گھن گرج میں ہے ان کی اک زبان پو
شیدہ
با دلو ں کی بولی کو بجلیا ں سمجھتی ہیں
مفت میں جو ہو تے ہیں قتل بیگناہو ں کے
ان کے خو ن کی قیمت نالیا ں سمجھتی ہیں
حضرت وا صف علی واصف فرماتے ہیں غا فل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بند ہو
نے کو ہوتی ہے ۔ اﷲ اﷲ کرتے 2013 کا سور ج بھی آخری رات کی تا ریکی میں ڈوب
گیا اور رواں سال 2014 کی کرنیں چا رسو ں جگ مگا نے لگیں کیا ہی خو ب تھا
کہ گذشتہ سال کی مانند وطن عزیز سے دہشتگردی ، انتہا پسندی ، شدت پسندی ،
فکرو فا قہ ، بجلی و پانی کی لو ڈ شیڈنگ کا بحران معا شی بد حالی بے روز گا
ری،جرائم اور غربت و افلا س کا طو فان بھی ڈھل جا تا نئے سال اور نئے دور
میں خو شیو ں راعنائیو ں فرحتو ں راحتوں مسرتو ں اور روشنیو ں کا دور دور ہ
ہو تا عظیم تھے وہ لمحات جب ایک جمہو ری حکومت نے اپنا مقررہ وقت پو ری آب
و تاب سے پو را کرتے ہو ئے نئی جمہو ریت کا روشن با ب کھل کر سامنے آگیا
لیکن پاکستانی با شعور باسعادت اور با کردار عوام کو کیا ادارک تھا کہ نئی
نام نہا د جمہو ری حکو مت کیا کیا رنگ دکھائے گی اور عوام کو کن محنتو ں
مشقتو ں اور ذلتو ں کا سامنا کرنا پڑے گا اک طرف تو خیبر پختو نخواہ میں
ایک جواں مرد بچے اعتزاز حسن نے بڑی ہمت اور بہا دری کا مظاہرہ کرتے ہو ئے
اپنا فرض اور دھرتی کا قرض اتارا اور دہشتگرد وں کے لیے وبال جان ثا بت ہو
تے ہو ئے اپنی جان سے بھی ہا تھ دھو بیٹھا اور سیکیورٹی فورسز اور اداروں
کو یہ پیغام دیتا گیا کہ اب سوچنے کا نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا وقت ہے
لیکن جن حکمرانو ں اور محکمو ں کو کرپشن ، ملا وٹ اور سستی و نا اہلی کی
دیمک لگ گئی ہے وہ کیو ں کر اس وبا ء سے چھٹکا را حاصل کرسکتے ہیں شاز و نا
در ہی وہ بچے مائیں جنم دیتی ہیں جو کسی بھی منصب اور عہد ے کے بغیر بھی
اپنا اپنے ملک اپنے ماں با پ اور اساتذہ کا نام اونچا کر گزرتے ہیں سیاست
کے نا سوروں اور بد کردار حکمرانو ں نے سب سے زیادہ پنجاب کے اندر جس ادارے
اور تنظیم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا یا ہے وہ محکمہ پولیس ہے جس میں ایسی
ایسی دلخراش اور مایوس کن سانحا ت کی فہرست ملتی ہے کہ دل خون کے آنسو رونے
لگتا ہے کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پنجاب پولیس کے اندر ہر لمحہ ذولفقار چیمہ
، اطہر وحید اور اسلم خان جیسے حلا ل ذا دے پیدا ہو ں جو نہ صرف اس ادارے
پر لگے کرپشن ، سفارش ، رشوت اور سیاسی مدا خلت کے داغ دھبے مٹا دیں بلکہ
رہتی زندگی تک اسے ایک باعث فخر اور با عث افتخار تا ریخ عطا کر دیں جن کے
رگ و پہ میں ذلا لت لکھی ہو جو گندگی اور غلا ظت کو اپنانا اپنے ایمان و
ایقان کا حصہ سمجھتے ہو ں وہ بھلا ایسی مثا لو ں کو کیا بھلا برا جان سکتے
ہیں پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے محکمہ پولیس کو اپنے گھر کی لونڈی
سمجھ رکھا ہے میا ں نوا ز شریف اور میا ں شہبا ز شریف سمیت تمام وزراء ،
مشیران ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات ، با اثر اور سیاسی شخصیا ت خاص
طور پر حکمران طبقہ اس محکمہ کے ہر فرد کو اپنا ذاتی ملا زم اور زر خرید
غلا م سمجھتا ہے اور اس کی مثالیں عملی سطح پر کردار و افکا ر سے ثا بت ہو
تی ہو ئی دکھائی بھی دیتی ہیں گذشتہ ماہ دسمبر سے اب تک کا اندازہ لگایا جا
ئے توپہلوانوں کے شہر گو جرا نوالہ میں 25 سے زائد قتل ، 20 سے زائد قاتلا
نہ حملے ، 5 سے زائد پولیس مقا بلے ، 40 سے زائد اغواء ، 3 سے زائد اغواء
برائے تا وان ، 7 سے زائد زنا ، 5 سے زائد اجتماعی زیا دتی ، 15 سے زائد
ڈکیتیا ں ، 160 سے زائد چو ر یا ں، 25 سے زائد گا ڑیا ں چو ری ، 105 سے
زائد مو ٹر سائیکل چو ری ، با قی مانندہ 100 سے زائد مشترک چو ریا ں ، 200
سے زائد نا جائز ہتھیا روں کے واقعات ، 200 سے ہی زائد نا جا ئز ہتھیا رو ں
کی برآمدگی ، 2555 سے زائد گو لیو ں کی برآمدگی اور 10 سے زائد غیر قانونی
پتنگ با زی کے واقعات رونما ہو ئے لا تعدا د ایسے منشیا ت فروشی ، جسم
فروشی ، جواء اور ناجائز فروشی کے واقعات ہیں جو منظر عام پر نہیں لا ئے جا
سکتے ہیں گذ شتہ روز گو جرا نوالہ ڈسٹرکٹ سیشن کو رٹ کے احا طہ سے خو ف و
خطرے کی علا مت اجرتی قاتل مہران عر ف چندو بٹ پولیس والو ں کی ملی بھگت سے
فرار ہو گیا جس نے محکمہ پولیس کے ہی ایک ملا زم کو قتل بھی کیا تھاپو لیس
ملا زمین نے اپنے پیٹی بھا ئی کا خون محض 20 لاکھ میں فروخت کردیا۔ زندہ
افراد تو اپنی جگہ یہا ں پر پیپلز کا لونی کے ایریا میں قبرستان کی جگہ پر
قبضہ کا دردناک واقعہ رونما ہوا جس پر تاحال کو ئی ایکشن نہیں لیا گیا اور
نہ ہی قانونی و بیوروکریٹ کمیونٹی حرکت میں آئی پولیس اور انتظامیہ کے ذاتی
مفادات کے با عث دونو ں میں محافظ ما رکیٹ کے مابین جا ئز نا جا ئز تعمیر
کی سرد جنگ کئی دن منظر عام پر رہی جن لو گو ں کا کردا ر اور عمل مشکوک ہے
وہ بھلا کسی عام انسان کو کیا عدل و انصاف دیں گے ۔ تھا نہ حاجی پو رہ
سیالکوٹ کے علاقہ میں سب انسپکٹر نصیر احمد کو رشوت کے الزام میں اینٹی
کرپشن نے پہلی مرتبہ اپنی گرفت میں لیا کیو نکہ اینٹی کر پشن اور کرپشن میں
فرق بھی خا صا متراد ف و مشترک ہی دکھائی دیتا ہے شہبا ز کالونی ، مختا ر
کالونی ، ہا شمی کالو نی ، عفان جی ٹا ؤن ، شا د مان ٹا ؤن ، کنگنی والا با
ئپا س ، کچی آبا دیو ں ، کمرشل ایریا ز سیٹلا ئیٹ ٹا ؤن ، پیپلز کا لونی ،
جلیل ٹا ؤن ، ایمن آبا د ، سیالکو ٹ بائپا س ، لد ھے ولا وڑائچ ، قلعہ
دیدار سنگھ ، علی پو ر ، نو شہرہ ورکا ں ، گو ندلا نوالہ سمیت گر دونواح
علا قوں میں جرائم کی ایک لمبی چو ڑی لسٹ موجو د ہے جس کو خا نہ پو ری کے
لیے پولیس ریکا رڈ میں درج تو کیا گیا ہے لیکن اس پر کوئی عملدرآمد کر نے
کے لیے کسی جاندار ،ایماندار ، غیر جانبدا ر اور دیا نتدار پولیس کمانڈرکی
ضرورت ہے موجودہ حا لا ت کے تنا ظر میں وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ ، وزراء ،
مشیران اور ایم این اے ، ایم پی اے تو دور کی با ت ان کے عزیز اوقارب
سیکرٹری حضرات پولیس کے تبا دلو ں ، تقرر ، معطلی ، برخا ستگی اور سز ا جزا
کے فیصلے کرتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں شہر کے ارد گرد موجود پو ش ایریا ز
بھی منشیا ت فروشوں ، جواریو ں ، بھتہ خو رو ں اور جرائم پیشہ افراد کے اڈے
بن چکے ہیں ہر غنڈہ اور جرائم پیشہ شخص کی پشت پنا ہی خو د ساختہ سیاسی معز
زین بذا ت خود کرتے ہیں لا ء اینڈ آرڈر اور گڈ گو رننس کا جنا زہ نکا ل کے
رکھ دیا ہے وفا ق اور پنجاب نے با ہمی مشاورت اور معاونت سے تھا نو ں میں
حقدار کے ساتھ بھی نا انصا فی معمول کا حصہ ہے میرٹ کے مطابق بھی کسی قسم
کی ایف آئی آر کیلیے کسی ایم این اے ایم پی اے یا اثرو رسوخ کی حامل شخصیت
کا سہارا حدیث کی حثیت اختیا ر کر چکا ہے شہر بھر میں ایم این اے اور ایم
پی اے کی اجا زت کے بغیر اور من منشاء سے ہٹ کر کسی بھی قابل یا فرض شناس
دیانتدار آفیسر کی تعنیا تی محال ہے سیاسی لے پالکو ں سفا رشی ، راشی اور
کرپٹ ایس ایچ او ز نے شریف شہریو ں کو ڈا کوؤں ، لٹیروں ، بھتہ خوروں ،
قبضہ گرپو ں ، رسہ گیروں اور اشتہا ریو ں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ذہن
نشین رہے کہ یہی لٹیرے ، ڈا کو مستقبل قریب میں دہشتگردوں کا روپ دھار لیں
گے محکمہ پولیس کے آفیسران کی زیر نگرانی جواء ، جسم فروشی ، منشیا ت فروشی
او ر ناجائز فروشی کے اڈے چلا ئے جا رہے ہیں اعلیٰ پولیس آفیسران کی دوستیا
ں اور تعلقا ت نو سز با زوں ، جعل سازوں ، بد کرداروں اور بدنام زمانہ
افراد سے زیادہ گہری ہیں جبکہ مہذب با عزت با غیرت شہریو ں کو آنکھیں
دکھائی جا تی ہیں ان اعلیٰ آفیسران کو اتنا تو شعور دلوایا جا ئے کہ ہر
چمکتی ہو ئی چیز سونا نہیں ہو تی ہر ایک کا ظا ہر دیکھ کر با طن بھول نہیں
جانا چا ہیے قربت اور تعلق کا تنا سب بھی تعلیم اور معلو ما ت کے مطابق
ہونا چا ہیے اعلیٰ آفیسران کے اردگرد انکے پالتو مخبر اور انفا رمرز انکی
آنکھو ں میں دھول جھونکتے ہو ئے انہیں سب اچھا ہے کی رپورٹس دے رہے ہیں
لیکن کچھ بھی اچھا نہیں ہے اگر سب اچھا ہو تا تو بھری عدالت سے اجرتی قاتل
فرار نہ ہوتا ایس ایچ اوز کے خلا ف کوئی بھی درخواست گزار اور سائل سی پی
او آفس کا رخ نہ کرتا دن دیہا ڑے تا جر حا جی شبیر احمد کو قتل نہ کیا جا
تا جرائم کی شرح میں تیزی سے اضا فہ نہ ہو تا حسا س اداروں کی طرف سے اعلیٰ
پولیس آفیسران کی بری کا ر کردگی کی رپو رٹس اعلیٰ حکام کو نہ پہنچا ئی جا
تیں جشن میلا د کی پر نو ر گھڑیو ں میں مسلم چک علا قہ تھا نہ صدر اور فقیر
پو رہ علا قہ تھا نہ سیٹلائیٹ ٹا ؤن میں تصادم کے واقعات رونما ہوتے۔ مقا
می ایم این اے اور ایم پی اے حضرات نے قانون اور عدل و انصا ف کی دھجیا ں
بکھیر کے رکھ دی ہیں ان کی پسند نا پسند کو ملحو ظ خا طر رکھتے ہو ئے ان کی
اجا زت سے ان کے علاقہ تھانہ میں انکا منظور نظر ایس ایچ او تعنیا ت کیا جا
تا ہے جو ایف آئی آر درج کرتے ہو ئے با قاعدہ سٹیٹ منسٹرز اور ایم این اے
ایم پی اے کا حوالہ دیکر اعلیٰ آفیسران کو بھی حق سے روک دیتا ہے یہی سلسلہ
جو ں کا تو ں چلتا رہا تو پولیس کا نام و نشا ں مٹ جا ئے گا آر پی او اور
سی پی او صاحبا ن کو چا ہیے کہ اپنے پیش رو بہتر کا رکردگی کا مظاہرہ کرنے
والے کما نڈر ز کی پیروی کرتے ہو ئے محکمہ پولیس کی روز بروز گرتی ہو ئی
ساکھ کو سہارا دیں ورنہ عوام کا اعتماد اس محافظ ادارے سے بالکل اٹھ جا ئے
گا ۔
|