بلوچستان شیعہ زائرین پر حملے ۔۔۔ آخر کب تک لاشوں کے ساتھ دھرنا ؟

نکلو گے ہر موڑ پہ مل جائینگی لاشیں
دھونڈو گے تو اس شہر میں قا تل نہ ملے گا
ویسے تو پاکستان بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہر روز دیکھنے میں آتے ہیں ۔ کراچی بھی جل رہا ہے، پشاور کو بھی آگ لگا دی گئی ہے ، قبائلی علاقے بھی کئی سالوں سے خون کی ندیاں بہا رہی ہے ، کشمیر کی تو نصیب ہی شاید خراب ہے کہ وہ پیدائش سے تاحال خون سے لت پت ہے ۔ بلوچستان جہاں قاتل نہ مقتول کو جانتا ہے نہ ہی مقتول قاتل کو ۔ کوئٹہ ، مستونگ، قلات ،منگوچر ، خضدار ، تربت سمیت بہت سے شہر کئی اقسام کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ۔ ان علاقوں کے نصف آبادی لوگوں کے مطابق ان کے ساتھ پاکستان فوج دہشت گردی میں ملوث ہے ۔ ان کے افراد کو لا پتہ کر کے ان کی زندگیاں اجاڑ رہی ہے ۔ لیکن بعض لوگ دانائی کے ساتھ غیر ملکی ہاتھوں کو زمہ دار قرار دیتے ہیں ۔

بلوچستان میں سنی و شیعہ کی جنگ چھیڑنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ کئی سالوں سے شیعہ حضرات پر بم دھماکوں و ٹارگیٹ کلنگ کے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں۔ ہم 2014 ء کی بات کریں تو اب تک شیعہ حضرات پر دو واقعات بڑے بڑے رونما ہو چکے ہیں جس میں یکم جنوری 2014 ء کے دن ہی کوئٹہ میں زائرین کی بس پر خود کش حملہ ہو ا جس میں 3افراد جاں بحق اور 34 زخمی ہو ئے تھے جس میں 6 افراد بلوچستان کانسٹیبلری اے ٹی ایف کے اہلکار بھی شامل تھے ۔ اس بس پر حملے کی زمہ داری جیش الاسلام نامی ایک کالعدم تنظٰم نے قبول کی تھی ۔ اس کے ترجمان غازی حق نواز نے نامعلوم مکان سے فون پہ واقعے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے ’’یہ حملہ راولپنڈی میں مدرسہ دارلعلوم تعلیم القران کے شہداء کا انتقام تھا ‘‘

21 جنوری کو بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایران سے کوئٹہ آنیوالی زائرین کی بس پر خود کش حملہ ہوا جس میں خواتین اور معصوم بچو ں سمیت 28 افراد جاں بحق ہوئے اور 32 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ۔ اس بار جیش الاسلام کالعدم تنظیم کے بجائے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے حملے کی زمہ داری قبول کر لی۔ ملک کے زمہ دار وں میں صدر ممنون حسین ، وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس واقعے کی صرف مذمت ہی کی اور آج سب کچھ بھول گئے اب یہ منتظر ہیں کہ نہ جانے کب دوسری بار ایسا واقعہ پیش آئے گا کہ ان کو بیان ِ مذمت جاری کرنا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالنا ہے ۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ جیش الاسلام نے جس مدرسے کی بات کی ہے وہ سنی مسلمان کو مدرسہ ہے اور لشکر جھنگوی بھی سنی مسلمانوں کا ہی نام ہے ۔ اب خام خواہ ہی شیعہ لوگوں کا زہن سنی کے خلاف سوچنے لگیں گے اور اس کو شیعہ سنی فسادات قرار دیا جائیگا ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت بلوچستا ن کی یا نا اہلی ہے یا کمزوری ۔ حکومت بلوچستان شیعہ و سنی کی اس شروع ہونے والی جنگ کو روکنے کے لیے کیوں اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے ۔

اس سانحہ کے بعد مجلس و حدت المسلمین ، بلوچستان شیعہ کونسل اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی و لواحقین کا میتوں سے ساتھ دھرنا جاری ہے ۔ اس قبل چند اس طرح کے المناک واقعات کے بعد بھی ان لوگوں نے اسی طرح میتوں کے ساتھ کئی روز احتجاج کیا حکومت کی معمولی یقین دہانی پر آخر دھرنے ختم کر دیے گئے تھے ۔ سانحہ مستونگ کے ایک روز بعد بھی ایران سے آنے والے ہسپانوی سائیکل سوار سیاح پر مستونگ میں حملہ ہوا جس میں بلوچستان لیویز پولیس کے 6 جان باز افرار اسے بچاتے بچات شہید ہو گئے جبکہ سیاح زخمی ہوا اور دہشت گرد مارا گیا۔ ایسے واقعات اب معمول بن گئی ہیں ۔ اﷲ معاف کرے کس کی نظر لگی ہے بلوچستان کو۔

اسلام کے نام پر اس جنگ کو کیوں وسعت دی جا رہی ہے ۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی ان شیعہ سنی واقعات کے پیچھے بلیک واٹر( امریکہ ) ملوث ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کے نام پر ہونے والی اس بدنام ترین جنگ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔
Asif Yaseen Langove
About the Author: Asif Yaseen Langove Read More Articles by Asif Yaseen Langove: 5 Articles with 2798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.