کاش میں کانسٹیبل ہوتا(گزشتہ سے پیوستہ)

 ایک غریب یتیم کے محکمہ پولیس جوائن کر لینے کے بعد امیر ترین ہوجانے تک کے سفر پر مشتمل میرے گزشتہ کالم (کاش میں کانسٹیبل ہوتا ) کے آخر میں بات ہورہی تھی کہ پولیس ملازمین کو اگرایک پیسہ بھی تنخوا نہ دی جائے تو بھی یہ لوگ اچھا خاصہ گزارا کر سکتے ہیں،جس پر ایک سوال پیدا ہواتھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ؟اس کا جواب تو میرے پاس اُس وقت بھی تھا مگر جگہ کی کمی آڑے آجانے کے سبب میں نے اگلے کالم (یعنی کہ اس کالم ) میں دینے کا وعدہ کیا تھا اسے لکھناتو کافی دِن پہلے تھا مگر کچھ ذاتی مصروفیات سے جلد فراغت نہ پاسکنے کے سبب آج جب لکھنے کیلئے بیٹھا تو چانک ایک ایسی خبر سامنے آئی جو ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی جانب سے سب انسپکٹر (یعنی کہ اپنے سینئیر )کے گھر سے مقدمہ میں نامزد تین خطر ناک ڈاکو گرفتار کر لئے جانے کے واقع پر مشتمل تھی،جس کی تفصیل میں جانے پر معلوم ہوا کہ انہیں گرفتار کرنے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو اس گرفتاری کے دوران سب انسپکٹر کے بیٹے کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنہ بھی کرنا پڑا،جس کا مطلب تھاکہ سب انسپکٹر نے ان سے کالا دھندا کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے گھر سے گرفتار نہ ہونے کی ضمانت بھی دے رکھی تھی،یہ خبر دوسروں کے کیلئے جو بھی ہو مگر میرے لئے بڑی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ مجھے اپنے سوال کا جواب دینے کیلئے درپیش دلائل میں ایک اور کا اضافہ ہو تا ہوا دکھائی دے رہا تھا ،اس لئے فون پر معلومات لینے کی بجائے میں خود ہی اُس طرف چل پڑا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا،راستے میں جب ایک چوراہے کے قریب پہنچا تو وہاں پر ناکہ لگائے پولیس اہلکار گاڑیاں کے کاغذات وغیرہ چیک کر رہے تھے اور کاغذات مکمل نہ ہونے پر گاڑیاں تھانے لے جا کر بند کی جارہی تھیں اور کچھ مختلف قیمتوں کے عوض موقع پرہی چھوڑی بھی جارہی تھیں اب جوگاڑیاں تھانے میں پہنچ رہی تھیں ان میں سے کچھ اپنے با اعتماد لوگوں کے ہاتھوں مختلف فنڈز کے عوض جبکہ کچھ سفارشات پر چھوڑی جا رہی تھیں یہ بھی اُن کا بغیر تنخوا کے گزارا کرنے کیلئے کمائی کا ایک طریقہ تھا جسے دیکھتے ہی دیکھتے میرا ایک جاننے والا بھی وہاں آگیاخیریت دریافت کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہوں جواب ملا کہ میں نے ایک مقدمہ درج کروایا تھا اُس کی تفتیش کے سلسلہ میں تھانے جارہا ہوں آپ بھی میرے ساتھ چلیں میں نے کہا کہ ضرور مگرپہلے یہ بتاؤ کہ یہ مقدمہ کس بات کااور کیسے درج ہوا جواب ملا جان لیوا حملے کا مقدمہ ہے جسے تھانہ والوں کی ایک بااعتماد شخصیت کے ذریعے دس ہزار کے عوض درج کروایا گیا جس کے بعد جرم ثابت ہوجانے کے باوجود بیس ہزار ملزم کو گناہ گار قرار دلوانے کے دیئے ،اس کے باوجودپولیس ملز م فریق سے چالیس ہزارلے کر فائنل ضمنی مشقوق لکھ رہی ہے تاکہ کورٹ جاتے ہی اُسکی بیل ہوجائے یہ سب سُننے کے بعد میں نے اُسے جواب دیا کہ میں آپ کے ساتھ چلا توجاتامگر میرے وہاں جانے آپ کے معاملات مزید بگڑ جائیں گے یہ سُن کر وہ خاموشی سے اپنی منزل کی جانب اور میں اپنی منزل کی جانب چل دیا ،یہاں میں یہ بھی وضاحت کرتا چلو ں کہ یہ سب تو کچھ بھی نہیں پولیس کے پاس کمائی کے ایسے ایسے ڈھنک ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور یہ سب کچھ کسی ایک تھانہ یا ڈسٹرکٹ میں نہیں بلکہ ملک بھر میں ہورہاہے،اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے کوئی ایک مقدمہ درج کروا کے یا کسی ایک میں پھنس کر تصدیق بھی کر سکتا ہے،خیر جب میں وہاں پہنچاجہاں واقع مذکور پیش آیا تھا تو دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ خبر تو سچی اور واقع ہی بہت بڑی تھی جس پر کاروائی بھی بڑی ہی ہونی چاہئے تھی ،مگر افسوس کہ یہا ں جو کاروائی کر رہا تھا وہ بھی پولیس ملازم اور جس کے خلاف ہورہی تھی وہ بھی پولیس ملازم ہی تھا اس لئے ڈاکوؤں کو گھر میں پناہ دینے کے جرم کو ایک معمولی جرم سمجھتے ہوئے سب انسپکٹر کو صرف لائن حاضر ہی کیا گیا ہے یہ سُن کر میں بڑا حیران ہوا کہ یہ تو ہاتھی کو بوجھ اٹھانے کی سزا دینے کیلئے اُس پر چیونٹی چڑھانے کے برابر ہے اتنے بڑے جرم کی اتنی معمولی سی سزا ؟جس کا جواب لینے کیلئے ایک ڈرامائی انداز میں جب میں ڈی پی او آفس پہنچا تو ڈی پی او کے کمرے کے باہر گھڑے اردلی نے مجھ سے میری شناخت پوچھی تو میں نے اپنا ڈیوٹی پریس کارڈ یا وزٹنگ کارڈ دینے بجائے اسے اپنا قومی شناختی کارڈ تھما دیا جسے دیکھتے ہی جواب ملا کہ صاحب ! یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ پاکستانی ہیں میرے شناخت مانگنے کا مقصد ہے کہ آپ کوئی سیاستدان ہیں یا کوئی رپورٹر شپوٹر ؟اور کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں ؟میں نے جواب دیا کہ حضور میں تو ایک مزدور آدمی ہوں میری چوری ہوگئی ہے اور تھانے والے میری بات نہیں سُن رہے اس لئے میں نے ڈی پی او صاحب سے مل کر تھانہ میں ایک فون کروانا ہے جس سے میرا کام ہو جائے گالہذامجھے اندر جانے دو جواب ملا کہ صاحب ایک میٹنگ میں مصروف ہیں فارغ ہو لیں پھر بھیجتا ہوں اتنے میں ڈی پی او کے کمرے سے چند ایک سیاستدان اور ساتھ اُن کے چندایک پالتو نکلتے ہوئے دیکھنے کے بعد میں وہاں سے واپس لوٹنے لگا تو مین گیٹ پر مجھے میرا ایک جاننے والا مل گیا ،کہتا کہ خان صاحب آج آپ ڈی پی او آفس خیر تو ہے ؟میں نے جواب دیاکہ میں اس اس سلسلے میں آیا تھا ؟ میری اس بات پر مجھے جواب ملا کہ خان صاحب اگریہ خبر نشر یا پرنٹ نہ ہوتی تو شاید یہ چیونٹی بھی کبھی نہ چڑھائی جاتی کیونکہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں ،میں نے اس بات کا ثبوت مانگا جو جواب ملاکہ اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ جس ASIنے ان ڈاکوؤں کو پکڑنے کے بعد خبر میڈیا تک پہنچائی ،ساتھ اُسے بھی لائن حاضر کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کم بخت نے اسے اپنی بہن تسلیم کرنے کی بجائے اس کے پالتوکتے صرف پکڑے ہی نہیں بلکہ میڈیا کے سامنے ننگے بھی کر دیئے جس سے عوام کے سامنے پولیس کے کمائی کرنے کے دیگر طریقوں کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں کے ذریعے کمائی کرنے کے اس خفیہ طریقے کا پردہ بھی چاک ہوگیا یہ سُن کر میں نے سمجھا کہ شاید یہ سیاسی عناصر بھی اسی ہی بات کا ماتم کرنے آئے ہوں اور ان کے ساتھ میں بھی اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے اپنے سوال کا جواب لئے اپنی بے بسی پر ماتم کرتے ہوئے واپس لوٹ آیاہوں اور اس کے ساتھ ہی اگلے کالم تک کیلئے اجازت چاہوں گا ،اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ساتھ دعاؤ ں میں مجھے بھی یاد رکھئے گا (فی ایمان ِﷲ) ۔

Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 41773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.