1 - ایمان کا بیان : (136)
وہ تین باتیں جو ایمان کی جڑ ہیں
وَعَنْ اَنَسٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلَاثٌ مِنْ
اَصْلِ الْاِیْمَانِ الْکُفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ لَا
تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلِ وَ
الْجِھَادُ مَاضٍ مُذْبَعَثَنِیَ اﷲُ اِلٰی اَنْ یُقَاتِلَ اٰخِرُ ہٰذِہِ
الْاُمَّۃِ الدَّ جَّالُ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ
عَادِلٍ وَ الْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ۔ (رواہ ابودؤد)
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 54 مکررات 0
" اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!
تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ
و مخاصمت ختم کر دینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی
عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ لگاؤ(٢) جب سے کہ اللہ
تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا۔ یہاں
تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آکر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ)
کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جا سکتا (٣)
اور تقدیر پر ایمان لانا۔" (ابوداؤد)
اس حدیث پاک میں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کہ آج کے دور میں
مسلمانوں کے درمیان بحث اور نزاع کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ اور ہم میں اتنی
جرات نہیں ہے کہ قرآن و حدیث کو دیکھیں کہ ان میں کیا فرمایا گیا ہے۔
پہلی بات ۔ کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا جس نے لا الہ اﷲ
کا اقرار کرلیا ہو اسے کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہنا حرام ہے۔ جبکہ ہمارا
عمل اس کے برعکس ہے آج بڑی دیدہ دلیری سے ایک دوسرے پہ کفر کے فتوے لگائے
جاتے ہیں ایک دوسرے کو کافر کہا جاتا ہے صرف اس لیے کہ کچھ چھوٹے چھوٹے
اختلافی مسائل جن کا کرنا یا نا کرنا برابر ہے مثلاً یہ کہ نبی پاک اپنی
قبر مبارک میں زندہ ہیں یا کہ نہیں، نبی پاک پہ درود مخاطب کر کے پڑھنا
چاہیے کہ نہیں، نماز کے بعد اونچا کلمہ پڑھنا چاہیے کہ نہیں داڑھی کی
لمبائی کتنی ہونی چاہیے، سوئم اور چالیسواں ہونا چاہئے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔
نمبر دو جہاد ۔ کفر کے خلاف جہاد روز قیامت تک جاری رہے گا اسے کسی عادل
بادشاہ کا عدل بھی نہیں روک سکتا اور نہ کوئی طاقت روک سکتی ہے۔ آج مسلمان
مغرب کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے جہاد کی کیسی کیسی تاویلات کررہے
ہیں انہیں بتا رہے ہیں کہ جہاد کا کیا مطلب ہے حالانکہ جہاد کفر کے خلاف
ہوتا ہے اگر کوئی اسلام کا دشمن ہوگا تو کیا مسلمان اس سے لڑیں گے نہیں؟
کیا اگر کوئی ہمارے گھر پہ حملہ کردے تو کیا ہم اس سے لڑے نہیں؟ آج کے دور
میں جب مسلمان کمزور ہیں ان کی طاقت جہاد مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے
انہیں اسلام کی طاقت کا اندازہ ہے لیکن مسلمان بیوقوف بنے ہوئے ہیں اور ان
سے پٹ رہے ہیں۔ جہاد کبھی بھی مٹے گا نہیں یہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ہم چاہے اسے اپنے نصاب سے نکال دیں لیکن ہم
اللہ کی کتاب کو تو نہیں بدل سکتے کیونکہ ہم اگر اس کی حفاظت نہ کریں گے تو
اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔ اللہ ہمیں دین پہ چلنے کی سوچ
اور سمجھ عطا فرمائے آمین |