جبریل و ابلیس

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

باب اول: ابتدائیہ
ایک انسان صبح الارم کی آواز سے اٹھتا ہے۔ سب سے پہلے اپنا موبائیل چیک کرتا ہے۔ جلدی جلدی آفس جانے کی تیاری کرتا ہے۔ پھر دن ڈھلے تک آفس میں ہی کام میں جتا رہتا ہے۔ تھوڑا بہت اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کر کے جب واپس گھر کو لوٹتا ہے تو جو چند گھنٹے اس کے پاس بچتے ہیں اسے کھانے پینے، ٹی وی دیکھنے اور انٹرنیٹ پر اسکائپ، فیس بک وغیرہ کے لئے وقف کر دیتا ہے۔ عاشق مزاج لوگ تو سارا وقت اپنے چاہنے والوں سے غزلیات کہتے گزار دیتے ہیں۔ عام طور پر بس یہی ہر روز ہوتا رہتا ہے۔

اس مادی دنیا کے گھن چکر میں انسان ایسا پھنس گیا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں کہ کیا کیا غیر مرئی قووتیں اس کے کام بنانے کے لئے تیار بیٹھیں ہیں ، کون کون سی پراسرار طاقتیں اس کے کام بگاڑ رہیں ہیں۔ یہاں چند الفاظ کے ذریعے میں عوام الناس کو یہی باور کرانے کی کوشش کروں گاکہ وہ جان جائیں کہ بہت کچھ اور بھی ہے جو نظر نہیں آتا۔امید ہے کہ جو کچھ آپ پڑھیں گے یہ آپ کے ایمان اور یقین میں اضافے کا باعث ہو گا۔

جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ہے، اﷲ ان کے بارے میں فرماتا ہے:’’……یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اﷲ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح سے (ان کی) مدد کی ہے……‘‘ سورۃ المجادلۃ۔ آیت ۲۲

’’اب سلیمان ؑنے کہا ’’اے اہل دربار!تم میں سے کون ہے جو ان کے مطیع ہو کر آنے سے پہلے ملکہ کا تخت میرے پاس لائے؟‘‘۔ ایک دیو ہیکل جن نے کہا’’میں آپ کا دربار بر خواست ہونے سے پہلے (اسے) لے آتا ہوں۔ میں اس کی قوت رکھتا ہوں اور امین بھی ہوں‘‘۔پھر ایک اور شخص جس کے پاس کتاب میں سے(کچھ) علم تھاکہنے لگا ’’میں یہ تخت آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے ہی لائے دیتا ہوں‘‘۔پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو پکار اٹھا’’یہ میرے رب کا فضل ہے تا کہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں کہ نا شکری؟اور جو کوئی شکر کرے تو اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے اور اگر کوئی ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے نیاز اور کریم ہے‘‘۔
سورۃ النمل ۔آیات (38 - 40)

مندرجہ بالا آیات اپنے لفظی مفہوم میں بہت سادہ ہیں۔ مگر ایک جن کے پاس ایسی قوتیں کہاں سے آگئیں کہ وہ حضرت سلیمان (ع) کا دربار برخواست ہونے سے پہلے سبا کی ملکہ بلقیس کا تخت ان کے پاس لا سکے۔پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک شخص نے اسے پلک جھپکنے میں لا حاضر کرنے کا دعوی کر دیا۔ اور صرف دعوی ہی نہیں بلکہ اس نے ایسا کر دکھایا ۔ حضرت سلیمان (ع) کے پلک جھپکتے ہی وہ تخت ان کی سامنے موجود تھا، جسے دیکھتے ہی بے اختیار ان کے منہ نے وہ الفاظ نکلے جو آیات میں درج ہیں۔

جیسا کہ قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں لکھاہے ، جنات حضرت سلیمان (ع) کے مطیع کر دیئے گئے تھے۔یہ سلیمان (ع) پر اﷲ تعالی کا خاص فضل تھاکہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جنات اور چرند پرند پر بھی تھی۔ ہوا کو ان کے لئے مسخر کر دیا گیا تھا۔ یہ ان کی ایک دعا تھی، جو بارگاہ الہی میں قبول ہوئی۔

آخر جنات ایسے مافوق الفطرت کام کیسے کر سکتے ہیں؟؟؟ اس شخص کے پاس وہ کون ساکتاب کا علم تھا جس کی بدولت اس نے ایسا معجزہ دکھا دیا؟؟؟ کیا ہم بھی یہ کام کر سکتے ہیں؟؟؟کیا ہم بھی کسی علم والے (جن یا انس ) کو اپنا مطیع کر سکتے ہیں؟؟؟ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے ہمیں گھور گھور کر اندھیرے میں کچھ دیکھنا ہو گا۔میں نے بڑی عجیب سی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مگر حقیقت میں اس سے بہتر اصطلاح اس موضوع پر غور کرنے کے لئے مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔

شروعات وہیں سے کرتے ہیں جہاں سے سب شروع ہوا۔
’’پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب ہی نے سجدہ کیاما سوائے ابلیس کے۔وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا‘‘۔سورۃ البقرہ ۔آیت ۳۴۔
اس کا مطلب ہے کہ اس وقت نافرمانوں کی ایک جماعت پہلے سے موجود تھی جس میں ابلیس یہ نافرمانی کرنے کے بعد شامل ہو گیا۔اس آیت کے آخری الفاظ کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ’’……اور وہ کافروں میں سے تھا‘‘۔ دونوں صورتوں میں ہمیں ایک ایسا گروں نظر آتا ہے جو اﷲ کا باغی ہو گیا تھا اور ابلیس کا نام محض اس لئے لیا گیا کہ وہ اس جسارت میں سب سے آگے آگے تھااور بڑھ بڑھ کر رب تعالی کے حضور نافرمانی کر رہا تھا۔ اﷲ ذولجلال اور ابلیس کے درمیان ہونے والے متعدد مکالمے قرآن مجید میں درج ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابلیس احساس برتری کے نشے میں چور تھا۔

’’اﷲ تعالی نے فرمایا’’اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟‘‘
بولا ’’مجھے گوارہ نہ ہوا کہ ایسے انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا‘‘۔
اﷲ نے فرمایا’’نکل جا! کہ تو مردود ہے۔بے شک یومِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے‘‘
وہ کہنے لگا’’ میرے رب! مجھے اس دن تک کی مہلت دے جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
’’اﷲ تعالی نے فرمایا ’’ تجھے مہلت دی جاتی ہے۔ اس دن تک جس کا وقت (ہمیں) معلوم ہے‘‘۔
وہ بولا’’رب! تو نے مجھے ورغلایا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کو( ان کے گناہ) خوشنما کر کے دکھاؤں گا۔ اور ان سب کو ورغلا کر ہی جھوڑوں گا‘‘۔
سورۃ الحجر ۔ آیت ۳۲ تا ۳۹

اﷲ تعالی نے ابلیس کو دھتکار دیا ، لعنت کی اور اسے وہاں سے دفع ہو جانے کا حکم دیا۔ مگر کیا وہ اور اس کا گروہ چپ چاپ وہاں سے دم دبا کر بھاگ گئے تھے؟؟؟نہیں،ا وپر درج آیات پڑھ کر تو یہ بات بعید از قیاس ہے۔

سادہ سی بات ہے کہ اﷲ تعالی کی لعنت و پھٹکار کے بعد ان جنات کا گروہ آسانی سے جنت سے نکلنے پر راضی نہیں ہو اہو گابلکہ انہوں نے پوری کوشش کی ہو گی کہ ان کا مدعا سارے آسمانوں پر مقبول ہو جائے اور ہر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہو کر اﷲ تعالی سے بغاوت کر بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل میں یہ بات موجود ہے کہ ان غداروں کو جنت سے بے دخل کرنے کے لئے اﷲ تعالی نے حضرت میکائیل (ع) کو فرشتوں کا سپہ سالار بنا کر باقائدہ اعلان جنگ کیا۔ جنگ ہوئی اور میکائیل (ع) ملائکہ کے لشکر لئے ان باغی و کافر جنات سے لڑے اور انہیں جنت سے نکال باہر پھینکا۔

اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ جنات میں سے ایک گروہ ایسا بھی رہا جو آخری دم تک اﷲ کا مطیع و فرمانبردار رہا۔کیونکہ بعد میں دنیا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی جنات انبیاء کے ہاتھوں مشرف با اسلام ہوتے رہے۔مثلاََ جن جنات کا ذکر سورۃ احقاف میں ہے وہ حضرت موسی (ع) کی شریعت سے پہلے ہی بہرہ مند تھے۔اور ایک ذکرسورۃ الجن میں ان جنات کا بھی ہے جو مشرکین تھے۔ بہرحال دوسرے کئی صحابہ اکرام کی طرح صرف قرآن مجید سن کر ہی ایمان لے آئے۔ یہ قرآن مجید کا عظیم ترین معجزہ ہے۔

باب دوم:جبریل و ابلیس
ابلیس کے معنی ہیں ’’انتہائی مایوس‘‘۔ یہ ایک جن ہے۔ جس کا اصل نام ہے ’’ازازیل‘‘ ۔ یہ جن اﷲ کی عبادت کرنے میں بہت آگے تھااور ظاہر ہے اس لئے اﷲ اس سے بہت خوش تھا۔ فرشتوں میں گھلا ملا رہتا، آسمانوں پر اس کا آنا جانا تھا۔ اس طرح وہ فرشتوں سے مختلف قسم کے علوم سیکھ لیتا اور ملکوتی باتیں جان جاتا۔ فرداََ فرداََ وہ لاہوتی علوم میں بہت آگے نکل گیا تھا۔لہذا وہ دوسرے جنات میں افضل ہو گیااور مقام و مرتبے میں ملائکہ کے درجے کو پہنچ گیاتھا۔ یہ درجہ آج بھی کسی بھی انسان یا جن کو اﷲ کی رضا پا کر حاصل ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آدم (ع) کو سجدہ کرنے کا جو حکم فرشتوں کو دیاگیاوہ اس جن پر بھی لاگو ہوا۔
ابلیس کے بارے میں روحانی بزرگوں کے حلقوں میں یہ قول بہت مشہور ہے کہ’’سب سے بڑا عالم ابلیس ہے‘‘۔

مگر بات صرف ازازیل تک ہی موقوف نہیں بلکہ دوسرے جنات بھی اسی طرح کچھ نہ کچھ علم اور راز کی باتیں فرشتوں سے جان لیا کرتے تھے۔
قرآن مجید کی آیات سے یہ بات واضع ہے کہ جنات کا حضور ﷺ پر وحی اترنے سے پہلے آسمانوں پر آنا جانا تھا۔ وہ وہاں سے فرشتوں سے سن گن لے آیا کرتے تھے۔
’’اور یہ کہ: ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرہ داروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔ اور یہ کہ: ہم سن گن لینے کے لئے آسمان کے کچھ ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے۔مگر اب جو سننے کے لئے کان لگائے تو اپنے لئے ایک شہاب کو تاک لگائے ہوئے پائے‘‘۔سورۃ الجن۔ آیات ۸۔۹

جو دیو ہیکل جن حضرت سلیمان (ع) کا مطیع تھا وہ بھی ایسے ہی کسی علم کو جانتا تھا جس کی بدولت وہ ملکہ بلقیس کا تخت دربار برخواست ہونے سے پہلے لا حاضر کر سکتا تھا۔
نوٹ:
۱) توراۃ میں جو قصہء آدم وابلیس درج ہے وہاں جس چیز نے آدم و حوا کو اﷲ کی نافرمانی پر اکسایا اسے ایک ’’سانپ۔ serpent‘‘ کہا گیا ہے۔ اور انجیل میں’’ لوسیفر‘‘ کا ذکر ہے جس نے آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکارکیا اورآسمانوں میں اﷲ کے خلاف بغاوت کر دی۔
۲)وہ جنات جنہوں نے خدا تعالی سے بغاوت کی ، بائبل میں انہیں Fallen Angels کہا گیا ہے۔یعنی وہ فرشتے جنہیں ان کے مقام و مرتبے سے گرا دیا گیا۔حلانکہ دراصل یہ فرشتے تھے ہی نہیں بلکہ جنات تھے جو آسمانوں میں فرشتوں کے ساتھ گھلے ملے رہتے تھے۔

شیاطین یعنی برے جنات تو علم ِ ملکوتی سے بہرہ مند ہو چکے ہیں ۔ مگر انسان کا کیا!!!

اگر برے لوگوں کی امداد شیاطین کرتے ہیں تو فرشتے اﷲ کے نیک بندوں کے شامل حال ہوتے ہیں۔اس کی ایک مثال آصف بن برحیا ہے۔ تفاسیر میں یہی نام اس شخص کا آیا ہے جو ’’کتاب میں سے ایک علم‘‘ جانتا تھا۔حضرت سلیمان (ع) کے خاص بندوں میں تھا۔ یہی شخص ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکتے ہی لے آیا۔

یہ کیسا کتاب کا علم تھا؟؟؟
کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے۔جس میں اﷲ تعالی نے ہر شے درج کر رکھی ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہے اور ہونے والا ہے ،سب اس نوشتے میں محفوظ ہے۔خاص طور پر یہ لکھناضروری ہے کہ توراۃ ، انجیل ،قرآن مجید بھی لوح محفوظ میں درج ہے۔ اسی لئے اسے’’ ام الکتاب ‘‘کہا جاتا ہے ، یعنی ’’اصل کتاب‘‘۔اگر ہم یہ کہیں کہ لوح محفوظ کا کچھ حصہ ہمارے پاس موجود ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا کیونکہ ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے جو کہ لوح محفوظ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

کہتے ہیں آصف بن برحیا کو اسم اعظم معلوم تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی متعدد احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اسم اعظم پڑھ کر جو بھی دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آصف بن برحیا نے اسم اعظم کی تاثیر سے اﷲ کی مستقل نصر ت حاصل کر رکھی ہو۔ اﷲ تعالی نے کراماتی امور اس کے لئے آسان کر دئیے ہوں۔
نوٹ: یہاں قارئین کے لئے یہ بتاتا چلوں کے میرے قلیل سے علم کے مطابق اسم اعظم ’’اﷲ لا الہ الاہو الحی القیوم‘‘ میں ہے۔

کوئی بھی انسان اپنی اصل فطرت میں ایسا کوئی کام کبھی نہیں کر سکتا جیسا آصف بن برحیا نے کیا یا سلیمان (ع) نے کیا مثلاََ پرندوں سے باتیں کرنا یا حضور اکرم ﷺ نے کیا مثلاََ چاند کے دو ٹکڑے کرنااور جنگ بدر میں زمین سے مٹی اٹھا کر پھینکنا جس سے کئی کفار اندھے ہو گئے۔

۱) اﷲ یا تو اپنے نیک بندے کی حِسی یا جسمانی قوتیں بڑھا دیتا ہے۔
۲) یا پھر کسی فرشتے کو اپنے بندے کی مدد کے لئے تعینات کر دیتا ہے۔
۳) اس کے علاوہ اور بھی کوئی زریعہ ہو سکتا ہے جو مجھے نہیں معلوم۔
۴) یا بغیر کسی سمجھ آنے والے زریعے کے مثلاََ ’’کن فیکون‘‘ ۔

سلیمان (ع) کی حسی طاقت بڑھا دی گئی تھی۔ لہذا وہ پرندوں کی بولی سن اور سمجھ سکتے تھے اور حضور ﷺ کے ہاتھ میں کوئی خاص تاثیر پیدا کردی گئی تھی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’……اور جب آپ ﷺنے مٹھی پھینکی تھی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اﷲ نے پھینکی تھی……‘‘ سورۃ الانفال آیت ۱۷
علامہ اقبال ؒنے اسی پر کہا ہے:
ہاتھ ہے اﷲ کا بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشاں، کار ساز
اسی طرح ایک مثال حضرت یعقوب ؑ کی بھی ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ نے انہیں مصر بلانے کا قصد کیاتو وہ کنعان میں بیٹھے بیٹھے کہنے لگے کہ ’’……تم کہو گے کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں، مگر مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنعان کے ہی کنویں میں موجودتھے تب تو انہیں کوئی خوشبو نہ آئی مگر جب اﷲ کو منظور ہوا تو کوسوں دور مصر سے ان کی خوشبو سونگ لی۔ یعنی اﷲ نے ان کی سونگنے کی حِس بڑھا دی تھی۔

اسی طرح عیسی (ع) کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ جبرائیل(ع) سے ان کی تائید کی گئی۔صاف صاف لکھوں تو حضرت عیسی ؑ کے معجزے تو ایسے ہیں کہ ان کے علاوہ اور کسی بھی نبی نے ایسے معجزات پیش نہیں کئے۔بلکہ جیسے کام وہ کر گئے وہ اﷲ تعالی نے خالصتاََ صرف اپنی طرف منسوب کئے۔مثلاََ وہ مرے ہوئے کو زندہ کر دیتے تھے،اپنے ہاتھ سے مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتا، پیدائشی اندھے کو دیکھتاکر دیتے ، لوگوں کو بنا تحقیق ان کی راز کی باتیں بتا دیتے وغیرہ ۔مگر قرآن مجید میں صاف الفاظ میں صراحت کی گئی ہے کہ ان کی تائید جبرائیل (ع) نے کی۔

حضرت جبرائیل امین ، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل (ع) وہ طاقتور ترین فرشتے ہیں جو انبیاء کے مشن میں ان کے معاون رہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات بھی لکھتا چلوں کہ اﷲ کے صالح بندوں کی مدد صرف فرشتے ہی نہیں بلکہ نیک اور برگزیدہ روحیں بھی کرتی ہیں۔

حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی (رحمتہ اﷲ علیہ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’حجتہ اﷲ البالغہ‘‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے :(اردو ترجمہ)
’’ایک روز میں بعدعصر کے متوجہاََالی اﷲ بیٹھا ہوا تھا۔ دفعتاََ آنحضرت ﷺ کی روح نے ظہور فرمایا اور اس نے مجھ کو اوپر کی جانب سے ایسا ڈھانپ لیا کہ گویا کسی نے مجھ پر کوئی کپڑا ڈال دیا ہو۔ اس حالت میں مجھ پر القا کیا گیا کہ یہ کسی امر دینی کے بیان کی طرف اشارہ ہے۔ اس وقت میں نے اپنے سینے میں ایک ایسا نور پایا جس میں وقتاََ فوقتاََ ہمیشہ وسعت اور کشادگی بڑھتی رہی۔ پھر چند روز بعد الہام ہوا کہ اس صاف اور روشن امر کے لئے میرا آمادہ ہونا تقدیر الہی میں قرار پا چکا ہے(یعنی یہ کتاب لکھنا)۔ اور مجھ کو یہی معلوم ہوا کہ اپنے پروردگار کے انوار سے تمام زمین منور ہو گئی……اور اس کے بعد میں ایک زمانے میں مکہ معظمہ میں وارد تھا۔ وہیں میں نے جناب امام حسن ؓو حسین ؓکو خواب میں دیکھاکہ ان دونوں نے مجھ کو ایک قلم عطا فرما کر کہاکہ یہ قلم ہمارے نانا رسول اﷲ ﷺ کا ہے۔ میں اکثر اس فکر میں رہتا تھا کہ کوئی کتاب ایسی مدون کروں جو……‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میں اﷲ تعالی نے حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی (رحمتہ اﷲ علیہ) کی تائید روح محمد ﷺ اور امام حسن و حسین ؓ سے کی ۔

حضرت جبرائیل ؑ کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک مسافروں کی مدد کرنا ہے۔ ایسی ہی بات حضرت خضر ؑ کے بارے میں بھی ہے ۔ وہ اس دنیا میں اﷲ کے خاص نمائندوں میں سے ایک ہیں اور اﷲ کے احکامات بجا لانے کے لئے تدابیر کرتے رہتے ہیں۔

روحانی بزرگوں کے حلقوں میں اکثر خضر ؑ سے ملاقات کے قصے چھیڑے جاتے ہیں۔علامہ اقبال ؒکی نظم جواب خضر پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اشعار حضرت خضر ؑ ہی ان کے دل پر القا کر رہے ہوں۔

باب سوم: ملائکہ
قرآن مجید میں واضع الفاظ میں رقم ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جو اس کے سارے اعمال تحریر کر تے ہیں ۔ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتے ہیں نہ بڑی۔ اور اسی طرح محافظ فرشتوں کا بھی ذکر ہے جو ہر انسان پر تعینات ہیں اور اس کی حفاظت کرتے ہیں۔میرے فہم کے مطابق یہی محافظ فرشتے ہیں جو انسان کی تقدیر کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔اسے اس کے وقت سے پہلے مرنے نہیں دیتے۔اور پھر اکثر انسان کے منہ سے نکل ہی جاتا ہے کہ ’’آج تو اﷲ ہی نے بچایا‘‘۔مرنا تو بہت دور کی بات انسان کو ایک خراش تک لگنے نہیں پاتی جب تک کہ لوح محفوظ میں درج نہ ہو۔

یہاں ایک شخص جو میرا بہت قریبی ہے اور میں جسے ذاتی طور پر جانتا ہوں کی آپ بیتی مجھے یاد آگئی ہے۔ یہ ایک نوجوان شخص ہے۔جو کہ پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہے۔ اس نے زندگی کے ایک موڑ پر نہایت مایوس اور دل برداشتہ ہو کرخود کشی کا ارادہ کیا۔ وہ اپنے گھر کے اوپری حصے میں گیا جہاں گھر والوں کا عام طور پر آنا جانا نہ تھا۔وہاں بنے ایک چھوٹے سے کمرے کے کاڑ کباڑ سے چھوٹی آری کا بلیڈ نکالا، کمرے کا دروازہ بند کیا اور بلیڈ کو اپنی کلائی کی رگوں پر رکھ بیٹھا۔ ارادہ پکا تھا ۔وہ ایک ہی وار میں اپنی کلائی کی رگیں کاٹ ڈالنا چاہتا تھا۔ اس نے بلیڈ پر اچھی طرح پریشر ڈالا،اتنا کہ کہ رگوں کا خون رکتا ہوا محسوس ہوا۔ بس اب تو بلیڈ کو زور سے چلانا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ نہایت ہی زور دار جھٹکے سے خود بخود کھل گیا اور کمرے کی دیوار سے ٹکرانے لگا ……باہر زور دار ہوائیں چل رہی تھیں۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ ڈر گیا …… اور خودکشی کا ارادہ چھوڑ کر نیچے گھر میں بھاگ گیا۔

یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جو لوگ واقعی خودکشی سے مر جاتے ہیں …… ان کا کیا؟؟؟ یاد رکھئیے!اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی اﷲ نے اپنے وسیع علم کی بدولت تقدیر میں لکھ رکھا ہوتا ہے۔

یہاں یہود و نصاری کے ایک الزام کی تردید کرنا ضروری ہے جو کہ وہ حضرت سلیمان ؑ پر لگاتے ہیں۔ان کے خیال میں حضرت سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی شیاطین پر حکمرانی کا دارو مدار جادو ٹونے پر ہے۔وہ تو یہاں تک کہہ بیٹھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ نے شیاطین جنات سے وہ پراسراراور ممنوع علوم سیکھے جنہیں جادو کہا گیا ہے اور پھر خود ہی عوام الناس میں ان کی اشاعت کے لئے کتابیں لکھ کر پھیلا دیں۔یہ نہایت ہی مضحکہ خیز الزام ہے۔ یہاں تک کہ مجھے ہنسی آ رہی ہے ان لوگوں کی کم عقلی پر……

۱ ) حضرت سلیمان ؑ اﷲ کے برگزیدہ نبی تھے۔ انہیں تمام ضروری علوم اﷲ کی طرف سے وحی کے ذریعے میسر آجاتے تھے۔انہیں شیطانوں کو اس کے لئے اپنا استاد بنانے کی ضرورت نہیں۔
۲) تمام انبیاء اپنے وقت کی شریعت کے پابند ہوتے ہیں اور عوام کو بھی اسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ شریعت موسوی کے پابند تھے اور توراۃ میں صاف لکھا ہے کہ جادو ٹونے کرنے والے کی سزا موت ہے۔
۳)انبیاء کی تائید شیاطین جن نہیں بلکہ مقدس ملائکہ کرتے ہیں۔ جن کے علم کی بلندیوں تک شیاطین کبھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ سیدھا بارگاہ الہی سے آتا ہے۔
۴) اگر شیاطین اتنے ہی طاقت ور تھے کہ حضرت سلیمان ؑ کی شاگردگی بھی انہیں نصیب ہوئی ، تو وہ ان کے مطیع کیسے ہو گئے!!!

اب میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سلیمان ؑ کے دور میں جادو ٹونے نے فروغ کیسے حاصل کر لیا اور اس کالے علم کی اشاعت حقیقتاََ کہاں سے ہوئی۔ قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ ہے:
’’اور جب بھی ان کے پاس اﷲ کی طرف سے کوئی ایسا رسول آیاجو ان کے پاس موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا تھاتو انہی اہل کتاب کے ایک گروہ نے کتاب اﷲ کو یوں پس پشت ڈال دیا جیسے انہیں کچھ معلوم ہی نہیں(کہ کون سی کتاب کہاں کی کتاب!!!)۔ اور ان جنتروں منتروں کے پیچھے پڑ گئے جو سلیمان ؑ کے دور میں شیاطین(جن و انس) پڑھا کرتے تھے۔ سلیمان نے ایسا کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیاطین (جن و انس) کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔ نیز یہ(یہود) اس (ممنوع علم)کے بھی پیچھے لگ گئے جو بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کے اوپر اتارا گیا تھا۔ یہ فرشتے کسی کو بھی کچھ نہ سکھاتے جب تک کہ یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو تمہارے لئے آزمائش ہیں۔سو تم (یہ سیکھ کر) کفر نہ کرو۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے ایسی باتیں سیکھتے جس سے کہ شوہر اور بیوی کے بیچ جدائی ڈال سکیں۔حلانکہ وہ اﷲ کے حکم کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہ پہنچا سکتے تھے……‘‘ سورۃ البقرہ آیات 101۔102

یہاں صرف دو باتوں کی وضاحت کروں گا ۔ امید ہے کہ قارئین وضاحت کے بعدمندرجہ بالا آیات کے اصل مفہوم تک آسانی سے پہنچ جائیں گے۔
۱) شیاطین صرف جنات ہی نہیں ہوتے بلکہ انسان بھی ہوتے ہیں۔ غرض جو بھی اﷲ کا باغی ہو کر ابلیس کی جماعت میں شامل ہو گیا …… شیطان بن گیا۔
۲)اﷲ تعالی کے فرشتے ، ہاروت اور ماروت کیوں لوگوں کو ممنوع علوم سکھاتے تھے؟
تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس گتھی کو نہایت آسان مثال سے سمجھایا ہے۔ میں بھی وہی مثال پیش کرں گا۔ فرض کیجئے کہ کوئی شخص رشوت خور ہے۔ ایک پولیس انسپیکٹر اس رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے اس کے پاس رشوت لے کر جاتا ہے۔ رشوت دیتے ہوئے اسے کہتا بھی ہے کہ ’’ بھائی! اﷲ کا خوف کرو…… رشوت نہ لو …… یہ حرام ہے‘‘، مگر وہ پھر بھی رشوت لے لیتا ہے۔ اس پر وہ انسپیکٹر اپنی اصل شناخت ظاہر کر کے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا ہے۔
فرشتے انسانوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ فرشتے بابل میں انسانوں کی ہی شکل میں رہتے تھے۔ اور بے راہروی پر چلنے والے یہودیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے یعنی حجت تمام کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے۔

آج بھی نہ جانے کتنے فرشتے گمراہ لوگوں پر اتمام حجت کے لئے بھیجے جاتے ہوں گے۔ کسی کو کیا معلوم کہ کوئی انجان آدمی واقعی انسان ہے یا فرشتہ۔ اس وقت یہ الفاظ پڑھتے ہوئے اگر آپ کے ساتھ کوئی آدمی موجود نہیں تو کم از کم دو فرشتے تو آپ کے بالکل ساتھ بیٹھے ہیں۔اور اگر آپ کسی مجمعے میں ہیں تو وہ جگہ ملائکہ سے بھری ہوئی ہے۔بلکہ صرف ملائکہ ہی نہیں بہت سے شیاطین جنات لگاتار لوگوں کے عمل کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں بہکانے کیلئے مختلف برے خیالات اس کے کان میں پھونک رہے ہیں۔ اور اگر کوئی اﷲ کا نیک بندہ بھی ساتھ بیٹھا ہے تو فرشتے اس کی شیاطین سے حفاظت فرما رہے ہیں۔ایک معرکہ برپا ہے!!!مگر افسوس! آپ کی کم نگاہی…… کمزور نظری……!!!

ہو سکتا ہے انہی لوگوں میں سے کوئی ایسا شریر بھی ہوجو کسی شیطان جن سے جب چاہے بات کرتا ہو اور اس سے اپنے کام نکلوانے کے لئے مدد طلب کرتا ہو۔اسی طرح کوئی بندہء خدا بھی ہوجس کے مدد کے لئے اﷲ نے فرشتے تعینات کر رکھے ہوں۔

جنگ بدر کے آغاز سے پہلے رسول اﷲ ﷺ نے بڑی دل دکھا دینے والی فریاد کی:
سیدنا عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ’’بدر کے دن جب نبی اکرم ﷺ نے کفار پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار اور مسلمان تین سو انیس تھے۔آپ نے قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا دئیے پھر اپنے رب سے فریاد کرنے لگے۔ آپ نے اس طرح دعا کی ۔ اے اﷲ! تو نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر ۔ اے اﷲ! اگر مسلمانوں کی اس جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ ہو گی۔ آپ کافی دیر تک قبلہ رخ ہو کر ہاتھ پھیلائے رہے حتی کہ چادر آپ کے کاندھوں سے گر گئی۔ اتنے میں ابو بکر ؓ آئے ، انہوں نے چادر اٹھا کر آپ ﷺ کے کاندھوں پر ڈالی، پھر پیچھے سے آپ ﷺ کے ساتھ چمٹ کر کہا: اے اﷲ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے آہ وزاری کرنے میں حد کر دی ہے ۔ بے شک اﷲ آپ سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ پھر اﷲ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں۔‘‘ مسلم
’’اور جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اﷲ نے تمہیں جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اﷲ نے تمہیں صرف اس لئے بتا دی کہ تم خوش ہو جاؤاور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔ ورنہ مدد تو (ہمیشہ) اﷲ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ یقیناََ اﷲ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے‘‘۔ سورۃ الانفال آیت 9-10

لہذا اﷲ کی مدد آنپہنچی اور ایک ہزار کے لشکر کو تین سو تیرہ مومنوں نے شکست دے دی جن کے پاس صرف آٹھ تلواریں تھیں۔کیا یہ ممکن ہے؟؟؟ حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ اﷲ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھاکیونکہ کفار کوئی کھیل تماشہ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ یہ اس ارادے سے آئے تھے کہ آج اس نئے دین کا مکمل خاتمہ کر کے ہی رہیں گے۔
عبداﷲ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یومِ بدر فرمایا ’’یہ جبرائیل ؑ ہیں جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہیں۔ جنگ کے لئے ہتھیار بند ہیں‘‘۔

میں نے یو ٹیوب کی ایک ویڈیو میں حزب اﷲ کی لبنان اسرائیل جنگ کے بارے میں دیکھا کہ مجاہدین کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران انہیں ملکوتی امداد کا تجربہ ہوا اور کئی بار انہیں ایسا لگا کہ کوئی اور بھی ان کے ساتھ لڑائی میں شامل ہے۔

اولیاء اﷲ کی کرامات کا دارومدار بھی اﷲ کی مدد پرہے جو کہ فرشتوں کے زریعے وقوع پزیر ہوتی ہے۔

یہاں میں ان جماعتوں سے ایک زور دار اپیل کروں گا جو اﷲ کی راہ میں قتال کرنے کی تگ و دو کررہیں ہیں۔ ایسی جماعتوں کو چائیے کہ سب سے پہلے اپنے ایمان اور یقین کو مستحکم کریں ۔ کیونکہ اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ مادی زرائع میں طاغوتی قووتیں واقعتاََآسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔اور اگر اﷲ کی مدد شامل حال نہ رہی تو کامیابی قطعی ممکن نہیں۔ اور اﷲ کی مدد صرف اپنے ایمان دار بندوں کے لئے ہے۔
جب اس انگارہء خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا (علامہ اقبالؒ)
صاف صاف لکھوں تو جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ میدان جنگ میں میکائیل ؑ و جبرائیل ؑ آپ کے ساتھ ہتھیار بند ہیں(یعنی اﷲ کی مدد)، تو ٹکراؤ بے سود ہے۔ مبادہ آپ واقعی تعدادمیں کافی ہوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہوں۔

مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک جادوگر کو اپنے شیطان پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر چالیس راتوں کا قبرستان میں بیٹھ کر چلہ بھی کاٹنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ کہ اس کے بعد اسے شیطان کی مدد مل جائے گی۔ جبکہ اس کام میں اس کی جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔اب زرا آج کا نام نہاد محض پیدائشی مسلمان یہ بتائے کہ کتنی راتیں اس نے اﷲ کی عبادت میں کھڑے ہو کر گزاریں؟؟؟

ورنہ ایسا کبھی ہو نہیں سکتا کہ تم رات کے اوقاتِ تنہائی میں اﷲ کے حضور کھڑے ہو، کبھی اس کے حضور سجدہ کرتے، کبھی اس کے آگے آنسو بہاتے ہو، اس سے فریاد کرتے ہو اور وہ سنی ان سنی کر دے۔جو لوگ اس راز سے واقف ہیں انہوں نے ضرور اپنی زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا۔
’’……پوچھ لو اہلِ علم سے اگر تم نہیں جانتے‘‘۔ القرآن

باب چہارم :ابلیس ایک راز
آخرانسان ایک شیطان پر اتنا یقین کیسے کر لیتا ہے !!! جبکہ اسے یہ اور بھی باور ہو جاتاہے کہ جب شیطان ہے تو رحمن بھی ہے۔ تو پھر وہ اﷲ کو چھوڑ کر اس کے باغی کے ساتھ کیوں ہو لیتا ہے؟
اس کی سیدھی سی وجہ ہے کہ انسان جلد باز ہے۔ جب اس کا کوئی جھوٹا موٹا کام ہو جاتا ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے اور پھول جاتا ہے کہ ہر مشکل کا آسان حل مل گیا۔ پھر وہ اس کام میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک نشوئی کی طرح ہو جاتا ہے۔جیسے نشہ کرنے والے کو خوب پتا ہوتا ہے کہ یہ نشہ اس کے لئے نقصان دہ ہے مگر پھر بھی وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا۔

مگر خود شیطان ابلیس کا کیا؟؟؟اس کے لئے تو کچھ غیب نہیں…… وہ تو سب کچھ دیکھ آیا ہے…… خدائے تعالی سے کلام تک کر آیا ہے…… یہاں تک کہ اسے اپنا انجام بھی خوب معلوم ہے……
جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۴۸ میں لکھا ہے کہ جب شیطان نے جنگِ بدر میں فرشتوں کے مسلح لشکر دیکھے تو کفار کو کورا جواب دے دیا (ترجمہ) ’’……میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔مجھے تو اﷲ سے ڈر لگتا ہے اور اﷲ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
پھر بھی ابلیس کیوں بغاوت پر مصر ہے؟شاید اسی نکتے پر کبھی علامہ اقبالؒ کا ذہن بھی اٹک گیا تھا……
اسے صبحِ ازل انکار کی جرائت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا !وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
کسے معلوم!ابلیس کا کردار اﷲ کا بس ایک پراسرار مہرہ ہی ہو۔ تا کہ جسے اﷲ نے اس زمین کی خلافت سونپی ، فرشتوں سے سجدہ کروایااسے ابلیس کے ذریعے اچھی طرح چھان پھٹک لے۔

علماء اکرام کہتے ہیں اور انجیل میں بھی درج ہے کہ ابلیس نے فرشتوں سے ایوب ؑ کی تعریف سنی تو کہنے لگا کہ وہ تو اس لئے اﷲ کے شکر گزار ہیں کیونکہ انہیں ہر نعمت میسر ہے۔ لہذا طے ہوا کہ تمام نعمتیں ان سے چھین لی جائیں گی اور پھر سب دیکھیں گے کہ ایوب ؑ ہر حال میں اﷲ کہ شکر گزاراور مطیع ہیں۔ آج ایوب ؑ کا صبر ضرب المثل ہے۔

ملاحظہ ہو علامہ اقبالؒ کا ایک شاہکار:
جبریل: ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بو؟
ابلیس: سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو!

جبریل: ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟

ابلیس: آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو!

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالمِ بے کاخ و کو!

جس کی نومیدی سے ہو سوزِ درونِ کائنات
اس کے حق میں’’ تقنطوا‘‘ اچھا ہے یا’’ لا تقنطوا‘‘!

جبریل:کھو دئیے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند
چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!

ابلیس: ہے مری جرائت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو
میرے فتنے جامہء عقل و خرد کا تار و پو!

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے تمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تو؟

خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا،جو بہ جو!

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اﷲ سے
قصہء آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط! اﷲ ھو، اﷲ ھو، اﷲ ھو!

اختتام سے پہلے چند ضروری باتیں لکھنا چاہوں گا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اگر آپ کا تعلق کسی غیر مرئی قوت سے جڑ گیا ہے تو وہ ضرور ملکوتی امداد ہی ہو۔ کیونکہ کوئی شیطان(جن و انس) بھی پاکیزگی کا لبادہ اوڑھے آپ کو گمراہ کرنے آپ پر نازل ہو سکتا ہے۔لہذا آپ کے پاس فرق کرنے والی نظر ہونی چائیے۔خواب میں یا مراقبے کی حالت میں یا جاگتے ہوئے انسان کو ایسا کوئی تجربہ ہو سکتا ہے۔

۱) اگر کوئی آپ سے شریعت کے خلاف کوئی بات کہہ دے یا حکم کرے تو سمجھ جائیے کہ آپ کا سامنا کسی شیطان سے ہو گیا ہے۔
۲) اگر وہ تن آسانی اور آرام پسندی پر اکسائے (نیک لوگوں کی زندگیاں تو راہ حق میں مشکلیں اٹھاتی گزارتی ہیں)۔
۳)اگر وہ کالے رنگ کے لباس میں آئے اور آپ کو بھی کالا رنگ استعمال کرنے کو کہے۔
۴)دائیں نہیں بلکہ بائیں جانب سے آئے (جبرائیل ؑ ہمیشہ دائیں جانب سے حضور ﷺ سے ملنے آیا کرتے تھے)۔
۵) سنتِ رسول ﷺ مثلاََ خوشبو لگانا، با وضو رہنا، سفید کپڑے پہننا ، کو نا پسند کرے۔
۶)اس حالت میں آئے جب آپ با وضو نہ ہوں۔
۷)پاک جگہ نہیں بلکہ ناپاک جگہ آئے۔
۸)اگر کسی گندے جانور کی شکل میں آئے مثلاََکتا، گدھا ، سانپ، کوا، چھپکلی وغیرہ۔
۹)جب آئے تو کوئی ناپسندیدہ آواز سنائی دے مثلاََ کتے کا بھونکنا، گدھے کا رینکھنا وغیرہ ( حضور ﷺ پر جب وحی آتی تھی تو وہ ایسے تھی جیسے گھنٹی کی آواز)۔
۱۰) اگر وحی لانے کا دعوی کرے۔
امید ہے کہ قارئین نکتہ سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ سب عام فہم باتیں ہیں۔

انسان تو سمجھتا ہے کہ یہ مشینیں، یہ گاڑیاں، یہ چہل پہل ، یہ بازار ،یہی سب کچھ ہے۔ نہیں! بلکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے باکل سچ لکھا ہے۔انسان کے ارد گرد کیا کچھ ہو رہا ہے اسے پتہ ہی نہیں، یہ منصوبے،یہ عالمی اداروں کی پالیسیاں، یہ کٹھ پتلیاں……ان سب کی ڈور کنِ کے ہاتھ میں ہے؟؟؟ انسان کو چائیے کہ غور کرے، تدبر کرے، اپنی حقیقت اور اصل جاننے کی کوشش کرے، اﷲ کی فرمانبرداری میں فنا ہو جائے اور کہہ دے کہ ’’میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا،سب اﷲ رب العالمین کے لئے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔

انسان کو چائیے کہ اسے صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے جو جو زرائع اﷲ نے مہیا کر رکھے ہیں ان سے بھر پور فائدہ اٹھائے۔ قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھ تلاوت کرے۔ اس میں تدبر کرے۔ اس میں گم ہو جائے۔ اور اﷲ کی مدد طلب کرے۔ کبھی کبھی تنہا بیٹھ کر اﷲ سے باتیں کرے۔اس کی تائید کی فریاد کرے۔ دیکھنا! اﷲ اس کے لئے بھی فرشتے ہوشیار کر دے گا۔ وہ اس کے لئے اس کے سارے کام بنا رکھیں گے۔
یقیں پیدا کر اے ناداں! کہ یقین سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری (علامہ اقبالؒ)
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78735 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More