زمانۂ حاضرکے موجودہ عالم گیر
اِنسانی اِنتشار کا اگرچہ کوئی قائل نظر نہیں آتااور جغرافیائی ،لسانی ا ور
قومی حدود کی قیدی قومیں اپنی Homogenietyیا متجانسی یا یک رنگی پر بہ ظاہر
بڑا ناز کرتی ہیں،لیکن اِنسانی اقوام کی یہ منتشر صفیں پکار پکار کر کہہ
رہی ہیں کہ اِن کی اِجتماعی زندگی ایک بحران سے دوچار ہے، اور یہ بحران
انتشار جسمانی ہی نہیں، انتشارِ قلبی کا بھی مظہر ہے۔ اِن کے ایک ایک فرد
کے درمیان حقیقتاً کوئی تال میل باقی نہیں رہ گیا ہے، اِن کے دِل پھٹے ہوئے
ہیں،یہاں تک کہ ایک چھت کے نیچے رہنے بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد بھی
ایک دوسرے سے اِس قدربُعدِ قلبی رکھتے ہیں کہ کسی کو کسی کی خبرتک نہیں ہو
پاتی۔باپ کی دُنیا الگ تو بچوں کی دُنیا کچھ اور، بیوی کچھ کر رہی ہوتی ہے
تو شوہر کو کسی اور ہی قسم کی مصروفیت لگی رہتی ہے۔ موبائل ، انٹرنٹ اور
سماجی نیٹ ورک سائٹس کے زمانے میں تو اب صرف چند سو یا چند ہزار خیالی اور
نظروں سے اوجھل آن لائن دوستوں سے رشتے ہی اصل رشتے بن کر رہ گیے ہیں۔آج کل
اِنٹر نیٹ پرتو’’کتاب ِ رُخ زیبا ‘‘پر چند ہزار چہروں سے بڑی اُنسیت دکھائی
جاتی ہے،اور’’کتاب ِ عرشِ اِلٰہی ‘‘سے کسبِ ہدایت کا کوئی جذبہ اِنسانوں
میں باقی نہیں رہ گیا ہے۔ جن لوگوں سے کبھی کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی ہوتی
ہے، نہ کوئی خون کا رشتہ ہی ہوتا ہے، اُن سے توہماری خوب بنتی ہے ، مگر یہ
جو سینکڑوں لاکھوں لوگ ہمارے اطراف ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتے پھرتے
رہتے ہیں،اِن کی طرف نظر اُٹھا کر بھی دیکھنے کو کوئی تیار نظر نہیں
ہوتا(قارئین جان گیے ہوں گے کہ ہمارا اِشارہ کس جانب ہے )۔یہاں تک کہ اپنے
پڑوس میں رہنے والے افراد کے ناموں سے تک ہم واقف نہیں ہیں ۔آخراِس انتشار
کا سبب کیا ہے اور اِسے فطری یکجہتی و متجانسی میں تبدیل کرنے کا پیغام
کہاں تلاش کیا جاسکتا ہے۔!!
ہم اگر قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اِس میں موجودایک ننھی سی جان چیونٹی
کی ایک معمولی سی مثال سارے مسئلے کو حل کر تی نظر آتی ہے اور خدا کی
بارگاہ میں سر بارِ تشکر سے جھک جاتا ہے کہ اُس نے کتاب ِ ہدایت میں چھوٹی
چھوٹی سی مثالوں کے ذریعہ اِنسانوں کے بڑے بڑے مسائل حل کرکے انسانوں پرکس
قدر عظیم احسان فرمادیا ہے۔سورۂ نمل(۲۷) کی یہ آیت ملاحظہ فرمائی جائے :’’
اور جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی کے
قریب پہنچے، تو ایک چیونٹی نے تمام چیونٹیوں کو حکم دیا کہ اپنی بِلوں میں
داخل ہوجاؤ، کہیں حضرت سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ دے، اور خبربھی
نہ ہو(کہ اُنہوں نے تمہیں کچل دیا ہے) ۔ ‘‘ (۱۸)۔
ساڑھے چودہ سوسال قبل، اﷲ نے اپنی جس آخری کتاب کو اِنسانیت کی ہدایت کے
لیے آخری رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم پرنازل فرمایاتھا، اِس نورانی
کتاب کو، اِبتدا میں جن لوگوں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا، وہ لوگ اپنے
دور کے امامِ علم و فن بن گیے تھے۔ وہی الکتاب جس نے دُنیا میں اِقْرَاء کے
اعلان کے ساتھ علوم اور فنون کے دروازے کھول دئے تھے، جسے عرش اعظم سے روح
الامین علیہ السلام پہلی وحی کی شکل میں لے آئے تھے۔اِسی سے انسانوں کو یہ
احساس ہوا تھاکہ علم، تعلیم ، قلم اور کتاب کو دنیائے انسانی کی فلاح و فوز
میں کیا مقام حاصل ہے۔ سچ کہا جائے توسائنس کے موجودہ دور کی بنیاد اﷲ کی
جانب سے اپنے آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہی رکھوا دی گئی
تھی۔کیوں کہ کتاب ِ نور کی جگمگاتی آیتوں میں ربانی ہدایت کے ساتھ ساتھ اُن
سائنسی حقائق کے اِشارے بھی موجود تھے،جونہ صرف بعد میں اخلاقی فلسفوں اور
معاشرتی امن کی رہنمایانہ بنیادبنے، بلکہ متنوع ایجادات و سائنسی نظریات کی
بنیاد بھی ثابت ہوئے۔ پھرایک ایسی اتھاریٹی بھی عطا کی گئی جس کے تحت
اجتماعی زندگی کے ہر مرحلے پرانسانوں کی طرف ذمہ داریوں کی حوالگی عمل میں
آئی، ذمہ دار مقرر کیے گیے، تاکہ فلاحِ دنیا بھی حاصل ہو جائے، امن بھی
قائم ہو اور آخرت کی فوزِ عظیم سے سرفرازی بھی میسر آجائے۔یہ حقائق وہ ہیں
جو رہتی دُنیا تک ہر دور کے انسانوں کے لیے اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتے
رہیں گے کہ الکتاب کسی انسانی ذہن کی اُپج ہرگزنہیں ہے، بلکہ یہ اس رب کی
تنزیل ہے جس کی بادشاہت ابد الآ باد سے ہے اور اجل الآباد تک قائم رہے
گی،ہر جگہ قائم رہے گی،ہر زمانے میں قائم رہے گی اور یہ ہر شئی پر محیط
ہوگی۔ وہی شاہِ کُل جو کائنات اور کائنات کی ہر مخلوق کا تنہا خالق اور
ڈیزائنر ہے۔تخلیق کے ساتھ ساتھ ہر مخلوق کے فرائض بھی اُسی نے مقرر کیے
ہیں،اوریہ اُسی نے بتا یا کہ کس مخلوق سے اِنسانیت کوکس طرح فیض یاب کیا
جائے یاکن مخلوقات کے طرزِزندگی کوکس طرح سبق آموز بنایاجائے، تاکہ یہ
دنیابتدریج ترقی کے مراحل طے کرتی چلی جائے۔ چنانچہ ہم کتاب اﷲ میں شہد کی
مکھیوں، دودھ دینے والے جانوروں کے علاوہ اوربھی کئی مخلوقات کے تذکرے پاتے
ہیں۔
آج ہم چیونٹی کی قرآنی مثال پر غور کرتے ہیں۔ اِبتداء میں پیش کی گئی آیت
میں زمین اور زیرِ زمین بسنے والی ایک ننھی سی مخلوق چیونٹی کا تذکرہ
فرمایاگیا ہے۔نزولِ کتاب کے زمانے میں اِنسان کی سائنسی معلومات اُس قدر
وسیع نہیں تھی، جس قدر آج ہے۔مثلا اُس زمانے میں لوگوں کو چیونٹیاں تو نظر
آتی تھیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کیا حیرت انگیز تفصیلات اِس کی
زندگی سے وابستہ ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ قرآن حکیم نے آج کی تحقیقات کے اِشارے
ہمیں چودہ سال پہلے ہی دے دیے تھے۔ ہم اِس مضمون میں چیونٹی کی زندگی کے
حوالے سے اِن قرآنی اِشاروں سے میل کھانے والی تحقیقات پیش کرتے چلے جائیں
گے:
۱)……دورِ حاضر کی سائنس کہتی ہے کہ ہر مخلوق اپنا Pairیا جوڑا رکھتی ہے۔
دیگر مخلوقات کی طرح اِس چھوٹی سی مخلوق کے بارے میں بھی ہم کو خبر نہیں
تھی کہ اِس کی بھی جوڑیاں یعنی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت ربِّ
کائنات نے اپنی کتاب کی سورۂ زاریات(۵۱)میں اُسی زمانے میں پیش فرما دی تھی
:
’’اور ہر شئے کو ہم نے جوڑے میں پیدا کیا ہے، تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل
کرکے سدھرجاؤ۔ ‘‘(۴۹)۔
۲)……ربِّ اعلیٰ نے اپنی کتابِ ہدایت میںShe ant ، مادہ چیونٹی کا تذکرہ
فرماکر انسانی ذہن کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس چھوٹی سی مخلوق کی اِجتماعی
زندگی کے سبق آموز پہلوؤں سے اِستفادہ کرے۔ اپنی سائنسی معلومات میں اِضافہ
کر تے ہوئے آگے کی منزلیں طے کرتا چلاجائے۔سائنسی رُجحان رکھنے والوں کو
متوجہ کیا کہ وہ ننھی منی چیونٹی کے سلیقۂ زندگی پر غور کریں اور اِنسانیت
کو اِ س حقیقت کی گواہی پیش کریں کہ کائنات کی ہر شئے اپنے خالق کی مسلسل
تابعداری کررہی ہے۔ہر مخلوق ، چاہے وہ چھوٹی ہو کہ بڑی، اپنی ڈیوٹی کمالِ
مہارت کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ خود اِنسان تابعداری کے اِس
سلیقے کوکیوں بھلا بیٹھا ہے!! وہ من مانی زندگی کا خوگرکیسے ہو گیا ہے! وہ
اپنے فرائض سے رُوگردانی کیوں کرتا ہے! اپنے حقوق کی لڑائیاں کیوں لڑتا ہے
!حالانکہ دُنیا کے تمام اِلٰہی نصاب اُسے حقوق کی ادائیگی کا درس دیتے ہیں
۔ خودرب تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید، تواتر کے ساتھ اِنسان کو حقوق کی صرف
اور صرف’’ ادائیگی ‘‘ کی طرف راغب کراتی رہتی ہے، اور اِس پر ایمان رکھنے
والے اپنے لیے حقوق کی لڑائیاں لڑنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
۳)……کتابِ ہدایت کی روشنی میں چیونٹیوں کے نظام زندگی سے بہت کچھ سیکھا جا
سکتا ہے ، اور اِن سے عبرت حاصل کرتے ہوئے، ہم بھی اپنا نام خالق کی
فرمانبردار مخلوقات میں درج کروانے کے اُمیدوار بن سکتے ہیں۔ذہن کے اخلاقی
جھکاؤکے ساتھ سائنسی جھکاؤ، نیز کردار، گفتار، اور اپنی طرز زندگی میں
حقیقت پسندانہ جذبۂ خدمت کے ذریعہ ہم اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے تئیں
اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکتے ہیں۔چیونٹی کوذرا دیکھیں۔یہ اپنے رہنے
کے لیے باضابطہ طور پر کالونی بنا تی ہے اور یہ ایک ایسی ذمہ دار مخلوق ہے،
جو اپنی پیدائش سے ہی سعی ٔمسلسل کی بہترین مثال پیش کرتی ہے، وقت کے صحیح
، مثبت اور سو فی صداستعمال کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اپنی پیدائش کے
لمحے سے لے کر موت کی ساعت تک، یہ ننھی اور نازک سی مخلوق، اپنے رب کے حکم
کی تعمیل میں گذارتی ہے۔کیا اِنسانوں کے لئے اِس کی زندگی وجہِ درسِ عبرت
بھی بنتی ہے؟ ہم اگراپنی چشمِ بصیرت کھلی رکھیں ، تویہ سرسبز و شاداب زمین،
اِس پر اُگنے والی نباتات، زمین کے اندر موجود خزانے، زمین پر آباد ہر نوع
کی لاتعداد مخلوقات ،ہمارے سروں پر تنی آسمان کی لامحدود چادر اور جس فضا
کو ہم اپنے اوپر اوڑھے ہوئے ہیں، یہ سب عقل سلیم رکھنے والوں کے لیے ہدایت
کے اِشارے دیتے ہیں۔ اس کی تاکید ہم سے ہمارے رب نے اپنی کتاب میں بار بار
کی ہے کہ آیات اِلٰہی پر غور کرو۔اِن پر تدبر، کتاب اﷲ کا ایک مستقل تقاضہ
ہے، مثلاًسورۂ زاریات(۵۱)میں فرمایا:
’’اورصاحبِ یقین لوگوں کے لیے زمین میں نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ‘‘(۲۰)۔
۴)……جدید تحقیق کے مطابق زمین پر چیونٹیوں کی آبادی، اِنسانوں کی آبادی سے
کئی ملین گنا بڑھی ہوئی ہے۔یہ کالونی بناتی ہے، اور اِس کی حفاظت کا نظم
خود کرتی ہیں۔ اپنی نئی نسل کی تربیت و نگہداشت، اپنی بستی کا دفاع ، خوراک
کے حصول اور ذخیرے کا سلیقہ، ہر کام پر ایک ذمہ دار کا تقرر اور ماتحت
چیونٹیوں کا اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینا اور ایک مؤثر مواصلاتی
نظام کاقیام،غرض کہ خالق کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا منظم طور پر استعمال
کرتی ہے۔کیا ہم منتشر انسانوں کے لیے یہ سب قابلِ تقلید نہیں ہونا چاہیے
تھا؟ سب سے زیادہ باصلاحیت اِنسانی مخلوق میں یہ بے شمار برائیاں، تباہ کن
ناانصافیاں اور ناقابلِ اِصلاح بگاڑ آخر کہاں سے در آیا ہے؟ کیا کسی کوڈ،
اصول اور کسی ضابطہ کے بغیر ہم یوں ہی الل ٹپ سی زندگی گزارتے رہ جائیں گے؟
۵)……ہم سے کتنوں کو اِس کی خبر ہے کہ جس طرح خالقِ کائنات نے چیونٹیوں کی
فطرت کو تابع فرمان بنایا ہے، اُسی خالق نے ہمیں بھی ایک کتاب عطا کی
تھی،جسے ہم قرآن کہتے ہیں ، جس کے ذریعہ زندگی کا ایک ضابطہ اورایک پورے کا
پورا نظام نازل فرمایا تھا……!! کیا ہم اِس میں تدبر کے ذریعہ اپنی زندگیوں
کو ایک نظم سے آراستہ کرنے کی کبھی کوشش بھی کرتے ہیں؟اِنسانی سماج کے
مجالسِ دانشوراں Think Tanks ، کم از کم چیونٹیوں کے نظام حیات سے ہی ضابطے
اخذ کر لیتیں توشاید اِنسانوں میں یہ انتشار رو نما نہ ہوا ہوتااوراِن کی
زندگی نظم و ضبط کے زیورات سے کب کی مزیّن ہو چکی ہوتی۔ اب بھی یہ کام نا
ممکن نہیں ہے۔ ایک مفید معاشرے کے رہنماء اُصول اور امنِ عالم کی بہتر
تدبیریں چیونٹیوں کی قوم سے اخذ کیے جاسکتے ہیں جس کی تحریک ہمیں اﷲ کی
کتاب سے ہی ملتی ہے۔لیکن، نہیں ، ہمارے مالک نے ہمیں دُنیا میں بھٹک جانے
کے لیے چھوڑ نہیں دیا ہے۔ اُس نے ہم پر بھی احسان فرمایا ہے۔ ہم انسانوں کے
لیے بھی مالکِ اِنسان نے چیونٹیوں کی طرح ایک نظام، ایک کتاب ِہدایت کی شکل
میں نازل فرمادیا ہے ۔چیونٹیوں کی مذکورہ مثال تو ہمیں متحرک کرنے کے لیے
ہے ،جسے قرآن میں ہماری ہدایت اورحصولِ درسِ عبرت کے لیے محفوظ فرما دیا
ہے۔ سورہ انعام (۶)میں اِرشاد فرمایا گیا:’’ اورزمین میں کوئی حرکت کرنے
والی مخلوق نہیں ، اور نہ پرندوں کی کوئی قسم ہے، جواپنے پَروں پر اُڑتے
ہیں، مگر یہ کہ اُن کی بھی جماعتیں ہیں ،تم انسانوں(کی جماعتوں )کی طرح۔ہم
نے کسی چیز کورکارڈ سے باہرنہیں رہنے دیاہے۔ پھر ان کے رب کی طرف ہر مخلوق
کا حشر بھی ہونا ہے ۔ ‘‘(۳۸)۔
۶)……چیونٹیوں کے سماجی زندگی Community Living کی طرح انسان بھی ایک سماجی
زندگی گزارتا ہے۔ اپنی کتاب میں اپنی خصوصی مخلوق’’اِنسان‘‘ کے لئے رب
تعالیٰ کبھی یایھا الناس کبھی یایھا الانسان تو کبھی یا بنی آدم وغیرہ
الفاظ سے خطاب فرماتا ہے۔اِس اِنسانی مخلوق کا آغاز ایک ہی جوڑے حضرت آدمؑ
اور ماں حواؑ سے ہوا تھا ۔ اِن کی نسلیں زمین پر بسائی گئیں۔رب تعالیٰ سورۂ
حجرات(۴۹)میں اِرشاد فرمایا:’’ اے انسانو! بیشک ہم نے ایک نراور ایک مادہ
سے تمہیں پیدا کیا ہے، اور ہم نے تم میں شعبے اور قبائل اور اقوام بنائے ،
تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تمہارا اکرام، تمہاری درجہ
بندی اﷲ کے نزدیک تمہارے تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔ بیشک اﷲ کے پاس ہر شئے کا
مکمل علم اوراِس کی خبر ہوتی ہے۔ ‘‘(آیت۱۳)۔چونکہ انسانوں کے بھی شعبے اور
قبیلے اور اقوام ہو تے ہیں، ان قوموں اور قبیلوں کی نسبت سے انسان بھی ایک
معاشرتی زندگی گزارنے والی سماجی مخلوق قرار پاتی ہے۔لیکن چونکہ اِنسان
اپنی اجتماعی حیثیت کو بھولتا رہتا ہے ، اِس لیے اِس کی بار بار یاد دہانی
کے لیے چیونٹیوں کی اِجتماعی زندگی میں ایک عملی نمونہ مستقلاً ہماری نظروں
کے سامنے رکھ دیا گیاہے ، جو ہر زمانے،ہر خطۂ زمین، صحرا ہو کہ جنگلات، میں
ہمارے سامنے مسلسل موجود رہتی ہیں، تاکہ اِس سے تحریک پاکر وہ خود اپنی
اجتماعیت کے بھولے ہوئے سبق کو یاد کرتا رہے اور اپنی نشو نماکے لئے درس
لیتا رہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے چیونٹی کا،جو بظاہر ایک معمولی چیز نظر آتی
ہے، تذکرہ فرماکراِس جانب اِنسانوں کی توجہ مبذول کرائی ہے، ان کے نظامِ
زندگی پر ریسرچ کے مواقع پیدا فرمائے ہیں ،تاکہ اِس کی روشنی میں وہ اپنی
زندگی کو منظم کر ے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔
۷)……جدید تحقیق بتاتی ہے کہ ہر چیونٹی کی ایک ذمہ داری متیعن ہوتی ہے، کوئی
چیونٹی بے مقصد زندگی نہیں گزارتی۔ ہر ایک کو اس کی استطاعت اور قابلیت کی
بنیاد پر ہی ذمہ داری Assign کی جاتی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں اِسے Perfect
Division of Labour(کامل تقسیم کاری)کہا جاتا ہے۔ایک حیرت انگیز دریافت یہ
ہوئی ہے کہ ان میں جذبۂ قربانی انتہا درجے تک پایا جاتا ہے۔اِن کا نظمِ
تقسیم کاری، جذبۂ قربانی، آمادگی برائے اطاعت ، ایثار و انتظام وہ خصوصیات
ہیں، جو انسانی عبرت کا کام کرتی ہیں،اور ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سماجی اور
اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتے ہو تو اِن خصوصیات کواپنے اندر
پیدا کرو، جوچیونٹیوں میں دکھائی دیتی ہیں۔اہلِ ایمان کے لیے سورۂ نساء(۴)
میں اﷲ کا یہ حکم ہے کہ:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت شعاری اِختیار
کرواور کہا مانو،اﷲ کا ، اِس کے رسولؐ کا اور تمہارے اُولو الامر کا۔ پھر
اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان تنازعہ کھڑا ہوجائے تواسے اﷲ اوراس کے
رسو لؐ کی طرف رجوع کرو، اگرتم اﷲ کے ساتھ اور آخرت کے دن کی جوابدہی کے
احساس کے معاملے میں ایماندارہو۔ یہی بہترطرزِ عمل ہے اوراِس کا انجامِ کار
بھی انتہائی حسین ترہے۔ ‘‘(۵۹)۔
۸)……چیونٹیوں میں نر اور مادہ کی دریافت کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ
اجتماعی انتظامی امور میں She-antکارول اہم ہوتا ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل
ربِّ کائنات نے اپنی کتاب میں ، مذکورہ آیت میں بھی، لفظ …… النملۃ…… کا
لفظ اِستعمال کیا ہے ۔جس کا انگریزی ترجمہ The She-
antہوگا۔دو باتیں صاف ہیں: اس ایک لفظ سے ہی رب تعالیٰ کی طرف سے اِنسانیت
کو یہ رہنمایانہ اِشارہ دیا گیا، کہ چینونٹیوں کے سربراہ کے مادّہ ہونے کی
اطلاع سب سے پہلے قرآن نے ہی دی۔کاش کہ سائنس دان اپنی تحقیقی حقائق کے
حوالے سے اپنے رب کی کتاب کی حقانیت کانہ صرف اعتراف کرتے، بلکہ اِس سے
اپنا تعلق بھی جوڑ لیتے۔دوسری بات یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جو حاملین وحی
ہیں ، وہ توکم از کم جدید علوم کی فراہم کردہ اِن معلومات کی روشنی میں
اپنا جائزہ لیتے اور خود بھی مزید تحقیقات میں پہل کرکے اﷲ کی کتاب کو
اِنسانوں میں مقبول بناتے، نیزانسانیت کی فلاح و کامرانی،اِن کی ہدایت اور
مغفرت کے حصول کی جدوجہد کرتے ۔ظاہر ہے کہ سماجی زندگی میں اقتدار کے مراکز
کے ساتھ ایک بااختیار لیڈر کا ہونا
ضروری ہے۔چنانچہ چیونٹی اِس کی بہترین مثال پیش کرتی ہے، لیڈرشپ یا چیف کی
ذمہ داری اُٹھانے والی چیونٹی کو جدیدسائنسی اِصطلاح میں رانیQueen کہا
جاتا ہے۔اپنی قابلیت کے اعتبار سے جسامت میں یہ دیگر چیونٹیوں سے بڑی ہوتی
ہے، ہمیں بھی اپنے ذمہ داروں کے انتخاب میں اِس کالحاظ رکھنا چاہیے۔جب بنی
اسرائیل نے اپنے لئے ایک سیاسی قائد کی فرمائش کی تھی ، تو وقت کے نبی کی
دُعا کے جواب میں اﷲ نے طالوت کو یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ اس تقرر کا جو سبب
قرآن میں سورۂ بقرہ(۲)میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے:’’…… وقت کے نبی نے فرمایا!
بیشک اﷲ نے چن لیا اُسے (طالوت کو) تم پر، اور قابل بنایا اُسے علم کے
اعتبار سے بھی اور جسم کے اعتبار سے بھی…… ‘‘(۲۴۷)۔
۹)……چیونٹیوں کی مذکورہ مثال اِس آیت کا عملی مظہر ہے۔ طالوت والے واقعہ
سبق دیتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کی ذمہ داری بھی صاحبِ علم اور جسمانی
لیاقت کے اعتبارسے مناسب فرد پر ہی ڈا لنی چاہیے،جن کی مثال چونٹیوں کی
اجتماعیت میں موجودہے۔ظاہر ہے، عہدے کے ساتھ اختیارات بھی ساتھ ساتھ چلتے
ہیں اور آزمائش کا باعث بنتے ہیں۔ اپنی ذمہ داری اور اپنے فرائض سے کما حقہ
عہدہ برآ ہونے والا ہی رب کی رضا اور آخرت کے انعام کا مستحق بنتا ہے۔عہدے
اور اختیارات کا بیجا اِستعمال ہو تولازماً بد عنوان نظام ہی وجود میں آئے
گا، اِجتماعی کام فاسد ہوجائے گا ، اور انسان تنزل کا شکار ہوکرنقصان
اُٹھائے گا۔یہ نقصانات تو دُنیا کے ہیں، جبکہ روزِ محشرکے حساب کو تو ابھی
آنا ہے۔ ایک دیانت دار آدمی سے ایمان تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کا اور
رسول کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کا واقعی ایمان دار اور زندگی کے ہر شعبے میں
دیانت دار بنا رہے۔سورۂ نساء(۴)میں درج ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اﷲ
اور اس کے رسولؐ کے ایمان دار بنے رہو اور اس کتاب پر ایمانداری سے عمل
کرتے رہو،جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، اور اُن کتابوں پر بھی ایمان
رکھو جو اس سے قبل اﷲ نے نازل کی ہیں…… ‘‘(۱۳۶)۔
۱۰)……حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے مارچ کے وقت چیونٹی والے مذکورہ
واقعے کو جدید تحقیق کی معلومات کے ساتھ جوڑ کر Co-relate کرکے دیکھتے ہیں
توہمیں مزید درس ہائے عبرت حاصل ہوتے ہیں کہ کس طرح کے سماجی آداب یا
معاشرتی تانے بانوں کو اِنسانی معاشرے میں برتا جانا چاہیے۔ Chief Antکے
بعد دیگر شعبوں پر بھی ذمہ دار چیونٹیاں مقرر ہوتی ہیں، جن کی ماتحتی میں
بہت ساری قوتِ کارلگی ہوتی ہے۔ اِس کا ایک اہم محکمہ ، محکمۂ دفاع بھی ہوتا
ہے، جس کے لئے افسران چیونٹیوں کے ماتحت سپاہی چیونٹیوں کی ایک فوج متعین
ہوتی ہے۔ اِن کی اپنی نسل کی حفاظت، بقا اور افزائش کا بھی ایک مربوط نظام
ہوتا ہے ۔اس میں ایک اہم ذمہ داریLarva & Babies کی نگہداشت و پرورش کے
ساتھ تربیت کا انتظام بھی ہوتا ہے۔کالونی کی صفائی، اور سامان کی نقل و
حرکت اور بیماروں کی دیکھ بھال کے لئے کئی اور بھی شعبے متحرک رہتے ہیں
۔مثلاًکام کرنے والوں کاگروپ، پھر اِن کی ماتحت چیونٹیاں،پھر نرسس، پھر
چوکیداران جن میں سے ہر ایک کاہدف مقرر ہوتا ہے۔ہم ایمان والوں کو بھی سورۂ
تحریم(۶۶)
میں اپنے اہل و عیال کی تربیت کی رہنمائی ملتی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے
ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو……
‘‘(۶)۔ہر مومن کے لیے واحد کا صیغہ استعمال فرماتے ہوئے رب تعالیٰ نے ہمیں
سورۂ طہٰ(۲۰) میں ایک حکم دیا ہے:’’اور اپنے گھر والوں کو،اور اپنے بال
بچوں کو نماز کاحکم دو اور خود بھی مضبوطی سے اس پر قائم رہو……‘‘(۱۳۲)۔
چیونٹی جیسی مخلوق ہدایتِ رباّنی کے تحت جب ایک بے مثال سماجی توازن کا
مظاہرہ کر سکتی ہے،تو اشرف المخلوقات یعنی اِنسانی مخلوق کیوں ایک منتشر
گروپ بن کر رہ جاتی ہے۔کیا سبب ہے کہ تعلیمی اِدارے، دانشوری کے مراکز،
فلسفہ دانوں کے علمبرداردانش کدے،اگرچہ ہر طرف سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں،
مگرکوئی فلسفہ، کوئی دانشوری اِس انتشار کو دُور نہیں کر پائی ہے اور پوری
انسانیت مسائل کے بوجھ تلے دبی کراہ رہی ہے۔ مادَی ترقی عروج پرتو ہے، مگر
اخلاق کا جنازہ نکلا ہواہے۔سبب یہ ہے کہ سائنسی علوم، آسمانی وحی کے نور سے
محروم ہیں۔افسو س کہ وہ قوم جس پر اِس گم کردہ راہ عوام تک ہدایت کی ترسیل
کی ذمہ داری تھی ،وہ اِس کام میں نا قابلِ معافی غفلت برت ر ہی ہے۔چیونٹیوں
کے نظم و نسق سے با خبر ہونے کی سعی تو کیا ہوتی، اِن بیچاریوں کو مسلتے
اور روندتے پھرنے میں اِنسان کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔کبھی کبھی ڈنک
مارکر اِسے خوابِ غفلت سے جگا نے کی یہ ننھی سی جان کوشش بھی کرتی ہے اور
اِنسان ہے کہ اِسے ضرر رساں قرار دے کر اِس کے خلاف Pest Controlکے حربے
آزماتا ہے، لیکن اپنی بے حسی کا علاج نہیں کرتا۔ بے شک اِن میں خطرناک
چیونٹیاں ضرور ہوتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اُسی وقت ڈنک مارتی ہیں
جب ہم جیسے غافل لوگ اُن کی منظم اجتماعی زندگی میں شعوری یا غیر شعوری طور
پر خلل انداز ہوتے ہیں۔ کتاب اﷲ یاد دہانی کراتی ہے کہ چیونٹی کی زندگیوں
سے درسِ عبرت حاصل کرو، لیکن ہم کو توجہ نہیں ہوتی۔ہماری فکر و نظر کے اِس
عدم توازن کو اگر دورنہ کیا جائے، تو یقینا چیونٹیوں کا رب، ہمیں ایک
مربوط، سنجیدہ، باعزت وباوقار معاشرے سے محروم کر دے گا۔ وہ دن دور نہیں،
جب کتابِ ہدایت کے سلسلے میں عدم توازن کا شکار اِس منتشر انسان کے ساتھ یہ
کائنات بھی بکھرکر رہ جائے گی۔
کیاہمیں اِس بھیانک انجام کا خوف ،کبھی بے چین بھی کرتا ہے……؟کیا ہم اِس
انتشار ِ قلبی و جسمانی کے ساتھ اپنے رب کے رُو برو کھڑے ہونے کے قابل بھی
ہو سکیں گے……!! |