تصوف کی آفاقی قدریں

(یہ مقالہ”تصوف کی آفاقی قدریں“ کے عنوان سے 8 مئی 2010ء کو اکادمی ادبیات پاکستان کی پنجاب شاخ کے زیر اہتمام لاہور میں ہونے والی کانفرنس ”صوفی ازم کی عوامی بنیادیں“ میں پڑھا گیا)

حقیقت تو یہ ہے کہ اکاومی ادبیات پاکستان کی پنجاب شاخ کے زیر اہتمام ہونے والی یہ کانفرنس جس کا موضوع صوفی ازم کی عوامی بنیادیں ہے دراصل اس امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور اس مغربی پا کھنڈ کا ایک حصہ ہے جس کا دوبارہ احیا اٹھارہ اپریل 2004 کو جاری ہونے والی بد نام زمانہ RAND REPORT سے ہوا ہے جس کا عنوانCIVIL DEMOCRATIC ISLAM- PARTNERS, RESOURCES & STRATEGIES ہے ۔ یہ رپورٹ مشہور قدامت پرست امریکی تھنک ٹینک RAND CORPORATION کے زیر اہتمام اقوام متحدہ میں سابقہ امریکی سفیر شیرل بینارڈ نے لکھی ہے۔شیرل بینارڈ عراق میں سابق امریکی سفیر افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کی اہلیہ ہے۔ یاد رہے کہ زلمے خلیل زاد سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا سپیشل اسسٹنٹ ہونے کے علاوہ چیف نیشنل سکیورٹی کونسل آفیشل برائے خلیج فارس وجنوب مغربی ایشیا رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد امریکی آئل ٹائیکون کے اس منصوبے کا ایڈوائزر تھا جو ترکمانستان سے پاکستان براستہ گیس پائپ لائن پر کام کر رہا تھا اور انرجی سے متعلق عالمی شہرت یافتہ کمپنی کا کنسلٹنٹ رہا ہے جو سنٹرل ایشیا کے تیل وگیس کے ذخائر کو براہ راست امریکی تسلط میں لانے کے طویل المدتی منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ زلمے خلیل زاد اور شیرل بینارڈ کے دو بیٹے ہیں جن کے نام الیگزینڈر اور میکسی میلین ان کی مذہبی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ ساری تفصیلات بتانا اس لیے ضروری تھیں تاکہ آپ کو نئے استعماری حربے کے پس پشت لوگوں کا پس منظر معلوم ہو سکے جس کی بنیاد پر ہم ان کے مستقبل کے منصوبوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں اسلام کو گیارہ ستمبر کے بعد والی دنیا کے لیے قابل بنانے کے عالمی منصوبے کے عین مطابق ڈھالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ اسلام کا ایک ایسا رخ متعین کیا جائے جو بعداز نائن الیون کے مغربی ایجنڈے کے مطابق ہو اور دوسرا یہ کہ مسلم امہ میں تفریق پیدا کی جائے۔

اس بد نام زمانہ رپورٹ کے بعد دسمبر 2004 میں اسی رینڈ کارپوریشن نے ایک اور رپورٹ بھی پیش کی جس میں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات کو بنیاد بنا کر ہر دو فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی منصوبہ بندی کی گئی یہ رپورٹ صدیوں سے استعماری طاقتوں کے آزمودہ اصول لڑاؤ اور حکومت کرو (DIVIDE & RULE)کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔

حالانکہ صوفی ازم کی اصطلاح بظاہر ایک عام فہم اور سادہ سی بات نظر آتی ہے لیکن اس کے ظاہری مفہوم سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو ایک نہایت ہی دقیق اور گنجلک سلسلہ شروع ہو جاتاہے جسے سمجھنے کے لیے طالبان علم محی الدین ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم سے شروع ہو تے ہیں اور الفتوحات المکیہ سے ہو تے ہوئے کشف المحجوب تک کا سفر طے کر تے ہیں لیکن میراذاتی خیال ہے کہ صوفی ازم کو پڑھ کر ا س کے قواعد ، بنیاد اور تفصیلات کو تو شاید کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے مگر اس کی منزلیں پانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔ میں نے اس سلسلے میں برادر بزرگ وڈے باوے تاجی سے کئی بار اس شرط پر سوالات کئے کہ وہ مجھے تصوف کی باریکیوں اور فلسفے کی موشگافیوں میں ڈالے بغیر صرف دوسوالات کا جواب دے کہ کیا تصوف شریعت سے کوئی علیحدہ چیز ہے؟ اور کیا تصوف شریعت سے آگے کی کوئی چیز ہے یا پیچھے کی شے ہے تو وہ کوئی سیدھا اور عام فہم جواب دینے کے بجائے مجھے ہمیشہ ایسی دقیق اصطلاحوں سے مطمئن کرنے کی کوشش کر تا ہے جو میری سادہ فہم عقل سے ماورا ہے۔ میں جب بھی اس سے اس سلسلے میں قرآن وحدیث کا حوالہ مانگتا ہوں وہ مجھے محمد عربی کے بجائے ابن عربی کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کر تا ہے اور سرمد کے اشعار سے بہلانے کی سعی کر تا ہے۔ بقول علامہ اقبال جب آپ کسی بات کے باطنی مفہوم بیان کرنا شروع کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بات کو جاننا ہی نہیں چاہتے۔ تصوف کے مفہوم ومطالب بیان کرنے والے انہی باطنی مفاہیم سے بات کا آغاز کر تے ہیں۔

صوفی ازم کوئی حساب کا سوال نہیں کہ اس طرح کے چار سوالات حل کر لیے اور سمجھ لیا کہ اب اس طرح کے دیگر سوالات حل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا ہے یا وہ الجبرے کا مسئلہ فیثاغورث نہیں کہ اسے رٹا لگا لیا اور پھر امتحان میں اسے حل کرکے سوبٹا سو نمبر حاصل کر لیے جائیں۔ اگر بات صرف اور صرف تعلیمات پر عمل کرکے منزل کو پانے کی ہے تو یہ و صف صرف اور صرف قرآن وحدیث میں ہی ہے کہ آپ ان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فیض حاصل کر سکتے ہیں۔ جہاں تک صوفی ازم اور اسکی تعلیمات کا تعلق ہے تو یہ پڑھنے کی حد تک، سیمینار کروانے کی حد تک ، کانفرنسیں منعقد کروانے کی حد تک اورحتی کہ سرد ھننے کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن ان پر عمل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کوئی صوفی باعمل رہنمائی کیلئے خود موجود نہ ہو کیونکہ صوفی اپنی تعلیمات ، گفتگو اور لفاظی سے نہیں بلکہ اپنے عمل اور کر دار سے متاثر کر تا ہے۔ اس کی ساری تعلیمات اس کا کر دار اور عمل ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں صوفیا کی ساری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ عوام الناس کو صوفیانے علم سے نہیں بلکہ عمل سے متاثر کیا کہ عوام الناس کو صرف کر دار اور عمل کے ذریعے ہی متاثر کیا جاسکتا ہے۔ تعلیمات شخصیت سے ہٹ کر باقی کچھ بھی نہیں رہ جاتیں۔

اگر کسی کا خیال ہے کہ صوفیا کی تعلیمات صدیوں اور عشروں بعد بھی اسی طرح پیار، محبت، یگانگت ، بھائی چارہ تحمل اور رواداری عام کر سکتی ہیں جیسا کہ خود انہوں نے اپنے کر دار اور عمل سے عام کی تھیں تو یہ ایک مکمل خوش فہمی کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے اگر صوفیا کی تعلیمات ان کی موجودگی کے بغیر قابل عمل اور کارگر ہوتیں تو یہ معاشرہ ایک دوسری تصویر پیش کر رہا ہو تا اور خصوصا صوفیا کے دنیاوی وارث مخادیم اور سجادہ نشین حضرات اس کی سب سے خوبصورت مثال ہوتے۔

مگر نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑرہاہے کہ اگر ان کے مریدین کی آنکھوں سے عقیدت کی پٹی اتار دی جائے تو نوے فیصد سجادہ نشین حضرات ایسے ہیں کہ جو اپنے بزرگوں کا نام نامی روشن کرنے کے بجائے روز قیامت ان کے لیے باعث شرمندگی ہونگے۔ اگر ان کے جدامجد آج زندہ ہو کر دوبارہ دنیا میں تشریف لانے پر قادر ہو تے تو وہ نہ صرف ان کے اعمال سے لاتعلقی کا اظہار کرتے بلکہ اگلے ہی روز اخبار میں انہیں اپنی روحانی وراثت کے علاوہ اپنی تمام منقولہ وغیرہ منقولہ جائیداد سے عاق کرنے کا اشتہار شائع کروادیتے ۔

رینڈ کارپوریشن کی 2004میں پیش کر دہ اس رپورٹ کے بعد دنیا بھر میں ایک بار پھر صوفی ازم کا غلغلہ مچا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چار پانچ سالوں سے صوفی ازم کیلئے ہونے والی کاوشیں ، کانفرنسیں اور سیمینار اسی مغربی ایجنڈے کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ آجکل تصوف کی آفاقی قدروں سے مراد صوفی ازم کے فروغ کے لئے کی جانے والی وہ عالمی کوششیں ہیں جو استعمار اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ کسی صوفی کی غیر موجودگی میں صوفی ازم سوائے خانقاہی نظام کے اور کچھ نہیں ہے اور یہ ماضی میں نو آبادیاتی نظام کے استحکام کیلئے استعمال ہو تا رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں انگریزوں نے جہاں جاگیر داروں اور رؤسا کو استعمال کیا وہیں انہو ں نے مختلف سلسلوں سے تعلق رکھنے والے صوفیا اور بزرگان دین کے سجادہ نشینوں اور روحانی وارثوں کو پوری طرح استعمال کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے مخادیم اور ان کے ذریعے ان کے مریدوں کو اپنے نوآبادیاتی نظام کی مضبوطی اور اپنے خلاف ہونے والی آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔

رینڈ کارپوریشن کی اس رپورٹ میں شیرل بینا رڈ نے موجودہ اسلامی دنیا کو سوچ وفکر کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

(1)FUNDAMENTALIST یعنی بنیاد پرست

(2)TRADITIONALIST یعنی روایت پرست

(3)MODERNIST یعنی جدیدیت پسند، اور

(4)SECULARIST یعنی لادینیت پسند

اس میں وہ بنیادپرست اسے قرار دیتی ہے جومغربی تہذیب اور جمہوری اقدار کو مستردکرتے ہیں۔ روایت پر ست وہ ہیں جو جدت، ترقی اور تبدیلی کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات رکھتے ہیں ۔ جدیدیت پسندوہ ہیں جو اسلامی دنیا کو جدید عالمی رجحانات کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہیں اور لادین پسند وہ ہیں جو اسلامی دنیا میں ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے یکسر علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں وہ تجویز کر تی ہے کہ روایت پر ستوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کے ذریعے بنیاد پر ستوں کو مغلوب کیا جائے تاہم وہ مسلمانوں کے چوتھے مکتب فکر یعنی لادین پسندوں کے بارے میں متحیر ہے کہ ان کے اکثر دانشوروں کا رویہ مغرب کے بارے میں غیر دوستانہ بلکہ متشددانہ ہے اور اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے وہ بنیادی وجوہات کا تعین یوں کرتی ہے کہ اس رویے کا باعث مشرق وسطی میں انسانی حقوق کے بارے میں دہری امریکی پالیسیاں، بائیں بازو کے نظر یات ، امریکہ مخالف جذبات اور شدید قوم پرستی ہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی دنیا میں اس کا رول ماڈل ترکی ہے جو اس کے نزدیک جارحانہ سیکولرازم کی ایک خوبصورت اور قابل تقلید مثال ہے۔

آخر کیا وجہ ہے سمتھ رچرڈسنز فانڈیشن کے سالانہ ایک سو ملین ڈالر سے زائد بجٹ میں سے بیشتر حصہ وصول کرنیوالی رینڈ کارپوریشن یہ رپورٹ مرتب کرکے امریکی حکومت کو پیش کر تی ہے اور اس کے بعد اسلامی دنیا میں کئی عشروں کے بعد ایک بار پھر صوفی ازم کے احیا کے لیے جو دراصل خانقاہی نظام کا دوسرا نام ہے کی عالمی سطح پر کوششوں کا آغاز ہو تاہے۔ برطانیہ اپنے نو آبادیاتی دور کے عروج میں یہ فامولا بڑی کامیابی سے آزما چکا ہے اور برصغیر میں صوفیا کی ذات سے محروم درباروں کے سجادہ نشینوں اور متولیوں کے زور پر اور سرزمین عرب میں حسین شریف مکہ جیسے مذہبی اہمیت کے حامل غدار حکمرانوں اور لارنس آف عربیا جیسے جعلی مذہبی رہنماں کے ذریعے اپنے نو آبادیاتی نظام کو استحکام فراہم کر تا رہا ہے ۔

رینڈ رپورٹ میں صوفی ازم کے احیا اور فروغ کے لئے کی گئی لمبی چوڑی پلاننگ میں سے صرف ایک پیراگراف سارے منصوبے کی پوری جزئیات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

Sufis are not a ready match for any of the categories, but we will here include them in modernism. Sufism reprsents an open,intellectual interpretation of islam. Sufism influence our school curricula, norms, and cultural life should be strongly in countries that have a sufi tradition through its poetry, music and philosophy, sufism has a strong bridge role outside of religious affiliations.

یہ مختصر سا پیرا گراف یہ واضح کر نے کے لیے کافی ہے کہ مغرب دراصل اسلام کو بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں مسلمانوں کو کس شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اور وہ اسلام کو اپنے لیے قابل قبول صورت میں ڈھالنے کے اسے صوفی ازم کے نام پر بالکل نیا رنگ دینا چاہتا ہے۔ اس میں مغرب صوفی ازم کے نام پر مذہب سے بالاتر ہو کر نصاب، روایات اور ثقافتی بنیادو ں پر شاعری ، موسیقی اور فلسفے کے ذریعے اسلام سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں یوں ہوا کہ روشن خیال اعتدال پسندوں نے outside of religious affiliationsکو لادینیت یعنی سیکولرازم سمجھ کر صوفی ازم اور لادنیت کو ہم معانی مترادفات قرار دے دیا۔

جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ صوفی ازم کسی صوفی کی غیر موجودگی میں محض ایک ایسا خانقاہی نظام ہے جسے پہلے نو آبادیاتی نظام کی مضبوطی کے لیے اور اب نو تشکیل شدہ استعماری نظام کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا آزمودہ نسخہ ہے جسے برصغیر میں قریب ڈیڑھ سو برس قبل نہایت ہی کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے اور اس وقت ملک عزیز کی سیاست میں روشن بہت سے درخشاں ستارے اپنی ان جاگیروں کے بل پر صاحب ثروت اور مقتدروزور آور ہیں جو انہیں انگریزوں نے شمع آزادی کے پروانوں کو جلا کر خاکستر کرنے کے عوضانے میں بخشیش کی تھیں۔

10جون 1857 کو ملتان چھاونی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہے میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو بمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے تہہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی تقریبا بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاونی کے درمیان واقع پل شوالہ پر دربار بہا الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا تھا۔ کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔ جلالپور پیر والہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔

(یہاں ایک صاحب نے جو اگلے سیشن میں خود مقالہ پڑھنے والے تھے اٹھ کر مقالے کو غیر متعلق کہہ کر روکنے کی کوشش کی جس پر تقریبا سارا مجمع مشتعل ہو کر اٹھ کھڑا ہو۔ قریب تھا کہ لوگ اسے پیٹتے۔ مداخلت کار مجمعے کا مجموعی موڈ دیکھ کر نہ صرف فورا بیٹھ گیا بلکہ بعد میں اس نے مجھ سے معذرت بھی کی۔)

مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کو رنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کو رنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال ، ہراج ، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا ۔ مہر شاہ آف حویلی کو رنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔ اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیرسالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور آٹھ چاہات جن کی سالانہ جمع ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔ مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔

حویلی کو رنگا کے معرکے میں بظاہر سارے مجاہدین مارے گئے مگر علاقے میں آزادی کی شمع روشن کر گئے۔ حویلی کو رنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کو رنگا، قتال پور سے لیکر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصا دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی جانگلیوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی ۔ جانگلی علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گو گیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے ۔

مورخہ 16ستمبر 1857 کو رات گیارہ بجے سرفراز کھرل نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال بمقام گوگیرہ کو احمد خان کھرل کی مخبری کی مورخہ اکیس ستمبر 1857کو راوی کے کنارے ”دلے دی ڈل“ میں اسی سال احمد خان کھرل پر جب حملہ ہوا تو وہ عصر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ اس حملے میں انگریزی فوج کے ہمراہ مخدوموں ، سیدوں ، سجادہ نشینوں اور دیوانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جس میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی دربار بہا الدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی ، دربار فرید الدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن ، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخادیم وسجادہ نشین شامل تھے۔ احمد خان کھرل اور سارنگ شہید ہو ئے ۔ انگریز احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے ۔ احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو پیوند خاک کرنے کے بعد آگ لگا دی گئی ۔ فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ تمام مال مویشی ضبط کر لیے گئے دیگر سرداروں کو سزا کے طور پر بعبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھجوادیا گیا۔ اس طرح جانگلی علاقے کی تحریک آزادی مخدووموں ، سرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کی مدد سے دبادی گئی۔ اس کے بعد دریائے راوی کے کنارے اس علاقے کے بارے میں راوی چین لکھتا ہے۔

صوفی ازم کے فروغ کے لیے موجودہ کوششیں اس سلسلے کی دوسری کڑی ہیں اس سے قبل جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال دور میں اس کی پہلی قسط نشر ہوئی تھی اور ایک صوفی کونسل تشکیل دی گئی جس میں چیف صوفی کا درجہ جناب چوہدری شجاعت حسین کوعطا کیا گیا تھا۔ میں نے تب اپنے ایک دوست سے اس انتخاب کی وجہ دریافت کی تو تصوف کی رمزوں سے آگاہ وہ دوست کہنے لگا کہ صوفی اپنے دل کاحال اور کیفیت دوسروں پر بیان نہیں کر سکتا۔ بس صوفی اور چوہدری شجاعت کے درمیان یہی ایک قدر مشترک ہے جس کی بنا پر انہیں چیف صوفی بنا دیا گیا ہے۔

جہاں اس وقت مغربی دنیا میں پیارے نبی کی شان میں گستاخانہ خاکے چھاپے جارہے ہیں۔ حجاب پر پابندی عائد کی جارہی ہے، ہر داڑھی والے کو دہشت گرد سمجھا جارہا ہے اور مسلمانو ں کو بے روک ٹوک مارا جارہا ہے وہاں اچانک ہی امریکہ بہادر اور مغرب کے دل میں صوفی ازم کی محبت کا جاگنا کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں جو قابل فہم نہ ہو۔ ایک طرف یہ عالم ہے سوئٹزر لینڈ میں جہاں پورے ملک میں گنتی کی مساجد ہیں اور ان میں سے بھی صرف تین مساجد کے مینار ہیں حکومت نے مساجد کے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگا دی ہے دوسری طرف مغرب کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ وہ درباروں کی تزئین وآرائش اور تعمیرومرمت کے لیے کروڑوں روپے براہ راست سجادہ نشینوں کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ ملتان میں دربار شاہ شمس سبزواری اور سخی سرور میں دربار سخی سرور کے لیے لاکھوں ڈالر کا عطیہ دے رہے ہیں۔ امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کے ذریعے دیے جانے والے یہ عطیات مغرب کی دوہری پالیسیاں واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اگر صوفی ازم لمحہ موجود میں پیار،محبت، امن وآشتی ، رواداری اور تحمل کا سب سے موثر ذریعہ ہے تو اس وقت اس کی ہم سے زیادہ ضرورت مغرب اور بالخصوص امریکہ کو ہے جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکنے سے لیکر افغانستان اور عراق پر ڈیزی کٹر بموں کے ساتھ کارپٹ بمباری کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے اور جو درجنوں ممالک کی سلامتی پامال کرنے سے لیکر سی آئی اے کے ذریعے لاتعداد ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کا ذمہ دار ہے اور جو اپنی سلامتی کے نام پر دنیا بھر میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل عام سے لیکر اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کا مرتکب ہے اور جو نام نہاد دہشت گردی کے نام پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کرنے سے لیکر ہر چوتھے دن ایک آزاد، خود مختار لیکن عزت وآبرو اور حمیت سے عاری حکمرانوں کے دیس پر ڈرون حملوں کے ذریعے مقامی دہشت گردوں کو خود کش حملوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ تصوف کی آفاقی قدریں اگر وہ اس وقت واقعی موجود ہیں تو ان کے احیا کی اس مہم کا مرکز امریکہ اور دائرہ کار مغرب ہونا چاہیے کیونکہ فی الوقت انہیں ہماری نسبت پیار، محبت ، برداشت ، تحمل اور رواداری کی ہم سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ہم تو اس وقت خود مظلومیت ، کسمپرسی، برداشت اور تحمل کی آخری سطح سے بھی کہیں نیچے کی زندگی گزاررہے ہیں۔

نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم

تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پرورد یک نو بھاریم

(علامہ اقبال)
(بشکریہ) خالد مسعود خان

Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 49979 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.