کیا کھویا کیا پایا؟

ولادت رسول خداؐ کا وہ عظیم دن جو رخصت ہوچکا ہے، ربیع الاوّل کی مناسبت سے ہفتۂ وحدت بھی اختتام کو پہنچ چکا ہے تمام مسلمانوں نے بھرپور طریقہ سے جلوسوں اور محافل میں شرکت کی اور پیروکاران رسول ؐ ہونے کا ثبوت دیا لوگوں نے شربت کی اور ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگائیں ، بہت سے مخیر حضرات نے لنگر کا اہتمام کیا، اِ س پورے مہینے میں آپ ہرے بھرے جھنڈوں سے مزین گھر اور گاڑیاں کو دیکھا گیا … رات بھر جاگ کر محافل میں نعت خوانی ہوئی اور کراچی میں تو چراغاں کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا گیا۔ صرف اور صرف رحمت للعالمین ؐ سے خود کو نسبت دینے کیلئے … جشن عید میلاد النبیؐ گزر گیا، مگر یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس عظیم دن سے کیا حاصل کیا؟ یہ عظیم دن ہمیں کیا درس دیتا ہے؟ جو ہماری آئندہ کی زندگی میں کارآمد رہے۔ یا یونہی ہر سال کی طرح ایک تفریح سمجھ کے یا محض ایک مذہبی تہوار کے طور پر اس دن کو منالیا … یا کوئی سبق اور عبرت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
 
آپ سب نے بروز عید میلاد النبی ؐ دیکھا ہوگا کہ رسولؐ کے چاہنے والے نوجوان بہت سی موٹر سائیکلوں پر سائلنسر نکالے، دھواں اُڑاتے گھوم رہے تھے، چاہے وہ کسی محلے کے سامنے سے گزر رہے ہوں یا کسی ہسپتال کے سامنے سے گزر رہے ہوں، وہ یہ کام کیوں کر رہے تھے… صرف اور صرف رحمت للعالمین ؐ سے خود کو نسبت دینے کیلئے … کیا کسی میلاد منانے کے تقاضے یہی ہوتے ہیں؟ کیا دوسروں کو پریشانی میں مبتلا کرکے ختمی مرتبتؐ کا یوم ولادت منایا جاتا ہے … اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیا فائدہ …

جس بات کا درس دیتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ اِس دنیا سے رخصت ہوگئے ہم میں اُنہی باتوں کا فقدان ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں کتنے ہی ولادتِ رسولؐ کے دن گزر چکے ہیں لیکن یہ ملک ابتر سے ابتر ہوتا جا رہا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف اسوۂ رسول کو اختیار نہ کرنا ہے۔ دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک میں سنی، شیعہ مسلک کے مسلمان اپنے اپنے فریضے ایک ساتھ انجام دیتے ہیں لیکن ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک مسلک کا انسان دوسرے مسلک کی عبادت گاہ میں جانے سے گریز کرتا ہے کیوں؟ اِس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی جان خطرے میں پڑ جائے گی … ملک اسلامی ہونے کے باوجود طور طریقوں میں مغربیت کا رنگ واضح نمایاں ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں جمعہ کہ اہمیت کے پیش نظر جمعہ کے دن تعطیل ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں اپنے آقاؤں کی پوچا کے لئے اس عظیم مذہبی دن میں بھی لوگوں کو عبادات کا موقع فراہم نہیں … انتہائی عظیم ، وطن دوست اور عوام کا درد دل رکھنے والے ڈاکٹرز، اسکالرز اور علماء کو شہید کردیا جاتا ہے اور ان کے قاتل اپنے اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں … یہ سب وہ باتیں ہیں جو قوم کا ہر فرد سمجھتا ہے کہ حکومت دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے …

کیا رسالت مآب ؐ کی تعلیمات یہی تھیں کہ عاشقان رسولؐ جہاں رہتے ہوں وہ ایسی مملکت ہونی چاہیے کہ جہاں ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے محفوظ نہ ہو، جہاں پر آج ایک ماں اپنے بچے کو صرف اور صرف اس بات پر ڈاکٹر یا دانشور نہیں بننے دیتی کہ کہیں اِس کا نور نظر فرقہ واریت کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ کتنے ہی جشن عید میلاد النبیؐ گزر گئے لیکن اس دفعہ کیا ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم حیات طیبہ کی روشنی میں اپنی زندگی کو استوار کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے بچوں کو اپنی اصل دینی تعلیمات فراہم سے روشناس کرائیں گے۔ یہ کیسا دور ہے کہ آج بچے کو اللہ و رسول ؐ کے نام یاد کروانے کے بجائے ہم فلمی ہیرو اور ہیروئینوں کے نام یاد کرواتے ہیں اور نماز اور روزے کے بجائے ہم اس سے کہتے ہیں کہ گانا سناؤ… یہ کسی اسلامی مملکت ہے جہاں سب کچھ وہی ہورہا ہے جو دشمن رسولؐ چاہتا رہا…

عظیم دن گزر جاتے ہیں، اور اتنے ہی عظیم سانحے ہوجاتے ہیں لیکن ہماری زندگی پر کوئی بات اثر انداز نہیں ہوتی، آج ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنا احتساب کرے اور سوچے کہ ہم نے اس پرنور مہینہ سے کیا حاصل کیا؟ یا جو کچھ تھا وہ بھی کھو دیا !!
 
احمد قادری
About the Author: احمد قادری Read More Articles by احمد قادری: 2 Articles with 1644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.