فرقہ پرستی ایک ایسی لعنت ہے جس کا ملک ،قوم کے ساتھ ساتھ
مذہب پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔چونکہ اس لڑائی میں علماء کرام کا
طبقہ پیش پیش ہوتا اس لئے مذہب کے اوپر اس کے برائے راست اثرات پڑھتے ہیں
۔جسکی بڑی وجہ علمائے کرام کے قول وفعل میں تضادات کا بکثرت موجود ہونا
ہے۔پاکستان میں جہاں دہشت گردی تمام تر لوازمات کے ساتھ ڈیرے ڈالے ہوئے ہے
وہیں فرقہ پرستی جیسی لعنت بھی ہمارے امن وامان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی
ہے۔کوئی بھی تجزیہ کرنے سے قبل اگر ہم علمائے کرام کی غیر ذمہ دارانہ
تقاریراور بیانات پرنظر دوڑاہیں تو ایک سیکٹ کے علماء ہمیشہ دوسرے سیکٹ کے
لوگوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔ایسے علمائے سوء تمام مسالک میں موجود
ہوتے ہیں ۔ جو قرآن وحدیث کے جملہ احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک
دوسرے پر طعنہ تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیتے ہیں۔اس سلسلے میں صرف چند
عشروں کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان میں دو بڑی مذہبی جماعتوں
کے رہنما ؤں مولانا فضل الرحمن اور مولوی منور حسن کے انتہائی متضاداور غیر
ذمہ درانہ قسم کے بیانات سامنے آئے ایک طرف جماعتِ اسلامی کے امیر کے نزدیک
دن رات ملکی سرحدوں پر پہرا دینے والے پاک آرمی کے نوجوان شہید نہیں جبکہ
دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کے نزدیک ایک نجس اور ناپاک جانور کتا بھی
شہید ہے۔ ان بیانات سے جہاں پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ان
بیانات سے لاکھوں شہداء کے وراثاء کے جذبات مجروع ہوئے۔میں نے ٹالک شوز کے
اندر شہداء کے وراثاء کو روتے ہوئے دیکھا ایک شہید کا باپ، شہید کی بہن ،
شہید کے بھائی ایک شہید کو جنم دینے والی ماں کے اوپر یہ بیانات بجلی بن کر
گرے۔لیکن اس طرح کے نام نہاد ملّااپنی خود ساختہ تاویلوں سے قوم کو بیوقوف
بنانے میں مصروف رہے۔ ایسے خود ساختہ علماء ہر جگہ اپنا اثر دیکھاتے ہیں
۔یہ عید جیسے مقدس تہوار پر بھی امت ِ مسلمہ کو تقسیم کرنے کی مذموم سازش
میں رہتے ہیں، یہ انبیاء کرام ؑ، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار ، محر الحرام،
جشنِ ولادتِ مصطفیﷺ کے موقع پر بھی امت کے اندر تفرقہ ڈالنے سے باز نہیں
آتے۔یہ شب قدر، شبِ معراج، لیلۃالقدر کے موقع وپر بھی سادہ لوح مسلمانوں کو
گمراہ کرنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں۔الغرض ہر وہ بات جو انکی طبیعت کے
خلاف ہو اگرچہ قرآن اور حدیث میں اس بات کا صراحتاً ذکر بھی موجود ہویہ لوگ
بلا سوچے سمجھے اسے کفر و شرک، بدعت ، ضلالت سے موسوم کرنے میں ذرا بھی دیر
نہیں کرتے۔دوسری طرف اگر ان کے ذاتی اعمال اور افعال کو دیکھا جائے تودور
دور تک اسکا کوئی ثبوت نظر نہیں آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود یہ اسے باعث
ثواب اور عین عبادت سمجھ کر سر انجام دیں گے۔لیکن وہی کام اگر دوسرے مسلک
کے لوگ کریں گے تو یہ فوراً اُس پر کفر، شرک، اور بدعت کا فتویٰ ٹھونک دیں
گے۔اور ساتھ ہی یہ تاویل بھی پیش کر دیں گے دین میں ہر نئی بات بدعت ہے۔اگر
ایک لمحے کے لئے یہ بات مان بھی لی جائے تو بہت ساری ایسی چیزیں جو نبی
مکرمﷺ کی زمانہ میں نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام ؓ کے ادوار میں بھی انکا کوئی
ثبوت نہیں ملتا لیکن آج وہ سب دینِ متین کا حصہ بن چکی ہیں۔ مثلاً نبی پاک
ﷺ اور اصحابِ رسولﷺ کے زمانوں میں لاؤڈ سپیکر کا وجود نہیں تھا لیکن آج
کوئی ایسی مسجد نہیں جہاں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہ ہو، اسی طرح صحابہ کرام
،ء عظام ، اہلبیت کی ولادت اور وصال پر کوئی خاص تقریب منعقد نہیں ہوتی تھی
لیکن آج تمام مسالک ان تمام ایام کو بغیرکسی ثبوت اور دلیل کے بڑھ چڑھ کر
مناتے ہیں ۔اسی طرح قومی و ملی شخصیات کی ولادت و وصال، چودہ اگست،تئیس
مارچ اور دیگر ایام کو پوری قوم انتہائی عقیدت و احترام سے منائے جاتے ہیں
۔ کیا ان علماء کے نزدیک یہ سب بدعت اور گمراہی میں نہیں آتا۔؟ کیا ان کے
ہاں صحابہ کرام ؓ کی شہادت اور وصال پر منعقد ہونے والے جلوس گمراہی کے
زمرے میں نہیں آتے۔؟ کیا ان علماء کے نزدیک مردِ مجاہد شہید افضل گورو کی
یاد میں کانفرنس منعقد کرنا اس امتِ مسلمہ کے عظیم مجاہد کو خراجِ تحسین
پیش کرنا، اس کی یاد میں جھنڈے ،بینراورپینافلیکسز آویزاں کرنا ، لاکھوں
روپے اسکی تشہیر پر خرچ کرنا، فضول خرچی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ ؟ جی ہا ں
اگر ان کے بس میں ہو تو ساری امت کو بدعتی ،مشرک ، کافر اور نہ جانے کیا
کیا کہ دیں۔
اہلِ کم ظرف نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں
لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ایسے علماء سے گزارش کروں گا خدارا اس دہرے
میعار کو چھوڑ کر حق اور سچ کہنا سیکھیں۔ دوسروں کے اوپر طعن و تشنیع کے
تیر برسانے سے پہلے ایک دفع ضرور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ بدعت
اور گمراہی کے خود ساختہ فتووں کی فیکڑیوں کو اب بند کر کے اس دین ِ متین
کے حال پر رحم کر دیں۔ اس امت کے ساتھ بہت زیادتی کر دی آپ نے بہت نقصان کر
دیا اس مذہب کاخدا کے لئے اب بھی وقت ہے ایک دوسرے کو برداشت کر لیں۔۔ اپنے
ذاتی مفادات کو اجتماعی اور دینی مفادات پر قربان کرنے کی بات پر عمل پیرا
ہوں تاکہ امتِ مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچایا جا سکے۔ایک دوسرے کے مذہبی
ایام کی قدر کرنا سیکھیں۔اگر آپ ایسانہیں کر سکتے تو کل قیامت کے دن نبی
رحمتﷺ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے۔ اس دن کی شرمندگی سے آج کی شرمندگی
کئی گناہ بہتر ہے۔
بقول ِ شاعر ۔
آج لے انکی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ ماننے گے قیامت میں اگر مان گیا
اس سے پہلے کے زندگی کا سورج غروب ہو جائے، اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ
کے لیئے بند ہو جائے، رب لم یزل کی بارگاہ سے معافی مانگ کر سچے دل سے دین
اسلام کی خدمت میں مصروف ہو جائیے۔اپنی قوت مسلمان کو کافر بنانے میں نہیں
بلکہ کافرکو مسلمان بنانے میں صرّف کیجئے۔یہ وقت امت میں انتشار اور افتراق
پیدا کرنے کا نہیں بلکہ امت کو متحد اور یکجا کرنے کا ہے ۔مجھے کسی سے کوئی
ذاتی خصومت نہیں ہاں آپ کے دہرے میعار سے مجھ سمیت ہر صاحب ایمان کو نفرت
ضرور ہے۔اب اس دہرے میعار کو چھوڑ دیجئیے اپنے لیئے سب جائز اور دوسروں کے
لئے جائز بھی ناجائز کاوقت اب ختم ہو چکا ہے۔ اب قوم اور ملت آپ کے دوغلے
بیانات اورکرتوتوں سے مزید بیوقوف نہیں بننے والے۔لحاظہ آپ بھی اب اپنا
قبلہ درست کر کے صیح معنوں میں دینِ اسلام کی خدمت شروع کر دیں ۔ اﷲ تمام
مسلمانوں کو بلعموم اور ایسے علمائے کرام کو بلخصوص ہدایت عطا فرمائے۔امین
بقولِ شاعر۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم بن جا یا سراسر سنگ ہو جا
|