یہ جان کر حیرت کا جھٹکا تو لگتا ہی ہے کہ وہ لوگ جو
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور اور دولت مند ہیں اور ان کو شاید
اپنی دولت کی وسعت کا خود بھی اندازہ نہ ہو۔ وہ اپنے اپنے شعبوں میں ملین
اور بلین کمانے والے ہیں لیکن ان کی پیدائش غربت میں ہوئی۔ دنیا میں آنکھ
کھولی تو مفلسی اور محرومیاں پائیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بے پناہ
دولت کمانے کیلئے اپنے والدین کے چھوڑے ورثہ کو استعمال کیا ہو لیکن یہاں
ایسے لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے محنت کی اور قدرت نے ان کی کمائی میں برکت
ڈالی اور وہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔
|
رومن ابراموچ
رومن ابراموچ تیل اور ایلومنیم شعبے کا بے تاج بادشاہ ہے۔ اس کے اثاثہ جات
کی مالیت 11.2 بلین ڈالر ہے۔ وہ چار سال کا تھا جب اس کے والدین داغ رفاقت
دے گئے۔ وہ رشتہ داروں کے رحم و کرم پر تھا۔ کبھی کسی رشتہ دار نے کچھ دنوں
کیلئے رکھ لیا تو کبھی کسی ملنے والے نے رحم کر کے گھر میں جگہ دے دی۔ وہ
دوسروں کے ٹکڑوں پر پل کر جوان ہوا۔ عمر کے اس حصے میں پہنچا جہاں کمانا
ضروری تصور ہوتا ہے۔ اس نے پہلی ڈیل پلاسٹک کے کچرے کی۔ روسی فوج کی ایک
یونٹ سے پلاسٹک کا کچرا خریدا اور کچھ دنوں بعد فروخت کردیا تو اسے
غیرمعمولی منافع ہوا۔ مطلب یہ آمدنی اس کی سوچ سے زیادہ تھی۔ ابراموچ نے
پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور آج وہ انگلینڈ کی نمبرون فٹبال کپ چیسا کا مالک
ہے اس کی اپنی بوٹ ہے اور اب اس نے تیسری شادی کی ہے اس کی اولادوں میں چھ
بچے ہیں۔ |
|
جان پال ڈی جویریا
آپ نے پال مچل کا نام سنا ہوگا؟ یہ معروف ہیر برانڈ پروڈکٹ کا نام ہے اور
اس کے مالک کا نام جان پال ڈی جویریا ہے جس کا والد بچپن میں ہی موت کا
شکار ہوگیا اور اسے اپنی ماں کی کفالت کیلئے اخبارات بیچنے پڑے۔ اس کی ماں
نے اسے ایک خیراتی ادارے میں داخل کرا دیا تاکہ اس کی پرورش ہوسکے اور خود
وہ محنت مزدوری کر کے اپنی زندگی کی گاڑی چلانے لگی۔ جان پال نے محنت
مزدوری کر کے کچھ رقم اکٹھی کی اور پھر بالوں کی مصنوعات ایک سیکنڈ ہینڈ
گاڑی میں رکھ کر بیچنے لگا۔ وہ سارا دن مزدوری کرتا اور رات کو کسی کونے
میں گاڑی کھڑی کر کے اس میں سوجاتا۔ 1980ء کا سال اس کیلئے خوش قسمتی کا
سارا سامان لیکر طلوع ہوا۔ اس نے پال مچل ہیر پروڈکٹ کے نام سے اپنی
مصنوعات متعارف کروائی تو اسے ایک ہی سال میں 4 بلین پا٧نڈ کا منافع ہوا۔
آج اس کے اعزاز میں ریڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے۔ گلیوں میں خوار ہونے والا
جان پال آج مخملی بستروں پر سوتا ہے۔ وہ ایک امیر شخص ہے۔
|
|
لیونارڈو ڈیل
لیونارڈ نے عینکوں کی صنعت میں قسمت آزمائی اور آج اس کی دولت کے اثاثہ
جات کی مالیت 10.5 ڈالر ہیں۔ وہ یتیم تھا اور اس کی غریب ماں کو پانچ بچوں
کی کفالت کرنا تھی۔ وہ لیونارڈو کو ابتدائی تعلیم کے علاوہ نہ پڑھا سکی۔
گھر کے حالات دیکھ کر لیونارڈو نے ایک مقامی فیکٹری میں نوکری کرلی۔ اس
فیکٹری میں عینکوں کے فریم بنتے تھے۔ وہ عینکوں کے فریم بنانے کیلئے گھنٹوں
بھٹی کے آگے جلتا اور تب جا کر اسے جو اجرت ملتی اس سے اس کے گھر کا ایک
دن کا خرچہ اٹھتا۔ 23 سال کی عمر میں اس نے ادھار پکڑ کر اپنی بھٹی لگالی۔
یہ بھٹی کیا سلگی کہ دولت کی دیوی نے خزانوں کے دروازے کھول دیئے۔ آج دنیا
بھر میں اس کی اپنی آؤٹ لٹس اور لیز کرافٹ کے شو روم ہیں جن کی تعداد چھ
ہزار سے زائد ہے۔
|
|
لیری ایلسن
اورکل سافٹ ویئر کمپنی کا نام کس نے نہیں سنا اور ایک دور تھا جب ہر نوجوان
اورکل کا کورس پاس کرنے کا متمنی تھا۔ یہ کمپنی لیری ایلسن کی ہے جس کی
دولت کی مالیت 28 بلین ڈالرز ہیں اس کی ماں جوانی میں بیوہ ہوئی تو اس نے
لیری ایلسن کو اپنی بہن کے حوالے کر کے خود شادی کرلی۔ شکاگو میں لیری
ایلسن کو کئی مرتبہ فیس نہ دینے کی پاداش میں سکول سے نکالا گیا تھا۔ آخر
اس کی خالہ ماں بھی موت کا شکار ہوئی تو اس نے کمپیوٹر کی ایک دکان پر
ملازمت کرلی۔ یہاں سے ہی اس نے 1977ء میں اورکل سافٹ ویئر بنا ڈالا۔ یہ
سافٹ ویئر اس کی زندگی کا وہ بلینک چیک ثابت ہوا جس میں وہ جب چاہے جتنی
مرضی رقم بھر کر کیش کرالے اور اکاؤنٹ ہے کہ خالی ہی نہیں ہوتا۔
|
|
مکی جگتانی
مکی کا اکائونٹ چیک کریں تو اس میں 2.8 بلین ڈالر کی خطیر رقم موجود ہے۔
ایک وقت تھا جب اسے کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ٹیکسی چلانا پڑی اور کچھ
عرصہ لندن کے ہوٹلوں میں کمروں کی صفائی بھی کرتا رہا۔ پہلے اس کا بھائی
مرا اور اس کے بعد ذیابیطس کا مریضاس کا باپ بھی دنیا چھوڑ گیا۔ اگلے سال
ہی کینسر کی وجہ سے اس کی ماں بھی لقمہ اجل بنی۔ ان اوپر تلے دکھوں اور
پریشانیوں نے مکی کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1973ء میں اس نے اپنے والد کی کل
جائیداد بیچ کر 6000 ڈالر سے ایک سٹور کھول لیا اور آج لندن میں مکی کے
سپرسٹورز کی چین ہے جہاں روزانہ لاکھوں پاؤنڈ کی خریداری ہوتی ہے۔
|
|
سٹیو جابس
بل گیٹس کا نام ذہن میں آتے ہی دھیان سٹیو جابس کی طرف چلا جاتا ہے۔ ۔اس
کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بھی بل گیٹس کی طرح دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار
ہوتا ہے اس کی دولت کی مالیت کا تخمینہ 5.5 بلین ڈالر ہے جبکہ اس کو یاد
کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بل گیٹس کی مخالف کمپنی ایپل کا حصہ دار بھی تھا۔
آج کے آئی فون اور آئی پیڈ سٹیو جابس کی ایجادیں ہی تو ہیں۔ سان
فرانسسکو کے ایک غریب جوڑے کا یہ بیٹا کالج میں ٹیوشن فیس ادا نہ کرنے کی
وجہ سے کئی دفعہ کلاس میں کھڑا ہوا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ 1976ء میں اس
نے اپنے چھوٹے سے گھر کے گیراج میں ایک آؤٹ لیٹ کھولا جہاں ایپل کمپیوٹر
فروخت کیے جاتے تھے۔ یہاں سے نت نئی ایجادات کرنے کی دھن اسے ایپل کمپنی
میں لے گئی اور اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور دولت اس کے گھر کی باندی بن
گئی۔ سٹیو جابس کی محنت اور ذہانت اس کی امارات کا سبب ہے۔
|
|
جے کے رولنگ
ہیری پوٹر ناول اور فلموں کی خالق اور مصنفہ جے کے رولنگ کی دولت کی مالیت
ایک بلین ڈالر ہے جس میں ناول اور فلموں کی رائلٹی سے ملنے والی رقم سے
اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس شہرہ آفاق ناول اور فلم کی یہ مصنفہ ایک فلاحی
ادارے کے زیراہتمام چلنے والے یتیم خانے میں پلا بڑھا۔ غربت کی وجہ سے اس
کی ماں نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی جسے بچالیا گیا۔ جے کے رولنگ نے ہیری
پوٹر ناول لکھا تو اس کو چھاپنے کیلئے کوئی پبلشر دستیاب نہ تھا کوئی غیر
معروف لکھاری کے ناول شائع کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ آخر ایک دن ایک پبلشر
نے مسودہ لے ہی لیا اور ناول کا بازار میں آنا تھا کہ دولت کے سیلاب پر
بندھے بند ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد فلم بندی کا فیصلہ ہوا تو اس فلم کی پہلی
سیریز2001ء میں ریلیز ہوئی جس نے پانچ بلین کا کاروبار کیا۔آج خود جے کے
بھی نہیں جانتی کہ وہ کتنا کما اور کتنا اڑا چکی ہے۔
|
|
اوپرا ونفرے
ڈے ٹائم ٹاک شو کی ملکہ اوپرا ونفرے کی دولت کا میزانیہ 2.4 بلین ڈالر ہے۔
اس کا شو دیکھیں تو کامیابی کے گر سمجھ آتے ہیں۔ اوپرا کی پرورش اس کی ماں
نے کی۔ ٹھوکریں کھاتی آخر وہ ایک مقامی ٹی وی میں ٹاک شو کی میزبانی پانے
میں کامیاب ہوگئی۔ آج اس کا اپنا سٹوڈیو ہے وہ ایک بک کلب (Book Club)کی
مالک ہے اور اب کیبل چینل کھولنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
|
|
چاری چپلن
انگلش مزاحیہ اداکار اور فلم میکر سر چارلی چپلن اپنی لاجواب
اداکاری کی بنا پر دنیا بھر کے پسندیدہ فنکار ہیں۔ ان کا کیریئر 75 سالوں
پر محیط ہے۔ بچپن سے 88 سال کی عمر تک انہوں نے اسی میدان میں معرکے
سرانجام دیئے لیکن کوئی نہیں جانتا ہے کہ ان کا بچپن غربت کی گود میں کٹا۔
چارلی کو 9 سال کی عمر میں کسی کے گھر کام کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔ تاکہ
اس کی اجرت سے گھر چلے لیکن وہ اپنا ہر کام دل سے کرتا اور اوٹ پٹانگ
حرکتیں کرتا رہتا۔ ایک دن تھیٹر دیکھنے کا موقع ملا تو اس نے اپنے مالک سے
کہا کہ میں ان اداکاروں سے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہوں۔ اس نے مقامی تھیٹر
میں اپنی پہلی مزاحیہ پرفارمنس دی تو شائقین کا ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ
گئے۔ وہ انہی تھیٹروں پر کئی سال ایسے کردار ادا کرتا رہا۔ آخر 19 سال کی
عمر میں اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور فریڈکرنو نے اسے اپنی فلم کمپنی میں
بھرتی کرلیا۔ فریڈکرنو اپنے دور کا آرٹسٹ میکر تھا۔ وہ چارلی کو امریکہ لے
گیا۔ 1914ء میں چارلی چپلن پہلی بار کی سٹون سٹوڈیو میں کیمروں کے سامنے
آیا۔ یہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ چارلی کو صرف اپنے تاثرات کی بنا پر اپنے
کردار کو شائقین تک پہنچانا تھا جس میں وہ بہت کامیاب ہوا۔ چار سال بعد
یعنی 1918ء میں وہ عالمگیر شہرت پا چکا تھا۔ اور دولت اس کے ہاتھوں کی میل
تھی۔
|
|
ہارے ہوڈانی
کوئی یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ فلموں کا سٹنٹ مین امارت کی بلندیوں کو چھوسکتا
ہے۔ بظاہر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ سٹنٹ مین عام طور پر دیہاڑی دار ہوتے
ہیں لیکن کسی کردار کو امر کرنے کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والا ہارے
ہوڈانی اپنے وقت کا امیر کبیر شخص رہا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک غریب
گھر میں رہتا تھا۔ دو وقت کی روٹی میسر نہ تھی۔ نو سال کی عمر میں وہ لوگوں
کے گھروں کی صفائی کیا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جمناسٹک کے کرتب بھی
دکھاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے رہائشی علاقے میں نوجوانوں کے درمیان مختلف
جمناسٹک کرتبوں کا مقابلہ ہوا۔ ہارے اس شو کو دیکھنے آیا تو اس کے دل میں
بھی مظاہرہ کرنے کا خیال آیا۔ ہارے نے شائقین میں کھڑے کھڑے کرتب دکھانا
شروع کردیئے اور تمام حاضرین کی توجہ سمیٹ لی۔ یہی اس کی زندگی کا ٹرننگ
پوائنٹ ثابت ہوا۔ وہاں ایک فلم میکر کمپنی نے اس کی خدمات لے لیں اور اس کے
بعد دنیا نے دیکھا کہ وہ اونچی عمارتوں اور آسمانوں سے کودا۔ اس نے سمندر
کی تہہ میں پرفارمنس دی اور فلموں کی ضرورت بنتا چلا گیا۔ اس نے اس شعبے سے
اتنی دولت کمائی کہ اس کی نسلیں بھی امیر ہوگئیں۔ بہت ہی دلچسپ حقیقت یہ ہے
کہ اس کی موت بہت ہی پراسرار طریقے سے ہوئی۔ ایک طالب علم نے اسے کہا کہ وہ
اپنے پیٹ کو کمر کے ساتھ کتنے وقت تک لگائے رکھ سکتا ہے۔ہارے نے سانس کھینچ
کر اپنا پیٹ اندر کی طرف دھنسا لیا وہ طالب علم پوری قوت سے اس کے پیٹ پر
گھونسے مارتا رہا لیکن ہارے ٹس سے مس نہ ہوا۔ بظاہر اس نے یہ مقابلہ جیت
لیا جو کہ مذاق ہی مذاق میں طے پایا تھا لیکن چند دنوں بعد پیٹ کی انتڑیوں
میں زخم اس کی موت کی وجہ بن گئے۔ |
|
ڈینیل کاریگ
جیمز بانڈز کی سیریز جاسوسی فلموں نے دنیا سے فلم پر راج کیا ہے اور آج
بھی کروڑوں شائقین بانڈز سیریز کی کئی فلم کے منتظر رہتے ہیں۔ جیمز بانڈ کا
کردار تو وہی ہے جو اس کی پہلی فلم میں منظر عام پر آیا تھا لیکن اس کے
پرفارمر تبدیل ہوتے رہے۔ راجرمور سب سے کامیاب جیمز بانڈ تھے لیکن
کیسنورائل میں نئے جیمز بانڈ کو شائقین نے اپنی پسندیدگی کی سند دے دی جس
میں یہ کردار ڈینیل کاریگ نے نبھایا۔ اس کے بعد کوانٹم آف سولیس نے
کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔ ڈینیل کی شہرت کو بلندیوں تک لے جانے والی فلم
سکائی فال تھی۔ بنسیولیا میں پیدا ہونے والے ڈینیل کی ابتدائی زندگی غربت
کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی وہ ایک خیراتی سکول کا طالب علم تھا جہاں پیسے
نہ ہونے کی وجہ سے اسے پیدل ہی جانا پڑتا تھا۔ وہ کوئی غیرمعمولی طالب علم
نہ تھا۔ حد تو یہ تھی کہ پرائمری میں وہ ایک گریڈ میں فیل ہوا تو اسے اس
سکول سے اٹھوا کر ایک دوسرے خیراتی سکول میںداخل کرادیا گیا۔ ڈینیل اپنی
والدہ کی وجہ سے ہائی سکول کی تعلیم جیسے تیسے مکمل کرنے میں کامیاب رہا۔
اس کا رجحان فلم تھیٹر کی طرف گیا تو اس نے لیورپول سٹی کے چکر لگانا شروع
کر دیئے۔ ایک دن ایک پلے میں چھوٹا سا کردار اس کی زندگی کو بدل گیا اور وہ
ہالی وڈ کا آئیکون بن گیا۔ 2013ء کے اوائل میںاسکی 45 واں سالگرہ کے موقع
پر اس کی بیوی راچل نے اسے امریکہ کے مہنگے ترین علاقے میں محل خرید کر
تحفہ دیا۔ اس کی دولت کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت میں کیا
جاتا ہے۔ |
|