اخبارات کا تفریبا ہر صفحہ پولیس کے اعلیٰ افسر چوہدری
اسلم کے ایک بم حملے میں جاں بحق ہونے کی خبروں سے بھرا ہے۔ کراچی میں ایک
جانب منفی عناصر منظم طریقے سے شہر کو بدامنی کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں تو
دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے کام میں مگن ہیں۔ جیسے ہی
کراچی میں قیام امن کی کوششوں میں سیکورٹی اداروں کو کامیابی ملنا شروع
ہوئی، منفی عناصر نے سی آئی ڈی کے چیف چوہدری اسلم کو ایک حملے میں نشانہ
بنا ڈالا۔
گزشتہ سال کے اواخر میں شہرقائد کے حالات قدرے پرامن ہوگئے تھے جس سے کسی
حد تک قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوتا
دکھائی دے رہا تھا۔چوہدری اسلم پر حملے کی خبر ملنے سے کچھ ہی دیر قبل
ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کا یہ بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ ’’
زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے، حالات کی بہتری کے لیے قربانیاں دینی
پڑتی ہیں‘‘ شاید پولیس چیف شاہد حیات کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے بیان سے
کچھ ہی دیر بعد قیام امن کی یہ کوشش ایک اور اعلیٰ افسر کی قربانی مانگ لے
گی۔
پولیس کے فرائض کسی زمانے میں آسان نہیں رہے، بڑھتی ہوئی آبادی ،بدلتے ہوئے
معاشی ومعاشرتی حالات ، بیروز گاری و اسلحہ کی فروانی اور دہشتگردی نے
جرائم کی صورتحال پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ایسے میں پولیس کے
بنیادی فرائض میں مجرموں سے نبرآزما ہونا، عوام کے جان ومال کا تحفظ، ان کی
شکایات کا ازالہ کرنا، عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے کم کرنے کیلئے غیر
جانبداری، پیشہ ورانہ مہارت، خوش اخلاقی اورفرض شناسی کے ساتھ ساتھ اپنی
جان پر کھیل کر ملک دشمن عناصر کے خلاف کاروائی کرنا ان کی اولین ذمہ داری
ہے ۔
چوہدری اسلم اور شاہد حیات نے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کو بروئے کار لاکر
جرائم کے خاتمے ایک اہم رول ادا کیااور سماج دشمن عناصر کے خلاف سینہ سپر
رہے۔ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا چوہدری اسلم خود وہاں حالات
کنٹرول کرنے کے لیے نظر آئے۔ چوہدری اسلم کو اس سے قبل بھی متعدد بار
قاتلانہ حملوں میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ہربار وہ معجزانہ طور
پر بچ جاتے رہے لیکن بالآخر دہشت گردوں کا یہ حملہ ان کی لیے آخری ثابت ہوا۔
گزشتہ سال کے دوران کراچی میں تقریباً 124 پولیس اہلکاروں کا قتل ہوئے جن
میں دو ڈی ایس پی بھی شامل تھے اور اکثریت سپاہیوں اور ہیڈ کانسٹبلز کی تھی
جب کہ اس دوران 10رینجرز اہلکاروں اور 30 فوجیوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ۔
عوام کو تحفظ دیتے ہوئے نشانہ بننے والے ان سیکورٹی اہلکاروں کے اہل خانہ
کے لیے ممکن ہے حکومت کی جانب سے چند لاکھ روپے امداد کا اعلان کردیا ہو۔
لیکن بظاہر دیکھا جائے تو یہ ناکافی ہے۔ پولیس کے اہلکار بظاہر خود عدم
تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ نے عموما دیکھا ہو گا کہ موٹر سائیکل پر دو یا
موبائل میں پانچ چھ کی تعداد میں پولیس اہلکار دکھاوے کے لیے گشت پر ہوتے
ہیں ۔ لیکن اس گشت کا مقصد جرائم پر نظر نہیں بلکہ ، تھانے ، گھر، گشت کے
لیے پٹرول ، خراب موبائل کی مرمت ،اپنے افسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے
اخراجات جمع کرنا ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے انہیں سٹرک پر چلنے والی گاڑیوں
سے سو پچاس روپے مانگ کر، تعمیر ہونے والے مکانوں سے مٹھائی لینے جانے کے
علاوہ اور نہ جانے کہاں کہاں جا کر خوار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے عمل سے پولیس
والوں کے لیے عوام کی نظر میں عزت نہیں رہی۔
ایسا کیوں ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان دوری ہے۔ لوگ پولیس والوں سے
اتنے خوف زدہ ہیں کہ تھانے تک نہیں جاتے۔ اگر پولیس اور عوام ایک دوسرے کے
قریب ہوں تو پھر کوئی بھی منفی طاقت نہ پولیس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ
عوام کا۔ پھر لوگ سڑک پر کھڑے پولیس اہلکاروں سے جان چھڑنے کے لیے دائیں
بائیں سے نکلنے کے بجائے ، ان کا احترام کریں گے۔ ان کو سیلوٹ کریں گے اور
خود پولیس کے خادم بن جائیں گے۔لیکن جب قانون کے محافظ ہی بے حس ہوجائیں تو
پھر عوام عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ان کا اپنے محافظوں پر بھی
اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ جس سوسائٹی میں جرائم پیشہ افراد قانون سے زیادہ
طاقتور ہوں اس معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔
چوہدری اسلم تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن شاہد حیات سمیت پولیس اور
قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ افسران کو پولیس کا وقار بلند کرنا ہو گا، اور
پولیس کا وقار اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے سے ہی ہو گا۔ پھر لوگ پولیس
کے محکمے کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ پڑھے لکھے اور محب وطن طبقے میں
سے نوجوان محکمہ پولیس کا رخ کریں گیاور اپنی خدمات پیش کریں گے۔ جس سے
چوہدری اسلم جیسے نڈر پولیس افسران کی کمی پوری ہو سکے گی۔ جس سے وطن عزیز
میں امن کو فروغ ملے گا اور مجرمان پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت
مضبوط ہو گی۔
|