سعودی عرب پر اﷲ کی رحمت کے سائے،ہمارے لئے سبق

مملکت سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے مغربی ایشیا میں سب سے بڑی عرب ریاست ہے تو عالم عرب میں الجزائر کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ سعودی عرب کا کل رقبہ 21 لاکھ 50 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ سعودی عرب کی زمینی سرحدیں 7ممالک اردن، عراق، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان اور یمن سے ملتی ہیں جبکہ بحرین سے صرف سمندری سرحد ملتی ہے۔ یہ واحد عرب ریاست ہے کہ جو دو سمندروں بحیرہ احمر Red Sea اور خلیج فارس سے متصل ہے۔ ملک کی اپنی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے تو اس کے قریب قریب یہاں غیر ملکی بھی قیام پذیر ہیں جو روزگار کے لئے دنیا بھر سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یوں سعودی عرب دنیا کا ایسا ملک ہے کہ جو اپنی آبادی کے برابر غیرملکیوں کو اپنے ہاں ٹھہرائے ہوئے اور انہیں روزگار مہیا کئے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا یہ اعزاز تو دنیا کے ہر اعزاز سے بڑھ کر ہے کہ اس سرزمین میں حرمین الشریفین واقع ہیں۔ موجودہ سعودی مملکت کا باقاعدہ قیام 1932ء میں عمل میں آیا تھا جبکہ موجودہ حکمران خاندان آل سعود نے اس حکومت کے قیام کے لئے فتوحات کا آغاز 1902ء میں آج کے دارالحکومت اور اپنے آبائی علاقے ریاض سے کیا تھا۔ اس مملکت کے بانی شیخ عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن سعود تھے، جنہوں نے آل سعود کا لقب اختیار کیا، جس کے بعد آج تک سعودی عرب کے تمام شاہوں کو اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

1932ء میں موجودہ ریاست قائم کرتے ہی شاہ عبدالعزیز نے سب سے پہلے اپنی اس ریاست میں مکمل اسلامی شرعی حدود کے قیام کا اعلان کیا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جو اسلام اور مسلمانوں کے مرکز ہیں، دونوں مقامات سے فرقہ پرستی کا خاتمہ کر کے خلاف شریعت تمام مظاہر اور مقامات کو سرے سے ہی مٹا دیا۔ اﷲ کی شان دیکھئے ان کے یہ اقدامات جیسے جیسے آگے بڑھنے لگے، بے آب و گیاہ اور سینکڑوں میل تک لامحدود ریگستانوں پر مشتمل سرزمین کا رنگ ڈھنگ بدلنا شروع ہو گیا۔ 1936ء میں سعودی عرب میں تیل کے ذخائر دریافت ہونا شروع ہو گئے اور پھر اس ریاست پر اﷲ کی طرف سے مسلسل انعامات کی اتنی بارش برسنا شروع ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے چند لاکھ آبادی رکھنے والی اور بے مایہ یہ سرزمین روز دنیا میں نمایاں اور سربلند ہونے لگی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب دنیا میں تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس کے پاس دنیا میں تیل کے دوسرے بڑے ذخائر ہیں تو گیس کے چھٹے بڑے ذخائر۔ ساری دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کی کل مقدار کا 25 فیصد تنہا سعودی عرب مہیا کر رہا ہے۔ آج یہ سعودی عرب دنیا کی 19 ویں بڑی معیشت ہے جسے دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کے اتحاد G20 میں خصوصی مقام دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی فی کس آمدن 31.3 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ (پاکستان کی 3 ہزار ڈالر) یوں آج ساری دنیا سعودی عرب کے ساتھ دوستی کو اپنا فخر اور خوشی سمجھتی ہے۔

سعودی حکمرانوں نے ہر گزرتے دن اسلام کی خدمت کو شعار بنائے رکھا۔سب سے زیادہ عرصہ حکومت کرنے والے شاہ فہد بن عبدالعزیز نے تو اپنا لقب ہی خادم الحرمین الشریفین رکھ لیا تھا۔ پھر انہی کے دور میں سعودی عرب کو سب سے زیادہ عزت و عروج بھی حاصل ہوا۔ دنیا میں کتنی تبدیلیاں آئیں۔ کتنا کچھ بدلا، سب کچھ کیا سے کیا ہو گیا لیکن سعودی حکمران اور ان کی حکومت نے اپنا طرز عمل اور اپنا اسلامی طرز حکومت آج تک نہیں بدلا۔ انہوں نے 1932ء میں قرآن اور سنت کو اپنی ریاست کی بنیاد قرار دیا۔ عربی کو سرکاری زبان بنایا۔ تمام اسلامی حدود کو قائم کیا۔ اس پر وہ آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں اور جدید دنیا کی کوئی ہوا، کوئی تبدیلی یا انقلاب انہیں ان کی راہ سے پرکاہ برابر نہ ہٹا سکا۔ دنیا کو آج بھی یاد ہے کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں حدود آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت شرعی سزاؤں کا فیصلہ ہوا تھا۔ اسی حدود آرڈیننس پر کماحقہ، عمل بھی نہ ہوا لیکن امریکہ کو اس سے اس قدر پریشانی تھی کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو اپنے ہاں بلا کر یہ ذمہ داری دی کہ وہ اس آرڈیننس کو ’’حقوق نسواں بل‘‘ کے ذریعے تبدیل کرے۔ یوں اس وقت کی حکومت نے آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مکمل طور پر خلاف شریعت ’’حقوق نسواں ایکٹ‘‘ پاس کر لیا جسے سارے علماء نے مسترد کیا تو وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی بعد میں غلط قرار دیا۔

یہی کام امریکہ نے سعودی عرب کے حوالے سے کئی دہائیوں سے جاری رکھا ہوا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت یا ہاتھ پاؤں وغیرہ کاٹنے کی سزا ختم کی جائے۔ اس کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے ادارے بھی استعمال کئے گئے لیکن سعودی حکومت نے آج تک کبھی کسی کی کوئی پرواہ نہ کی۔ سعودی عرب میں آج بھی خواتین بغیرشرعی حجاب کے گھر سے باہر نہیں آ سکتیں اور انہیں ڈرائیونگ کی بھی اس لئے اجازت نہیں کہ ان کے بقول اس کے مفاسد کافی زیادہ ہیں۔ امریکی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ سعودی حکومت اس حوالے سے کچھ نرمی کرے لیکن انہوں نے اس سے ہمیشہ صاف انکار کیا۔

دنیا کو یاد ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کی مایہ ناز ’’مدینہ یونیورسٹی‘‘ میں دنیا بھر سے ہونے والے علمائے کے داخلے کم سے کم کرنے کے علاوہ حجاج کی تعداد کو بھی کم کرنے اور ان کی تعداد خود متعین کرانے کی کوشش کی اور دباؤ ڈالا تھا لیکن اسے مکمل منہ کی کھانا پڑی اور اس وقت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین کی توسیع کے تاریخ کے سب سے بڑے منصوبے زیرتکمیل ہیں جن پر اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب حج و عمرہ کے لئے جانے والے عازمین اس بات کے عملی شاہد ہیں کہ اس حوالے سے سعودی حکومت کس قدر متحرک، فعال و فکرمند ہے۔بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے سعودی حکمرانوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی حرمین شریفین آنے والے اﷲ کے مہمانوں کی خدمت کو بنا رکھا ہے۔

حرم مکی کی موجودہ جاری توسیع کے بعد یہاں دنیا بھر سے آنے والے 50 لاکھ عازمین حج و عمرہ کو عبادت اور فرائض ادا کرنے کی زبردست سہولیات حاصل ہو جائیں گی۔ عازمین کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ لے جانے کے لئے سعودی حکومت نے سب سے پہلا بلٹ ٹرین منصوبہ منظور کیا جو انتہائی تیز رفتار ہے۔ یہ منصوبہ عرفات سے مکہ مکرمہ تک بھی چل رہا ہے۔ 1991ء کی عراق، کویت جنگ کے نتیجے میں امریکہ کی افواج یہاں پہنچیں تھیں، جنہیں خلیج میں 10 سال تک ٹھہرنے کی اجازت تھی، لیکن اس عرصہ میں بھی سعودی حکام نے امریکی افواج کو ملک سے دوردراز ایک جزیرہ نما حصے جسے ظہران کہا جاتا ہے اور جو بحرین کے قریب ہے، کے اڈے تک محدود رکھا اور انہیں ملک میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے اسلامی شرعی قوانین کا اطلاق انگریز خواتین فوجیوں پر بھی کر کے دکھا دیا اور کبھی کسی انگریز خاتون فوجی کو بغیر پردے کے سامنے نہ آنے دیا اور نہ کبھی ڈرائیونگ تک کی اجازت دی۔ موجودہ سعودی حکمرانوں نے سال2012ء میں اپنے پڑوسی ملک بحرین کے اندر اٹھنے والی بغاوت کو ریاض سے وہاں جا کر کچل کر کھ دیا۔ یہ بغاوت عرب دنیا میں نام نہاد اور اسلام کش جمہوریت لانے کی سازش کا زبردست حصہ تھی جسے امریکہ اور یورپین میڈیا آج بھی عرب سپرنگ یا ’’بہار عرب‘‘ کا نام دیتا اور سعودی عرب کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سعودی عوام نے اسے شروع دن سے ہی مسترد کر دیا اور اپنے حکمرانوں پر مکمل اظہار اعتماد کر دیا۔ سعودی عرب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے دنیا میں قرآن کریم کی طباعت و تقسیم و ترجمہ کا سب سے بڑا نیٹ ورک تشکیل دے رکھا ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے کئی ملین عازمین حج کو واپسی پر ان کے ملکوں کی زبانوں میں قرآن کریم کے باترجمہ نسخے ہدیہ کئے جاتے ہیں۔ یہی سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے زیادہ مساجد تعمیر کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور براعظم آسٹریلیا کے آخری کونے اور جزائر فجی تک سعودی حکومت کی بنی ہوئی شاندار مساجد ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ اعزاز دنیا میں کسی اور حکومت کو آج تک کبھی حاصل نہیں ہوا۔

یہی سعودی حکومت دنیا بھر میں آفت زدہ و مصیبت زدہ مسلمانوں بلکہ ہر مذہب کے انسانوں کی بڑی مددگار ہے۔ 1997ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو عالمی پابندیوں کے ساتھ ہی سعودی حکومت نے پاکستان کے روزانہ کی بنیاد پر 50 ہزار بیرل تیل مفت فرام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا تاآنکہ پرویز مشرف کی حکومت سے تنگ آ کر سعودی حکومت نے یہ سلسلہ بند کر دیا۔

سعودی عرب پر اﷲ کی رحمت کو یوں برستا دیکھا تو ایک حدیث یاد آ گئی، ابو داؤد میں نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے، آپ نے فرمایا کہ ’’زمین پر اﷲ کی ایک حد قائم کرنے سے اﷲ کی اس قدر رحمت و برکت برستی ہے کہ جتنی 40 دن تک بارش بنجرزمین پر برسنے سے بھی نہیں ملتی۔ سعودی عرب میں اﷲ تعالیٰ کے انعامات کی برکھا برستی ہی جا رہی ہے اور سعودی حکومت کے دشمن اور مخالف ذلیل و رسوا ہی ہو رہے ہیں۔

اﷲ کی شان دیکھئے کہ خود کو ساری دنیا کے ’’مالک کل و مختار کل‘‘ سمجھنے والے امریکہ اور اس کے حواری یورپی ممالک اس سعودی حکومت کے سامنے آواز بلند کرنے کی جرأت نہیں رکھتے اور اس کی دوستی کے لئے ہر لمحہ دم بھر سادھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ سعودی حکمرانوں کے پاس اس سب کے لئے جو راز ہے، اسے ہمارے حکمرانوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.