے رابطہ کرے تو وہ ضرور ان حضرات کی شادی
کرائیں گے اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں چند ایک چیزوں کے
علاوہ اور کسی چیز کی ضرورت نہ ہو جیسے ،اور کوئی مقصد نہیں ان ـــمارننگ
شوز کا ۔
کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور ہم سب مسلمان شہری ہیں اور اس
سلسلے میں ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی اسلامی طرز پر
گزاریں اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر اسلامی اُصولوں کو مد نظر رکھیں جہاں
تک ممکن ہو سکے اور جہاں تک شادی کی بات ہے شادی ایک نہایت پاکیزہ بندھن ہے
اور اسلام میں نہایت سادگی کے ساتھ کرنے کا حکم ہے جبکہ ہمارے مارننگ شوز
میں اس کے بالکل برعکس منظر پیش کیا جاتا ہے ہر طرف ایک اودھم چوکڑی کا
منظر نظر آتا ہے ایک طرف کُھلے عام خواتین و حضرات نہایت مگن ہو کے ڈانس
کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف آستینوں سے خالی لباس ،اور خصوصاً دوپٹے سے
عاری خواتین کا سراپا نظر آتا ہے ٖغرض یہ کہ ہر طرف بے ہودگی کا ایک منظر
بپا ہوتاہے جس میں مرد و خواتین ایک دوسرے کو طاق کرنے کی کوشش میں ہوتے
ہیں اور طرح طرح کے فیشن زدہ لباس کی نمائش بی سرعام ہوتی ہے
یہ شادیاں جس طرح کا نمونہ پیش کرتی ہے کیا یہ ہماری ثقافت سے میل کھاتا ہے
؟کیا ہماری ثقافت اس طرح کی نمود و نمائش سے ملتی ہے ؟اگر دیکھا جائے تو ان
میں سے کوئی ایک چیز بھی ہماری ثقافت کا حصہ نہیں اور نہ ہی ہماری اسلامی
تہذیب کو اُجاگر کرتی ہے بلکہ اُلٹا اس سے ہمارے معاشرہ اثر انداز ہو رہا
ہے کیونکہ ان شوز میں بجائے سادگی کے غریب عوام کی خواہشات کو اور اُبھارا
جاتا ہے جس سے لوگوں کے ذہنوں پر بجائے سادگی کے نمائش کا عنصر حاوی ہوتا
جا رہا ہے اور جب غریب انسان اپنی بیٹی کی شادی کے بارے میں سوچتا ہے تو
پہلے اُس کو جہیز کی تمام اشیاء کے بارے میں اور پھر لوگوں کو خوش کرنے کا
سوچنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں شادی جیسی سُنت ایک مُشکل امر بن جاتا ہے ۔
آجکل کیونکہ ہر کام کو میڈیا کی آزادی کے نام پر کیا جاتا ہے اور اگر کوئی
اس پر تنقید کرے تو فوراً ہی میڈیا پر پابندی کا نعرہ بلند کر دیا جاتا ہے
آزادی میڈیا کے نام پر بے شرمی کا بازار گرم رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ اور
انٹرٹینمنٹ کے نام پر فحاشی عام کرنا کوئی آزادی تو نہیں !پاکستان ایک
اسلامی مُلک ہے اس بات کا خیال ہمارے میڈیا کو بھی رکھنا چاہیے کہ کم از کم
اتنا تو خیال رکھیں کہ جو کچھ ہم دکھاتے ہیں وہ پُوری دُنیا دیکھتی ہے کہیں
ایسا تو نہیں کہ دُنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہو گا ، اس لیے میڈیا کو
چاہیے کہ اپنی حدود و قیود کا خا ص خیال رکھے اور آزادی کو اچھے فعل کے لیے
استعمال کرے ۔ |