تحریر:خواجہ حسان احمد پلہاجی
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہاں ہے
آج سے پندرہ سو سال پہلے دُنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو دُنیا کے حالات بد
سے بدتر تھے پوری دُنیا جہالت اور ذلت کی تاریک کوٹھری میں بند تھی اور
کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں توحید کا نو رجلو ہ گرہو۔پوری روئے زمین پر
جہالت، وہم پرستی، شرک کا دور دورہ تھا۔ انسان انسانیت کے زیور سے عاری تھا۔
اﷲ پاک فرماتا ہے: ان کانو من قبل لفی ضلل مبین،حضور ﷺ سے پہلے کا دور کھلی
گمراہی کا دور ہے۔مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک انسانوں نے ان گنت خدا بنا
رکھے تھے۔ہر سو تشتت و انتشار کا دور دورہ تھا۔لوگو ں کے دلوں میں جان کا
پاس اور آبرہ کا احترام مٹ چکا تھا۔دُنیا کے بعض حصوں میں لوگوں کے مذہبی
عقائدکی بنیاد ترکِ دنیا اور رہبانیت پر تھی، مثلا ہندوؤں اور بدھ مت والوں
کے جو گیا نہ تصور حیات اور ابتدائی عیسائیت کے تصور درویشی کے باعث انسانی
معاشرہ کی بنیاد دین و دُنیا کی تفریق پر قائم ہوچکی تھی۔ بعض خطوں میں
انسان کی حیثیت ایک ترقی یافتہ حیوان کی سی تھی جس کا مقصد راحت و لذت کے
حصول کے سوا کچھ نہیں تھا۔اس قسم کے معاشرہ طبقاتی نظام نمایاں تھا۔ اگر
فارس (ایران) کا جائزہ لیں تو ایرانی سلطنت کی حالت دگرگوں تھی۔ مذہبی لحاظ
سے ایران کے لوگ مختلف فرقوں میں منقسم تھے۔سب مذاہب پر زرتشتی مذہب کو
فوقیت حاصل تھی اور ریاست کا سرکاری مذہب تھا۔سیاسی لحاظ سے ایران کے
حکمرانوں کو بہت بلند مرتبہ حاصل تھا جنہیں لوگ بلا ہچکچاہت سجدہ کرتے تھے۔
ان کا تاجدار کسریٰ کہلاتا تھا۔سماجی حالت بھی ابتر تھی ۔امیروں اور غریبوں
کے درمیان نفرت کی ایک وسیع خلیج حائل تھی۔لوگ توہم پرست تھے۔اخلاقی قدریں
بھی بہت پست تھیں۔اسے ہی رومن ایمپائر ، چین کو ، یورپ کو اور ہندوستان کو
دیکھیں۔ تو ان کے حالات بھی ان سے مختلف نہ تھے ۔ان کو سیاسی ، مذہبی،
اقتصادی اور معاشرتی حالت دیکھیں تو وہ بھی انسانیت کیلئے شرمندگی کا باعث
تھا۔اور اگر ہم عرب کے حالات پر نظر ڈالیں تو وہاں کے حالات بھی قدرے مختلف
نہ تھے۔ عرب اصل میں ’’عربتہ‘‘ تھا جس کے معنی ہیں ، دشت، صحرا۔ چونکہ عرب
کا بڑا حصہ صحرا پر مشتمل ہے اس لئے تمام ملک کو عرب کہتے ہیں۔ اس وقت وہاں
پر عموماً قبائلی نظام رائج تھا۔ قبائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱)۔ عرب بائدہ: یہ عرب کے قدیم قبائل تھے جو اسلام سے بہت پہلے فنا ہوچکے
تھے۔۲)۔ عرب عاریہ: یہ بنو قحطان جو عرب بائدہ کے عرب کے اصل باشندہ تھے
اور ان کا اصل مسکن ملک یمن تھااور ۳)۔ عرب مستعربہ جو بنو اسماعیل یعنی
حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد تھی جو حجاز میں آباد تھی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وآلہٰ وسلم اسی قبیلہ میں سے پیدا ہوئے۔اگر مذہبی حالت دیکھیں تو وہاں پر
مختلف مذاہب تھے زیادہ تعداد مشرکین کی تھی جو اپنے ہاتھوں سے پتھروں کے بت
بنا بنا کر ان کی بندگی کیا کرتے تھے دوسرے درجے پر یہودی تھے جو شام سے
حجاز منتقل ہوئے تھے۔اکثر اہل عرب اپنی جہالت کی وجہ سے مختلف اوہام میں
مبتلا تھے۔کئی اہل عرب توحید پرست بھی تھے یہ لوگ اپنے آپ کو ’’حنیف‘‘ کہا
کرتے تھے۔یہ فرقہ نہ صرف ایک خدا کی ہستی کا قائل تھا بلکہ انسان کو تسلیم
و رضائے باری پر عمل کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ قرآن میں رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہٰ وسلم نے خود اپنے آپ کو اس نام سے پُکارا ہے۔ عرب کی اقتصادی
حالت بھی نہایت خراب تھی ۔معاشرتی اور اخلاقی حالت بد سے بدتر تھی شراب
نوشی کا رواج عام تھا، عورت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا، مفلسی اور بے عزتی
کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کر دینے کا رواج تھا۔لوٹ کھسوٹ اور قتل عام کا
بازار گرم تھا۔
غرضیکہ اس کائنات رنگ و بُو میں انسانی فطرت اپنے صحیح مقام سے ہٹ کر مختلف
اوہام و تخیلات کا شکار ہو چکی تھی اُسے صحیح مقام پر واپس لانے کیلئے ایک
ہادی اعظم کی ضرورت تھی جو دین و دنیاکی تفریق، امیرو غریب کا طبقاتی نزاع
اور مختلف توہمات کو ختم کرکے ایک ایسے صحت مند معاشرہ کو وجود میں لائے جس
میں ہر شخص کو حسب منشاء اپنی شخصیت کی تکمیل کے مواقع میسر ہوں اور انسان
کی انفرادی و اجتماعی زندگی ایک بہترین سانچے میں ڈھل سکے تاکہ بنی نوع
انسان کی دائمی فلاح و بہبودی کیلئے راستہ ہموار ہو۔اسی نظام کو قائم کرنے
کیلئے اﷲ پاک نے بنی ہاشم کے خاندان میں حضرت عبداﷲ کے گھر ایک ایسا آفتابِ
نبوت و رسالت چمکہ جس نے دُنیا کو اپنے نور سے روشن کردیا، انسانیت کو
گہرائیوں سے نکال کر مقامِ عروج تک پہنچا دیا، باطل کو مٹا کر حق کا نظام
کیا، ٹوٹی ہوئی انسانیت کو سہارا دیااور انسانیت کی وحدانیت پر مبنی نظام
قائم کیا جو امام الانبیاء خاتم المرسلین، رحمت للعالمین محمد مصطفی صلی اﷲ
علیہ وآلہٰ وسلم ہیں۔
وہ آئے روشنی بن کر شبستانِ محبت میں
اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اجالا ہی اجالا ہے
تقدیم تاریخی مرتبہ عبدالقدوس ہاشمی کے مطابق حضور ﷺ کی ولادت باسعادت بروز
دو شنبہ 12 ربیع الاول 53 قبل ہجرت، حسب حساب کبیسہ(مکی کیلنڈر) 9 دسمبر
569ء موافق 20 نیسان 8332 خلیقہ (یہودی) 20 ینسان 882 سکندری ہے۔ آپؐ حضرت
اسماعیل ؑ بن حضرت ابراہیم ؑ میں سے ہیں۔اپنے نسبِ پاک کا آپؐ نے کئی مقام
بیان کیا۔’’حضرت واثلہ بن اسقع ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے
فرمایااﷲ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل ؑ سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور اولاد
کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا اور
بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا‘‘۔ (مسلم شریف، جامع ترمذی شریف)۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
حضرت جبریل ؑ نے (خدمت اقدس میں حاضر ہوکر) عرض کیا: (یارسول اﷲؐ)! میں نے
تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ چھان مارا، مگر نہ تو میں نے
محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے
بنو ہاشم کے گھرانہ سے بڑھ کر بہتر کسی گھرانے کو دیکھا۔ (مسنداحمد،
طبرانی)۔
آپؐ کی برکت سے عرب کے قبائل کے مابین کئی دہائیوں سے جاری خونریزی ختم
ہوگئی۔آپؐ کی ایک نظر نے مردوں کو مسیحا کردیا آپ کی ولادت (میلاد) کی برکت
سے دنیا کی کایا پلٹ گئی آپؐ ربِ کائنات کی عظیم نعمت ہیں جس کا مقابلہ
دُنیا کی کوئی نعمت نہیں کر سکتی آپؐ قاسم نعمت ہیں ساری عطائیں آپؐ کے
صدقے ملتی ہیں۔اﷲ تعالیٰ عزوجل نبی اکرم ؐ کی بعث پر اپنا احسان جتایا
فرمایا: لقد من اﷲ علی المومنین اذبعث فیھم رسولا۔(۳:۱۶۴) بے شک اﷲ کا بڑا
احسان ہوا مسلمانوں پر کہ انھیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ آپؐ کو عالمین
کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا قل
بفضل اﷲ و برحمتہ فبذالک فلیفرحوا ۔(۱۰:۵۸) (اے محبوبؐ) فرما دیجیے کہ اﷲ
کو فضل اور اس کی رحمت ملنے پر چاہیے کہ لوگ خوشی منائیں۔ اسی مناسبت سے
ربیع الاول شریف کو لوگ جشنِ عید میلاد النبیؐ کے طور پر مناتے ہیں۔ گھروں
، محلوں ،گلیوں ، بازاروں اور شہر سجایا جاتا ہے۔محفلیں منعقد کیں جاتی
ہیں۔عیدمیلادالنبیؐ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ولادت پاک کا تذکرہ کرنا،
تخلیقِ نورِ محمدیؐ سے اس دُنیا میں جلوہ گر ہونے تک کے وہ تمام حالات و
واقعات کا ذکر کرنے کا نام ہے، آپؐ کے نسب پاک ، آپؐ کی کرامات و معجزات کا
ذکر کرنا اور ربِ کائنات کا شکر ادا کرنا اور خوشیاں منانا۔ ویسے تو ہر
لمحہ مومن کیلئے حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولادت کی خوشیاں منانے
کا ہے کیونکہ ہمیں اﷲ ملا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے،ہم مسلمان
بنانے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے، دُنیا میں آئے تو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے صدقے ، ہم توحیدی کہلائے تو صرف اور صرف نبی کریم ؐ کے
صدقے ، ہم مہذب بنے تو صرف اور صرف آمنہ کے لال کے صدقے الغرض ہمیں جو
نعمتیں ملیں تو صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے۔ لیکن اس ماہِ مبارک
میں یہ خوشیاں دُبالا ہوتیں ہیں۔ اﷲ کے پیاروں کی ولادت کا تذکرہ اﷲ رب
العزت کی اپنی سنت ہے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار حضرت آدم علیہ
السلام کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور اس کی تفصیلات بیان کیں ان کا جنت میں
قیام اور زمین پر اتارے جانے کے واقعات بیان فرمائے۔ حضرت اسحاقؑ، حضرت
اسماعیل ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی ولادت اور بچپن کے واقعات کا تذکرہ فرمایا۔
حضرت مریم ؑ کی ولادت، حمل سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت تک کا
پورا واقعہ بیان فرمایا۔ جن کا ذکر اس چھوٹی سی تحریر میں ضبط کر نا ممکن
نہیں۔ سارے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
تشریف آوری کی خبریں دیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا۔ ’’میں ایسے
رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام پاک
احمد ہے۔ (۶۱:۶) خود حضود علیہ السلام نے صحابہ کے مجمع کے سامنے منبر پر
کھڑے ہوکر اپنی ولادت پاک اور اپنے اوصاف بیان فرمائے اور معلوم ہوا کہ کہ
میلاد پڑھنا سنت ِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم بھی ہے۔ حضرت عباس ؓ سے
روایت ہے کہ میں ایک دن حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاید حضور
علیہ السلام تک خبر پہنچی تھی کے بعض لوگ ہمارے نسب پاک میں طعن کرتے ہیں
۔پس آپؐ منبر پر قیام فرما ہو کر پوچھا بتاؤ میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا کہ
آپ رسول اﷲؐ ہیں، فرمایا میں احمد ابن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں۔ اﷲ نے مخلوق
کو پیدا فرمایا تو ہم کو بہتر مخلوق میں سے کیا پھر انکے دو حصے کئے عرب و
عجم، ہم کو ان میں بہتر یعنی عرب میں سے کیا پھر عرب کے چند قبیلے فرمائے
ہم کو ان مین سب سے بہتر خاندان یعنی بنی ہاشم میں سے کیا (مشکوۃ شریف ج ۲)
مشکوۃ شریف کے اسی باب میں ہے کہ ’’ہم خاتم النبین ہیں اور ہم حضرت ابراہیم
کی دُعا حضرت عیسیٰ ؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا دیدار ہیں جو انہوں نے
ہماری ولادت کے وقت دیکھا کہ ان سے ایک نور چمکا جس سے شام کی عمارتیں ان
کو نظر آئیں اس مجمع میں حضور علیہ السلام نے اپنا نسب نامہ اپنی نعت شریف
اپنی ولادت پاک کا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار کو بھی ولادتِ پاک کی خوشی
منائی اور فائدہ اٹھایا بخاری شریف جلد دوم ہے ’’جب ابو لہب مر گیا تو اسکو
اسکے بعض گھر والوں (حضرت عباسؓ) نے خواب میں برے حال میں دیکھا پوچھا کیا
گزری ابو لہب بولا کہ تم سے علیحدہ ہوکر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی۔ ہاں
مجھے اس کلمہ کی انگلی سے پانی ملتا ہے۔ کیونکہ میں نے ثوبیا لونڈی کوآزاد
کیا تھا۔ ابو لہب حضرت عبداﷲ کا بھائی تھا۔ اس کی لونڈی ثوبیہ نے آکر اس کو
خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداﷲ کے گھر فرزند ( محمد رسول اﷲؐ ) پیدا ہوئے۔
اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے۔ وہ
انتہا درجے کو کافر تھا جس کی برائی کا ذکر قرآن کریم میں آئی ہے مگر اس
خوشی کی برکت سے اﷲ نے اس پر یہ کرم کیا جب قبر کے عذاب میں پیاسا ہوتا ہے
تو اپنی اس انگلی کو چوستا ہے ۔ تو پیاس بجھ جاتی ہے۔ اس نے صرف بھتیجے کی
پیدائش کی خوشی میں لونڈی کو آزاد کیا جسکا اُسے یہ صلہ ملا ہم تو محمد ؐ
کی امت ہیں اور ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اﷲ رب العزت ہمیں بھی اس کا
صلہ ضروردے گاکیوں کہ ہم تو اس عظیم نعمت کی خوشی مناتے ہیں جو حضور صلی اﷲ
علیہ وآلہٰ وسلم کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔اسی لیے توحضرت
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ جو عظیم محقق ہیں فرماتے ہیں ’’اس واقعہ میں میلاد
شریف کرنے والوں کیلئے روشن دلیل ہے جو سردارِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم
کی شب ولادت میں خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابو لہب کو
کافر تھا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولادت کی خوشی اورلونڈی کے
دودھ پلانے کی وجہ سے اس کو انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو
سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولادت میں خوشی میں محبت سے بھر پور
ہوکر مال خرچ کرتا ہے اور میلاد شریف کرتا ہے لیکن چاہیے کہ محفلِ میلاد
شیریف عوام کی بدعتوں یعنی گانے اور حرام باجوں وغیرہ سے خالی ہو۔ (مدارج
النبوۃ ج۲ص۲۶) میلاد النبی ؐ میں خوشی منا نا یہ مسلمانوں کی اپنے آقا
جنابِ رسالت مآب حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم نے محبت و عقیدت
کا اظہار ہے ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ لیتا ہے بچے سے
لے کر بوڑھے تک سب ہی اس خوشی میں حصہ لیتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول شروع ہوتے
ہی ہر جگہ رونق ہی رونق ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کے چہرے پر خوشی ہی خوشی ہوتی
ہے۔
نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں
اﷲ پاک سے دُعا ہے کہ اس ماہ ربیع الاول شریف کے صدقے سے ہمارے اندر اتفاق
و یگانیت نصیب فرمائے اور ہمیں حق و باطل میں تمیز عطا فرمائے اور حضور ؑ
کی سنت سے محبت حضور ؑ کی ذات سے سچی محبت نصیب فرمائے۔ آمین! |