گمنام قبریں

سارا دن دھوپ میں اکیلا بیٹھا رہتا۔ تن پر وہی دو کپٹرے، بان کی چار پائی اور کچے مٹی کے برتن، کبھی کبھی جوش میں آکر حق اللہ کا نعرہ لگا دیتا۔ اس کا محبوب ترین مشغلہ بوٹوں کو پانی دینا تھا وہ سارا دن ہینڈ پمپ سے پانی نکال نکال کر بوٹوں کو دیتا رہتا اور بوٹے بھی کوئی خاص نہیں راستے میں اگے درختوں کو، گھاس کو، فصلوں کو بس جو سامنے آتا بالٹی بھر پانی اسکی نذر کر دیتا۔ میں ان دنوں شام کی سیر کرنے شہر سے ذرا دور نہر کے کنارے جایا کرتا تھا اور بابا جی کی ان باتوں سے خاصا متاثر تھا۔ میں نے چلتے چلتے بابے کو سلام کرنا اور حال پوچھنا شروع کر دیا بابے نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دینا۔ پھر میں نے پانچ دس منٹ اسکے پاس بیٹھنا شروع کیا، بابا باتیں بہت کم کرتا تھا اور اپنے کام میں لگا رہتا تھا، میں نے کسی خدمت کی آفر کی تو بابے نے مجھے کچھ بوٹے لانے کو کہا جو میں دوسرے دن لے آیا، بس بابا مجھ سے مہینہ اور تاریخ ضرور پوچھا کرتا تھا جو میں گھڑی دیکھ کر بخوبی بتا دیتا۔ میں نے جرات کر کے پوچھا بابا آپ کا نام کیا ہے کہنے لگا اسکے بعد تم پوچھو گے کہ تم کون ہو کہاں سے آئے ہو ارے مسافر مسافر ہوتا ہے اس کا کوئی نام نہہں ہوتا میں ایک مسافر ہوں اور جلد اس مٹی کے نیچے چلا جاؤں گا میں نے کہا وہ تو سب نے جانا ہے ہاں سب نے جانا ہے مگر کچھ لوگ پہلے چلے گئے بہت پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خاموش ہو گیا۔

جونہی اگست کا مہینہ شروع ہوا بابا غائب ہو گیا اس کا ٹوٹا پھوٹا سامان تو وہیں تھا لیکن بابا جی ناپید میں نے ادھر ادھر بہت ڈھونڈا مگر بابا نہ ملا لوگوں سے پوچھا تو کسی نے کوئی معتبر جواب نہ دیا۔ میں روز سیر کو جاتا اور خالی واپس آجاتا آخر وہ مسافر گیا کہاں؟ میں نے مایوس ہو کر رستہ ہی بدل لیا۔ پھر اچانک ایک دن بابا میرے راستے میں آگیا ‘ ارے مسافر راستہ نہیں بدلتے منزل کو ایک ہی راستہ جاتا ہے بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں نے کہا لیکن آپ نے بھی تو راستہ بدلا ہے کدھر تھے آپ اتنے دنوں سے بابا نے میری طرف پیار سے دیکھا اور کہنے لگا وہ دور پہاڑ دیکھ رہے ہو فرض کرو وہاں تمہارا کوئی رہتا ہو وہ تمہیں بلا رہا ہو اور اگر تم نہ جاؤ تو وہ مرجائے اور پھر اسکے بعد تم بھی مر جاؤ تو کیا تم اپنے آپ کو بچانے وہاں نہیں جاؤ گے میں نے کہا میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں بابا نے خاموشی سے جواب دیا تم ٹھیک کہہ رہے ہو فرق کہیں اور ہے شاید میرے بیان کرنے میں۔

اب تو بابا سے اچھی خاصی دوستی سی ہو گئی اور کبھی کبھی بابا مجھے گھر سے بلانے بھی آجاتا، میرے گھر والوں کو اس کے آنے پر بڑا عتراض تھا لیکن میرے گھر والے میری ایسی عادتوں سے اچھے خاصے واقف تھے برداشت کر گئے لیکن صلواتیں تو سننی پڑتی تھیں۔ سردیاں آئیں تو بابا بیمار ہوگیا میں نے اسے بہت سمجھایا کہ اس سردی میں جھونپڑی میں رہنے کا دور چلا گیا چلو کہیں شہر میں چل کر گھر لو بابا بولا تھا میرا شہر میں گھر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ زور سے رو پڑا ۔۔۔۔۔۔ بس تم جاؤ یہاں سے چلے جاؤ اور پھر کبھی نہ آنا مرنے دو مجھے اس جھونپڑی میں کم از کم یہاں سکون تو ہے۔ بابا سارا دن دھوپ میں چارپائی پر پڑا رہتا اور میں اسے دوائی اور روٹی دے آتا میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا تھا وہ کسی طرح بھی وہ جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ اچھا تو جنوری آ گیا بتاؤ اگست میں کتنے مہینے باقی ہیں میں نے کہا چھے کیا میں اتنی دیر زندہ رہوں گا میں نے کہا اللہ خیر کرے گا۔ میں نے کہا اگست میں کیا خاص بات ہے کہنے لگا آئے تو بتاؤں۔ جولائی میں بابا نے کچھ ضروری تیاری کرنی شروع کردی وہ جو جو کچھ کہتا میں خرید کر لاتا رہتا مجھے حیرت تھی کہ بابا کی خرید و رسد میں مردے اور قبروں سے متعلق زیادہ اشیا تھیں۔

اگست کی پہلی تاریخ کو بابا نے مجھے لے کر پہاڑ کی طرف سفر شروع کیا میں نے گھر بہانا لگایا کہ دو چار دن کے لئے دوستوں کے ساتھ تفریح پر جا رہا ہوں۔ دو دن کی مسافت کے بعد ہم پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے۔ اب تم جاؤ بابا کا یہ فقرہ میرے لئے انتہائی عجیب تھا، ہاں اب جاؤ اور تیں دن بعد اس غار میں آجانا دیکھو آنا ضرور ورنہ دونوں مر جائیں گے غار پہاڑ کی کافی بلندی پر تھا بابا میری بات کا مطلب سمجھ گیا اور کہنے لگا جو یہاں تک لے آیا ہے وہ وہاں بھی لے جائے گا تم اپنا فکر کرو۔

خیر میں تین دن بڑی بے چینی سے انتظار کرتا رہا اور جب وقت آیا تو بھاگتا دوڑتا غار کی طرف پہنچا۔ اف میرے خدا وہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا تین تازہ قبریں اور ان پر نام لکھے ہوئے، پھول پڑے ہوئے۔ ہاں اونچی آواز سے پڑھو پہلا نام آمنہ بتول یہ میری بیٹی ہے گھر سے ٹافیاں لینے گئی تھی امرتسر کے چھوٹے سے شہر میں اور جب میں پہنچا تو اسکا دھڑ گندی نالی میں تڑپ رہا تھا اور سر سڑک پر یہ قیمت دی ہے ہم نے پاکستان بنانے کی۔ وہ دیکھو میرا بیٹا دلیر علی بہن کے پیچھے بھاگا کہ میں بھی ٹافیاں کھاؤں گا مار دیا سالوں نے اسے بھی، ارے مجھے پہچانوں میں امام مسجد ہوں امرتسر کی اکلوتی مسلم مسجد کا اور یہ میری بیوی حاملہ بیوی مسجد میں روند ڈالی گئی خدا کے گھر میں پھر بابا نے مجھے تین قومی جھنڈے دیے جو میں نے روتے ہوئے ہر قبر پر ڈال دیئے لیکن ایک جھنڈا باقی تھا یہ کہاں ڈالوں دیکھا تو بیوی کے ساتھ والی جگہ پر دیوار سے ٹیک لگائے بابا بھی دم توڑ چکا تھا۔
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 23243 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More