معنی و مفہوم:
لفظ اختلاف کا مادہ خ ل ف ہے۔جس کا مطلب ہے "جانشین ہونا"اور اختلاف باب
افتعال سے ہے،جس کا مطلب اپنے پیچھے سے پکڑنا ہے اور اس سے لفظ اختلفوا
ہے۔آپس میں اختلاف کرنا،ناموافق ہونا،اختلاف مختلف چیزوں میں مختلف نوعیت
کا ہو سکتا ہے ۔
اصطلاحی مفہوم:
طہ جابر فیاض العوانی لکھتے ہیں کہ
"کسی کے احوال یا اس کی باتوں سے کوئی الگ راستہ اختیار کرنے کو اختلاف اور
مخالفت کہتے ہیں۔اور خلاف ضد سے زیادہ عام ہے۔کیونکہ ہر دو ضد ایک دوسرےسے
مختلف ہوتے ہیں لیکن ہر دو مختلف چیزیں ایک دوسرے کی ضدنہیں ہوتیں"
(اسلام میں اختلاف کے اصول و اداب:ص:۲۲)
اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں اختلاف کی تعریف کی گئی ہےکہ"اختلاف رائے کا
تفاوت اجماع کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد علمائے شرح و اصول
کی آراء کا وہ اختلاف ہے جو فقہی احکام و کلیات کی عملی تفصیلات میں ہو،اور
اس کی زد میں ہو۔خصوصا اول الذکر(یعنی فقہی معاملات)میں اس اختلاف سے مراد
مذاہب اربعہ کا باہمی اختلاف نیز وہ اختلاف ہے جو خود کسی مذہب کے اندر
پایا جاتا ہے۔بہرحال اختلاف ایک حقیقت ثابتہ ہے"
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ،۲:۱۷۶)
مختصر یہ کہ ہر یکساں حالت کے بعد جب اس کے خلاف کوئی دوسری حالت رونما
ہوتی ہے تو اس کا نام ہم اختلاف رکھتے ہیں،اس لحاظ سے اگر اس عالم پر عرش
سے لیکر فرش تک نظر ڈالیں تو سارا عالم اختلاف کی آماجگاہ نظر آئے گا،یہاں
تک کہ اگر اس عالم کی کوئی صحیح تعریف ہو سکتی ہے تو یہی ایک لفظ اختلاف ہے۔
حقیقت اختلاف
اختلاف کے اسباب و محرکات پر بحث کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے۔کہ اسلام
میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ایک طرف تو قرآن ان لوگوں کے انتہاٰ ئی مذمت
کرتا ہے۔جو کتاب اللہ کے آجانے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور
اپنے دین کے ٹکٹرے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور دوسری طرف قرآن کے احکام کی
تعبیروتفسیر میں صرف متاخرین ہی نہیں آئمہ اور تابعین اور خود صحابہؓ تک کے
درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے
گی جس کی تفسیر بالکل متفق علیہ ہوتو پھر ایک سوال ذ ہن میں ابھرتا ہے کہ
کیا یہ بھی کوئی اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہوئی ہے اور اگر
ایسا نہیں تو پھر کونسا اختلاف ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے اور انہی دو
اختلاف میں فرق واضح کرنا مقصود ہے
اس سلسلے میں مولانا مودودی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں
"قرآن اس صحت بخش اختلاف رائے کا مخالف نہیں ہے۔جو دین میں متفق اور اسلامی
نظام جماعت میں متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ
تحقیق کی بناء پر کیا جائے بلکہ وہ مذمت اس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت
اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی اور نزاع باہمی تک پہنچا دے،یہ
دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں۔اور نہ اپنے نتائج میں
ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی میں ہانک دیا جائے"
(تفہیم القرآن ۱:۳۱)
اقسام اختلافات:
اسلام میں اختلاف کی حقیقت جاننے کے بعد ہم اختلافات کو درج ذیل دو اقسام
میں منقسم کر سکتے ہیں۔
۱)اختلاف حقیقی
یعنی ایسا اختلاف جس میں خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت پر جماعت سب لوگ متفق
ہوں۔احکام کا ماخذ بھی بالاتفاق قرآن و سنت کو مانا جائے اور پھر دو عالم
کسی جزوی مسئلے کی تحقیق میں ایک دوسرے سے اختلاف کریں مگر ان میں سے کوئی
بھی نہ تو اس سے اختلاف کرنے والوں کو دین سے خارج قرار دے اور جماعت
المسلمین پر چھوڑ دے کہ وہ دونوں آراء میں سے جس کو چاہیں قبول کر لیں یا
دونوں کا جائز رکھیں۔
اس اختلاف کی بابت مولانا مودودی فرماتے ہیں
"اور یہ اختلاف ترقی کی جان اور زندگی کی روح ہےیہ ہر اس سوسائٹی میں پایا
جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والوں پر مشتمل ہو،اس کا پایا جانا زندگی کی
علامت ہے۔اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے
نہیں بلکہ لکڑی کندوں سے مرکب ہو" (تفہیم القرآن ۱:۳۸)
اختلاف غیر حقیقی
یعنی ایسا اختلاف جو سرے سے دین کی بنیادوں میں ہی کر ڈالا جائے،یا یہ کوئی
عالم یا صوفی یا مفتی یا متکلم لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسولﷺ
نے دین کا بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا۔ایک رائے اختیار کر ے اور کھینچ
تان کراس کو دین کا بنیادی مسئلہ بنا ڈالے اور جو اس سے اختلاف کر ڈالے اس
کو خارج از دین وملت قرار دے اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بنا کر کہے کہ
اصل امت مسلمہ بس یہ ہے باقی سب جہنمی ہیں اور ہانک پکار کر کہے مسلم ہے تو
بس اس جتھے میں آجاورنہ تو مسلم ہی نہیں،ایسے اختلاف کا رونما ہونا صحت
نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے اور اس کے نتائج کبی کسی امت کے میں بھی مفید
نہیں ہو سکتے کیونکہ اتباع نفس ہمیشہ باعث شروفساد ہوتا ہے۔
تاریخ اختلاف
اختلاف کا معنی و مفہوم اور اسلام میں اس کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اس بات
کا جائزہ لیا جائے گا کہ اختلاف کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟
عہد رسالت میں اختلاف اور اس کی نوعیت
اختلاف رائے اگر کوئی مزموم چیز ہوتی تو صاحب شریعتﷺ کبھی بھی اس کی اجازت
نہ دیتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے متبعین میں حریت فکر
کی ایسی روح پھونیب تھی کہ وہ بعض دفعہ حضور ﷺ کی ذاتی رائے سے بھی اختلاف
کر دیا کرتے تھے۔
مولانا مودودی تفھیمات میں فرماتے ہیں
"نبی کریمﷺ کے مشن کا ایک حصہ یہ تھا کہ خدا کی اطاعت و فرما برداری کا
قلادہ انسان کی گردن میں ڈال دیں اور دوسرا حصہ یہ تھا کہ انسان کی اطاعت و
فرمانبرداری کا قلادہ اس کی گردن سے اتار پھینکیں،یہ دونوں کام آپﷺ کے مقصد
شریعت میں شامل تھے۔اور دونوں کی اہمیت یکساں تھی،پہلے کام کے لئے ضروری
تھا کہ نبیﷺ ہونے کی حثیت سے آپﷺ تمام انسانوں کو اپنی کامل اور غیر مشروط
اطاعت پر مجبور کریں کیونکہ آپﷺ کی اطاعت پرہی خدا کی اطاعت موقوف تھی،اس
کے مقابلے میں دوسرے کام کی تکمیل کے لئے یہ بھی اتنا ہی ضروری تھا۔کہ سب
سے پہلے آپﷺ خود اپنے عمل اور برتاو سے یہ حقیقت مسلمانوں ذہن نشین کر دیں
کہ وہ کسی انسان کی بندگی سے قطعی آزاد ہیں،یہ ایک انتہائی نازک کام
تھا۔اگر کوئی شخص اسی پر غور کرتے کہ نبیﷺ ہونے کی حثیت سے آپﷺ کو لوگوں پر
کتنا بڑا اقتدار حاصل تھا اور پھر یہ دیکھے کہ آپﷺ لوگوں کو کتنی مکمل
آزادی رائے عطا فرماتے اور خود اپنی ذاتی آراء سے اختلاف کرنے میں کس طرح
حوصلہ افزائی کرتے تھے۔اور آزادی رائے کا حق ان کو ہر انسان حتٰی کہ انسان
کاملﷺ جیسی عظیم الشان شحصیت کے مقابل میں بھی عطا کرتے تھے"
(تفھیمات۱:۵۵،۵۶)
سرکار رسالت مابﷺ سے زیادہ اس بات کا مستحق ہو سکتا تھا جن کے ساتھ کسی کو
اختلاف رکھنا کسی کے لئے مناسب نہ ہوتا مگر اس کے باوجود یعنی شخصی معاملات
میں صحابہؓ نے حضورﷺ سے اختلاف کیا اور اس اختلاف کی جزئیات بھی حضورﷺ نے
خود دلائ۔نبیﷺ کے زمانے میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہؓ اپنی
ذاتی رائے ظاہر کرنے سے پہلے آپﷺ سے دریافت کر لیتے تھے کہ آپﷺ کا یہ ارشاد
حکم الہی کی بنیاد پر ہے یا اپنی ذاتی رائے پر اور جب معلوم ہوجاتاتھا کہ
اپنی رائے سے ہے تو اپنی بات عرض کرتے تھے
سیرت النبیﷺ میں ہے کہ
"جنگ بدر میں حضورﷺ نے ابتداء میں جگہ قیام فرمایا تھا۔وہ جگہ موزوں نہ
تھی۔حضرت حبابؓبن منذر نے دریافت کیا کہ حضورﷺ آپﷺ نے اس جگہ کا انتخاب وحی
کی بناء پر فرمایا ہے یا اپنی رائے سے،حضورﷺ سے نے جواب دیا"بل ھوالرای
والحرب المکیدہ"بلکہ یہ ایک رائے اور جنگی تدبیر ہے۔اس پر انھوں نے تجویز
کیا کہ آگے بڑھ کر فلاں جگہ ٹھہرا جائے،چنانچہ حضورﷺ نے ان کی رائےکو قبول
فرمایا اور فرمایا تم نے صحیح رائے دی اور اسی پر عمل فرمایا" (سیرتہ
النبیﷺ ۱:۷۱۵)
جنگ خندق کے موقع پر حضورﷺ نے مدینہ طیبہ پر ہر طرف سے دشمنوں کی یلغار
دیکھ کر بنی غطفان سے صلح کرنی چاہی تاکہ دشمنوں کا زور ٹوٹ جائے۔مگر جب
روسائے انصار سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ سے مشورہ کیا تو انھوں نے
معلوم ہونے پرکہ حضورﷺ ایسا وحی کی بناء پر نہیں کر رہے ہیں۔اس تجویز سے
اختلاف کیا۔چنانچہ آپﷺ نے انھیں اختیار دے دیا کہ تم جو چاہو کرو،اس پر سعد
بن معاذؓ صلح کا مسودہ لے کر اس پر سے تحریرکو مٹادیا" (سیرتالنبیﷺ ۲:۲۴۲)
آزادی ء رائے کی تربیت حضورﷺ نے آزاد غلام سب کو دے رکھی تھی۔بریرہؓ ایک
لونڈی تھی،جنہوں نے آزاد ہونے کے بعد اپنے شوہر سے علیحد گیاختیار کر لی
تھی۔شوہر انھیں بہت چاہتاتھا اور ان کے پیچھے روتا پھرتا تھا،حضورﷺ کو خبر
ہوئی تو آپﷺ نے بریرہؓ سے کہا "اچھا ہوتا اگر اس کے پاس چلی جاتی"بریرہؓ نے
کہا حضورﷺ حکم دیتے ؟کہا نہیں"مشورہ"انھوں نے جواب دیا کہ پھر مجھے اس کی
حاجت نہیں۔(بخاری۳:۱۴۶،کتاب الطلاق،باب شفاعتہ النبیﷺفی زوج بریرہؓ)
مولانا مودودی فرماتے ہیں
بعض اوقات معاملہ کی نوعیت ایسی ہوتی تھی،جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوجاتاتھا
کہ حضورﷺکا ارشاد شخصی نوعیت میں ہے۔مثلا حضرت زیدؓ سے فرمایا"امسک علیک
زوجک واتق اللہ" (الاحزاب:۳۷)
اس ارشاد کے متعلق بات ظاہر تھے کہ یہ مومن کو ہی حکم شرعی نہیں بلکہ
خاندان کے فرد کو بزرگ خاندان کا مشورہ ہے۔اسی وجہ سے حضرت زیدؓنے حضورﷺ کے
ارشاد کے باوجود حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی۔اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اس
پر نکیر نہ کرنےسے ثابت ہوگیا کہ حضرت زیدؓ نے آپ ﷺ کے فرمان کی نوعیت ٹھیک
مشخص کی تھی۔ (تفھیمات:۱:۲۷۹)
غرض نبیﷺ کے دور میں صحابہؓ کو تعمیری اختلاف کی اجازت تھی،بلکہ اس اختلاف
پر اظہار ناراضگی کرنے کی بجائے اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
عہد صحابہؓ میں اختلاف اور اس کی نوعیت
دور رسالت کے بعد خلافت راشدہ میں بھی حریت فکر ،آزادانہ اظہاراور اس ضمن
میں برداشت و لحاظ کا یہی قاعدہ جاری رہا۔
مولانا مودودی فرماتے ہیں
"سرکار رسالتمابﷺ نے حریت فکر کی تخم ریزی کی تھی اور احکام الہی کی اطاعت
کے ساتھ ساتھ انسان کے مقابلے میں آزادی ء رائے استعمال کرنے کا جو سبق
اپنے متبعین کو خود اپنے عمل اور اپنے برتاؤ سے سکھایا تھا۔اسی کا یہ اثر
تھا کہ صحابہ اکرامؓ تمام انسانوں سے زیادہ احکام الہی کی اطاعت کش اور
تمام انسانوں سے زیادہ آزاد خیال و جمہوریت پسند تھے۔وہ بڑے بڑے شخص کے
مقابلے میں بھی اپنی رائے کی آزادی کو قربان نہ کرتے تھے۔ان کی ذہنیت سے یہ
بات بالکل بعید تھی کہ کسی رائے کو محض اس بناء پر تنقید سے بالاتر سمجھیں
کہ وہ بات کسی بڑے آدمی کی رائے ہے۔ان میں سے جو بڑے تھے،جن کی بڑائی کو
ایک دنیا تسلیم کرتی ہے ان کی رائے کو بھی محض انھوں نے ان کی بڑائی کی
بناء پر تسلیم نہ کیابلکہ آزادی کے ساتھ رد بھی کیا اور قبول بھی
کیا۔خلفائے راشدین رسول اللہﷺ کے بعد سب سے زیادہ اس آزادی ء رائے کے حامی
تھے۔انھوں نے اپنے آقا کی پیروی میں لوگوں کی آزادی کو نہ صرف گوارہ کیا
بلکہ اس کی ہمت افزائی کی اور کبھی کسی چھوٹے آدمی سے یہ مطالبہ نہ کیاکہ
ہم بڑے آدمی ہیں۔اس لئے ہماری بات کو چون و چرا تسلیم کرو۔"
(تفھیمات:۱۱:۱۰۷)
صحابہ ؓ کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے
"اصحابی کالنجوم فبایھماقتدیتم اھتدیتم"
(مشکواتہ المصابیح ۳:۲۱۹،کتاب المناقب،باب مناقب الصحابہ)
صحابہ اکرامؓ میں بہت سے معاملات میں اختلاف تھا مگر یہ اختلاف اصل میں میں
نہیں بلکہ فرع میں تھا اور باہم اختلاف کے باوجود ان کے باہمی تعلقات بہت
خوش گوار تھے۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کو حضورﷺنے دنیا ہی میں جنت
کی بشارت سنائی،اور ان دونوں بزرگان میں بھی مختلف معاملات میں اختلاف پایا
جاتا تھا۔جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے مانعین
زکوٰتہ سے قتال کرنے کا عزم کیا تو حضرت عمرؓ نے انکی مخالفت کی اور فرمایا
آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں جنہوں نے کلمہ طیبہ "لاالہ الا اللہ
محمد رسول اللہ"کا اقرار کیا ہو جبکہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ
من قال لا الہ الا للہ فقد عصم منی نفسہ و مالہ
(مسلم:۱:۳۷۶،کتاب الایمان(باب)الامر یقتال الناس حتی یقولوا لا ا لہ ال
اللہ)
مگر حضرت ابو بکر ؓ نے زکوٰتہ کو نماز پر قیاس کیا اور حضرت عمرؓ سے اختلاف
کیا۔
قاسم بن محمد خلیفہ عدل عمر بن عبدالعزیز کا قول نقل کرتے ہیں کہ
"ما احب ان اصحاب محمد لا یختلفون لان الرای لو کان واحدا لکان الناس فی
ضیق و انہم ائمتہ یقتدی بہم فلوا خذالرجل بقول احدھم لکان لسنتہ
(الاعتصام:۱۲:۱۴۶)
مجھے یہ بات پسند نہیں ہے۔ کہ صحابہ اکرامؓ میں اختلاف ہوتا تو بہتر
تھا۔کیونکہ اگر مسائل دینیہ میں ایک ہی رائے ہوتی تو لوگ دشواری میں مبتلا
ہو جاتے،حالانکہ وہ قابل اتباع رہنما ہیں۔اور ان میں سے جس کی رائے کو کوئی
شخص اختیار کرے وہ سنت پر عمل کرنے والا ہے"
اگرچہ صحابہ اکرامؓ میں اجتہادی امور میں اختلاف بھی ہوتا تھا مگر اجتہادی
رائے کو حکم اللہ کا درجہ نہیں دیتے تھے،چنانچہ حضرت عمرؓ کے سامنے کسی شخص
نے کسی معاملے میں حضرت علیؓ کی رائے کا حوالہ دیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا
اگر میں ہوتا تو یہ فیصلہ کرتا،اس پر اس شخص نے کہا کہ بات قرآن و سنت کی
ہوتی تو میں ضرور پیروی کرتا،لیکن یہ معاملہ رائے کا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ
کون سی رائے حق اور درست ہے۔
عہد تابعین و تبع تابعین میں نوعیت اختلاف:
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں
"صحابہ اکرامؓ کے مذاہب مختلف ہو گئے،پھر یہی اختلاف وراثتا تابعین تک
پہنچے پھر تابعی کو جو کچھ مل سکا ،اسی کو اس نے اپنا لیا اور آئحضرت ﷺ کی
جو حدیثیں اور صحابہ کے جو مذاہب اس نے سنے ان کو محفوظ اور ذہن نشین کر
لیا،نیز صحابہ کے جو مختلف اقوال اس کے سامنے آئے ان میں اپنی فہم کی حد تک
مطابقت پیدا کی"
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ،ص:۲۸)
پھر عہد تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
عہد تابعین کے ختم ہونے پر اللہ تعالی نے علم دین کے خادموں کا ایک گروہ
پیدا کر دیا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو،جو اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے اس علم کے
متعلق نکلا تھا کہ آنے ولی نسلوں میں سے ہر نسل کے عادل لوگ اس علم کے
امانت دار ہونگے،
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص:۳۲)
فقہاء اور فروعی اختلاف:
بعض جاہل لو گ فقہاء پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں ہر بات میں اختلاف ہے،اب
ہم کس کا اتباع کریں؟کس کو جھوٹا سمجھیں اور کس کو سچا سمجھیں،پس جب یہ بات
ثابت ہو چکی کہ ان سب کا تعلق قرآن و حدیث سے ہے،تو اس پر اعتراض کرنا ہی
غلط ہےسو رہ گئی یہ بات کہ ہم کس کا اتباع کریں تو یہ بات سمجھنا بہت آسان
ہے وہ یہ کہ جب مریض کے بارے میں بعض اطباء کا اختلاف ہو جائے تو کیا سب کو
چھوڑ کر مریض کا علاج نہیں کرتے یا کسی اصول کی بناء پر ان میں سے کسی ایک
کو ترجیح دے کر اپنے مقصد کے حصول میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں
ایک عالم سے جو کہ فارسی میں استاد ہیں۔ایک عیسائی نے ان سے اعتراض کیا کہ
اہل اسلام میں سینی تحقیق کی کمی کی ایک بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ ان کے اکثر
مسائل میں اختلاف ہے۔اگر کافی تحقیق ہوتی تو اختلاف نہ ہوتا تو انھوں نے
جواب دیا کہ یہی تو دلیل ہے ان کی تحقیق کرنے کی،کوئی چھوٹے سے چھوٹا جزو
بھی نہیں چھوڑا۔
گویا اجتہادی امور میں فقہائے اکرام کا اختلاف رائے فطری بھی ہے اور منطقی
بھی،کیونکہ فقہاء میں سے ہر ایک نے اجتہادی مسائل کا اپنے نقطء نظر سے
جائزہ لیا ہے،جس سے ہر مسئلے کے مختلف پہلو آشکار ہو کر حقیقت زیادہ واضح
ہو گئی،اور اسلامی فقہ میں میں ایسا توسع پیدا ہو گیا اور اس میں ہر طرح کے
حالات کے مطابق منطبق ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔
امام ابوحنیفہ اور ان کے جلیل القدر شاگردوں کا عمل ایک روشن مثال ہے۔شرف
تلمذ سے مشرف ہونے کے باوجود شاگردوں نے مسائل کے استنباط میں استاد کی
آراء سے بے تکلف اختلاف کیا،جبکہ ان کا استاد وہ شخص تھا۔جس کی دوستی اور
نکتہ شناسی کی مثال صحابہ اکرامؓ کے بعد آج تک تاریخ دکھانے سے قاصر ہے۔
اختلاف حقیقی ۔۔۔۔اسباب و حکم
ایک شخص جب فقہاء اور مجتھدین کی آراء اور ان کےاجتہادات پہ نظر ڈالتا ہے
تو اس کے سامنے یہ بات سوالیہ نشان بن کر ابھرتی ہے کہ جب تمام فقہاء اور
آئمہ مجتھدین کے استدلال اور استخراج مسائل کا بنیادی ماخذ و مصادر کتاب
اللہ اور سنت رسولﷺ ہیں تو پھر ان کی آراء اور اجتھادات میں مختلف مواقع پر
اختلاف کیوں؟ایک مسئلے سے ایک امام اور مجتھد کی ایک رائے ہے اور اس مسئلے
میں دوسرے امام یا آئمہ کی آراء اس سے مختلف ہیں،ایسا کیوں ہے؟اس کے اسباب
اور علل کیا ہیں؟
جن حضرات نے آئمہ مجتھدین اور فقہاء کے ان اختلاف کے اسباب و علل سے آگہی
حاصل نہیں کی اور اس کی حقیقت تک نہیں پہنچے،وہ مختلف الجھنوں کا شکار ہو
گئے،ان اختلاف کی تہ تک نہ پہنچنے کے سبب ان کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرا کہ
جب چاروں آئمہ مجتھدین کے احکام مسائل اخذو استنباط میں ماخذو مصادر مشترک
ہیں۔جب سب ہی علی منہاج النبوتہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو پھر اختلافات
کیوں ہیں؟
ڈاکٹر طہ جابر لکھتے ہیں
"فکری امورومعاملات جن سے فقہی مسائل کا استخراج ہوتا ہے،ان میں اختلاف
ہونا ایک فطری چیز ہے۔کیونکہ لوگوں کا شعورواحساس ان کی عقل و فہم یہ سب
چیزیں فطرتا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔یہ بنیاد تسلیم کر لینے کے بعد لازمی
طور پر یہ جاننا پڑے گا۔کہ عہد رسالت و عہد صحابہؓ میں بھی اختلافات ہوئے
اور تاریخی واقعات ان کے گواہ ہیں جن کا انکار دین کی کوئی خدمت نہیں،اور
جن کے ذکر سے اس مثالی دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ورنہ باہمی اختلافات
صحابہ اکرامؓ سے ان نیتوں کی صداقت مجروح ہوتی ہے۔بلکہ ان سے ہمیں علم ہوتا
ہے کہ یہ دین فطری اور قابل عمل ہے۔
حقائق زندگی پر اس کی گہری نظر ہے اور انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہی ان
کے ساتھ اس کے معاملات ہوا کرتے ہیں اور تخلیق فطرت کے مختلف عوامل و اسباب
بھی جا بجا اثر انداز ہیں۔لیکن مومن کے قلب و روح کے لئے یہ چیز اطمینان
بخش ہے۔کہ یہ اختلاف ضعف عقیدہ یا دعوت رسولﷺ کی صداقت میں شک کے سبب آراء
و احکام ہی ہے" (اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب:ص:۹۵)
اختلافات کی دو بڑی وجوہ ہیں۔جن میں ہر ایک کی الگ انواع ہیں،پہلی قسم میں
منطقی وجوہ ہیں۔منطقی وجوہ لازمی اور ناگزیر ہیں۔یہ کہ دینے میں بھی کوئی
حرج نہیں کہ تنوع کی خاطر اللہ تعالی نے خود یہ اختلافات پیدا کئے ہیں۔خوب
سے خوب تر کی تلاش انسانی فطرت میں شامل ہے۔اللہ تعالی نے شریعت وضع کرتے
وقت اسی انسانی فطرت کے مطابق متنوع احکام نازل کئے،دوسری قسم کے اسباب جو
غیر منطقی ہیں،وہ بے جواز اور نا خود ساختہ اور تعلمات اسلامی سے دوری کا
نتیجہ ہیں۔ذیل میں ان اختلافات کا جائزہ لیا جائے گا،جو حقیقی ہیں اور علی
منہاج النبوتہ ہیں یعنی جن کی اجازت خود آئحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ کو دلائی،
قرآن میں قراتوں کا اختلاف:
فروعی اختلاف کی ایک بڑی وجہ قرآن مجید میں قراتوں کا اختلاف ہے۔جو حضورﷺ
سے ہم تک توتر سے پہنچی ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
یایھالذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوتہ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق
وامسحوا بروسکم وارجلکم الی الکعبین
(المائدہ:۵:۶)
"اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں کو دھو اور اپنے
ہاتھوں کو بھی کہنیوں سمیت اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی
ٹخنوں سمیت دھوو"
مشہور قراء میں سے ابن عامر،نافع اور کسائی لفظ"ارجلکم"میں "لام" پہ زبر
پڑھتے ہیں،ابن کثیر ،ابوعمرو اور حمزہ سے جو قرات منقول ہے اس میں لام کے
نیچے زیر ہے۔یہاں قرات کے اس اختلاف سے فقہاء میں پاوں دھونے اور مسح کرنے
کے مسئلہ میں اختلاف ہو گیا۔جمہور علماء نے "لام"پر زبر کی قرات ارجلکم کو
اختیار کیا ہے،اس لئے جمہور کی رائے میں پاوں دھونا فرض ہے اور پاوں کا مسح
جائز نہیں۔
سنت کے علم میں کمی بیشی:
رسول اللہﷺ کی حدیثیں اور سنتیں جس سہولت اور اہتمام کے ساتھ آج ہمیں
دستیاب ہیں،صحابہ اکرامؓ اور بعد میں آنے والے فقہاء کو حاصل نہ تھیں۔اس پہ
ان میں باہم اختلاف ہو گیا۔مثلا صحیح مسلم کی روایت ہے کہ
"عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو خبر پہنچی کہ حضرت
عبداللہؓ بن عمر عورتوں کو غسل کو وقت مینڈھیاں کھولنے کا حکم دیتے ہیں وہ
عورتوں کو سر منڈھوانے کا حکم کیوں نہیں دیتے،حالانکہ میں رسول اللہﷺ کے
ساتھ ایک برتن سے پانی لیکر غسل کرتی تھی اور اپنے بالوں پہ پانی صرف تین
بار ڈالتی تھی۔
(صحیح مسلم :۱:۱۰۲۳،کتاب الحیض )
ثانیا یہ کہ مجتہد صحابی کو کوئی حدیث تو پہنچی مگر اسے قابل اطمینان طریقے
سے نہیں پہنچی،اس کے صحیح ہونے کا اسے گمان غالب ہوتا،اس لیئے مجتھد نے
روایت کو قابل اعتبار سمجھتے ہوے اپنے اجتہاد ہی پر عمل کیا۔
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:۱۹،۱۸)
مثلا صحیح مسلم میں ہے کہ
"فاطمہ بنت قیسؓ نے حضرت عمرؓ کے روبرو مجھ کو تین طلاقیں دی گئیں
تھیں۔رسول اللہﷺ نے نہ تو مجھ کو زمانہ عدت کا نفقہ دلایا اور نہ مکان،آپؓ
نے گواہی ماننے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولﷺ
کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے،ہمیں معلوم نہیں کہ اس
نے یاد رکھا یا بھول گئی،مطلقہ کے لئے قرآن نفقہ اور رہائش دیتا ہے۔
(صحیح مسلم:۳:۱۰۸۰،کتاب الطلاق)
لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشتہ مبینتہ (الطلاق:۶۵:۱)
فعل رسولﷺ کی تعیین نوعت میں اختلاف:
اختلاف روایت کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی اکرمﷺ کو متعدد لوگوں نے ایک کام کرتے
دیکھا،مگر افکار بشری میں فطری تفاوت کی وجہ سے اس فعل کی نوعیت سمجھنے میں
اختلاف ہو گیا،پھر کسی نے تو اس فعل رسولﷺ کو عبارت سمجھا اور کسی نے اس
فعل رسولﷺ کو صرف اباحت یعنی جائز ہونے پر محمول کیا۔مثلا
جمہور کے نزدیک خانہ کبعہ کا طواف کرتے وقت"رمل"یعنی اکڑ کر چلنا سنت
ہے۔لیکن حضرت ابن عباسؓ کا قول یہ ہے کہ نبیﷺ نے جو رمل کیا تھا۔وہ محض
اتفاقی طور پر اور ایک عارضی سبب سے تھا یعنی مشرکین مکہ کا یہ طعن کہ
مسلمانوں کو "مدینہ"کے بخار نے بالکل چور کر ڈالا ہے۔یہ فعل حج کی کوئی
مستقل سنت نہیں ہے۔جبکہ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حجتہ الوداع
کے موقع پر رمل یا،اس لئے سنت ہے۔
(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص،۲۲)
وہم تعبیر کا اختلاف:
اختلاف کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ افعال رسول ﷺ کے بیان میں لوگوں نے مختلف
گمانوں سے کام لیا،تمام لوگ ایک ہی ذہنی اور فکری سطح کے نہیں ہوتے،کچھ لوگ
دانائی اور فقاہت میں کمزور مگر حافظے کے تیز ہوتے ہیں،جو دیکھا اسے خوب
یاد رکھا،انھوں نے حضورﷺ کے اس عمل کو من و عن نقل کیا مگر سیاق و سباق اور
پس منظر کے بغیر،
حضورﷺ کے سفر حج کے حوالہ سے ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔مثلا رسول
اللہﷺ نے جب حج کا احرام باندھا تو کسی نے سمجھا کہ آپ ﷺمتمتع ہیں۔یعنی
پہلے عمرہ ادا کریں گے اور حج ادا کریں گے،
"اسی طرح اس بات میں اختلاف ہوا کہ حضور ﷺ نے کس وقت احرام باندھا۔اس سے اس
بات میں اختلاف کی وجہ یہ ہوئی کہ حضورﷺ نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج
کیا۔مجمع ایک لاکھ سے زیادہ تھا۔ہر شخص حضورﷺ کو بیک وقت نہیں دیکھ سکتا
تھا،جس نے جس وقت پہلی بار حالت احرام میں دیکھا،اس نے اس کے مطابق نقل
کیا"(مناھج الاجتہاد:۸۹)
فقہاء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب دلائل کا ظاہری تعارض بھی ہے۔ظاہری
تعارض اس لئے کہا کہ فی الحقیقت دلائل میں کہیں بھی تعارض نہیں ہے۔اس لیئے
کے ان دلائل کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔اور وہ ذات باری تعالی ہے۔خواہ وہ دلائل
قرآن میں ہوں یا سنت رسولﷺ میں۔
ولو کان من عندغیر اللہ لوجدوافیہ اختلافاکثیرا (النساء:۴:۸۲)
"اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت
اختلاف پاتے"
لیکن چونکہ نصوص پر بے شمار عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔اس لئے ان میں تعارض
پیدا ہو جاتا ہے۔جب مجتھد کو کوئی ایسی دلیل مل جاتی ہے۔جس سے وہ ایک ہی نص
کو وہ دوسری پر ترجیح دے سکتا ہو تو وہ کسی ایک کو ترجیح دے۔
ڈاکٹر مصطفی سید الخن لکھتے ہیں کہ
"دلائل میں ظاہری تعارض کی وجہ سے فروعی مسائل میں بہت زیادہ اختلاف ہے،اور
اس کا اثر بھی زیادہ ہے۔فقہ میں کوئی ایسا اختلافی مسئلہ نہیں ہے جو دلائل
میں تعارض کی وجہ سے اختلافی نہ بنا ہو۔جب معاملہ یہ ہو تو پھر مجتھد
وجوہات ترجیح کوشش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک دلیل کو دوسری دلیل پر ترجیح
دیتا ہے۔اور یوں مختلف مجتہدین مختلف نتائج تک پہنچتے ہیں۔" (قواعد اصولیہ
میں فقہاء کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر:ص:۱۰۲)
حج یا عمرہ کے دوران محرم کا نکاح:
امام شافعی ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مسلک یہ ہے کہ حالت احرام
میں نکاح جائز نہیں ہے۔آئمہ ثلاثہ کا استدلال حضرت عثمان بن عفان کی درج
ذیل حدیث سے ہے
"محرم نہ خود اپنا نکاح کرے اور نہ اس کا نکاح کیا جائے""
حضور ﷺ نے جب حضرت میمونہؓ سے نکاح کیا تھا تو وہ حالت احرام میں نہیں تھے
اور جب ان کی رخصتی ہوئی تب بھی وہ حالت احرام میں نہیں تھے،
امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ حالت احرام میں نکاح کرنا جائز ہے،ان کی
دلیل ابن عباس کی یہ حدیث ہے
"ان النبیﷺ تزوج میمونتہ وھو محرم"
"حضور اکرمﷺ نے حضرت میمونہ سے حالت احرام میں نکاح کیا"اب یہاں فریقین کے
دلائل میں تعارض ہو گیا،فریق اول نے حضرت میمونہ کی حدیث کو راجح قرار
دیا،جو خود صاحب واقعہ ہیں،اور یہ تمام واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا تو جس کے
ساتھ واقعہ پیش آیا وہ زیادہ مستحق ہے کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے۔
(صحیح مسلم:۳:۸۸،کتاب النکاح)
دوسری دلیل ابو رافع کی حدیث ہے جو حضور اکرمﷺ اور حضرت میمونہ کے مابین
سفیر تھے،سفیر کی روایت اس بات کا زیادہ استحقاق رکھتی ہے کہ اسے قبول کیا
جائے،کیونکہ وہ دوسرے افرادکی نسبت اس واقعہ کو بہتر جانتا ہے"
(قواعد اصولیہ میں فقہاء کا اختلاف:ص:۱۰۴)
حالات میں تبدیلی و اختلاف:
کسی زمانے یا وقت میں حالات کے بدل جانے سے بھی احکام میں تبدیلی ممکن
ہوئی۔رسول اللہﷺ کے زمانے میں جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان پر پرانے عقائد
کا اثر باقی تھا۔اس لئے آپﷺ نے ان لوگوں کو قبروں کی زیارت سے روک دیا کہ
ممکن ہے لوگ اپنے سابقہ عقیدے کی وجہ سے قبر کے بارے میں پھر وہی رویہ
اختیار کر لیں،جو مشرکین اختیار کرتے تھے،لیکن بعد میں جب لوگوں کے عقائد
پختہ ہو گئے۔اور یہ خدشہ نہ رہا تو آپﷺ نے لوگوں کے لئے امتناع زیارت قبور
والا حکم منسوخ کر دیا۔
"نھیتکم عن زیارتہ القبور فزوروھا" (جامع ترمذی:۱:۳۷۶،ابواب الجنائز،باب
زیارتہ القبور)
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک زیارت قبور اب مطلقا جائز ہے اور کچھ کا
خیال ہے کہ جب غیر پختہ عقیدہ کے حامل لوگوں سے یہ خطرہ ہو کہ وہ قبروں پر
مشرکانہ افعال کا ارتکاب کریں گے تو ان کا قبروں پر جانا ٹھیک نہیں،اس طرح
کے اختلافات حالات کی تبدیلی کے باعث بھی پیدا ہوئے۔
سہو و نسیان کا اختلاف:
اختلاف کی ایک وجہ سہو و نسیان تھا۔جو لازمہ بشریت ہے۔اس کی مثال حضرت ابن
عمرؓ کے متعلق اس روایت میں موجود ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ"آئحضرت ﷺ نے ایک
عمرہ ماہ رجب میں کیا ہے۔حضرت عائشہؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ ابن
عمر کو سہو ہو رہا ہے۔اللہ تعالی ابو عبدالرحمن کی مغفرت فرمائے مجھے اپنی
زندگی کی قسم!آپﷺ نے رجب میں عمرہ نہیں کیا۔ (صحیح مسلم ۳:۴۸۰۔کتاب
الحج،باب بیان عدو عمر النبیﷺ و زمانھن)
لغت:
مولانا تقی امینی لکھتے ہیں
"قرآن حکیم میں ایسے لفظ کا آنا جو کلام عرب میں دو معنوں میں مستعمل
تھا،جیسے لفظ قرء"(طہر اور حیض)ہے۔بعض صحابہؓ نے ایک معنی میں لیا اور بعض
نے دوسرے معنی میں استعمال کیا۔
(فقہ اسلامی کی تاریخ اور اصول فقہ:ص:۴۳)
فہم و ادراک کا اختلاف:
غزوہ احزاب کے موقع نبیﷺ نے فرمایا
"لا یصلین احد العصرالا فی بنی قریظہ"
"دیار بنی قریظہ سے پہلے کوئی نماز عصر ادا نہ کرے"(صحیح مسلم،باب صلوتہ
الخوف)
رات میں جب نماز کا وقت ہوا،تو دو گروہ بن گئے،ایک نے نماز ادا کی جبکہ
دوسرے گروہ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق بنی قریظ میں ادا کی۔پہلے کی
دلیل قرآن کے مطابق کے نماز وقت پہ ادا کراو،معاملہ جب نبی ﷺ کے پاس پہنچا
تو آپﷺ نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔
یوں مزاج کے تفاوت سے بھی اختلاف راے پیدا ہوا۔
اس کی ایک اور مثال حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے مابین مانعین زکوتہ کے
مسئلے پر اختلاف بھی ہے۔
انسانی مزاج اور ذوق میں تنوع:
اختلافات کاایک اور انسانی مزاج اور ذوق میں تنو ع ہی ہےتمام دنیا میں
دوانسان بھی آپس میں ہم شکل نہیں۔اسی طرح دو افراد اپنے خیالات میں بھی ہم
آہنگ نہیں ہو سکتے۔کسی کو ایک رنگ پسند ہے تو کسی کو دوسرا،اسی طرح قرآن و
سنت کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ کے بے شمار پہلووں کو ہر فرد
اپنی پسند کے مطابق اختیار کرتا ہے۔جری شجاع اور بہادر شخص قرآن میں سے
جہاد کے احکام لے کر ان کی دعوت و تبلغ کاکام کرتا ہے۔علمی ذوق رکھنے والا
شخص ابتدا نازل ہونے والا کلمہ"اقراء" کو تعلیمات اسلامی کا دیباچہ قرار سے
کر تعلیم ہی کو اوڑھنا بچھوڑنا بناتا ہے۔مال ودولت سے کراہت پیدا کرنے والے
احکام سن کر بعض افراد تونگری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔کچھ دوسرے لوگ رسول
اللہﷺ کے اصحابؓ میں سے حضرت عثمانؓ کے ہاں مال و دولت اور سخاوت کی وجہ سے
مال کو دین کی اشاعت کا ذریعہ بناتے ہیں۔کچھ لوگ قرآنی احکام میں قلت و
کثرت تلاش کر کے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن میں زیادہ تذکرہ نماز کا
آیا ہے لہذا زیادہ توجہ نماز کو دینی چاہیئے۔
انسانی ذوق خود اللہ کا تخلیق کیا ہوا ہے۔جو ایک دوسرے سے مختلف ہے،اس لئے
جب تک کوئی شخص خلاف اسلام فعل نہ کرے،جائز افعال میں سے کسی کو نا پسند
کرنا یا روکنا سخت غلط بات ہے۔
(دینی مسائل میں اختلاف کے اسباب اور ان کا حل،ص:۱۸)
تعیین علت کا اختلاف:
بسا اوقات اختلاف اس لئے پیش آتا ہے کہ احکام شرح کی علت معین کرنے میں
صحابہؓ کی آراء مختلف ہو گئیں۔مثلا مسلم میں ہے
"حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم غزوہ احزاب سے واپس ہوئے تو
رسول اللہﷺ نے یہ ندا کی کہ بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے کوئی شخص ظہر کی
نماز نہ پڑھے ،بعض صحابہ نے وقت ختم ہونے کے خوف سے بنوقریظہ پہنچنے سے
پہلے نماز پڑھ لی،اور دوسرے صحابہؓ نے کہا کہ ہم اسی جگہ نماز پڑھیں
گے،جہاں ہمیں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے،خواہ نماز قضاء ہو
جائے۔حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے کسی کو بھی ملامت نہیں کیا۔
(مسلم ۵:۴۹۱،کتاب الجہاد)
یہاں صحابہ اکرامؓ میں حکم کی علت متعین کرنے کے حوالے سے اختلاف ہو
گیا۔ایک گروہ صحابہؓ نے بنی قریظہ جا کر نماز پڑھی اور ایک نے راستے میں۔
احادیث کی روایت بالمعنی:
مذکورہ بالا اسباب وجوہ کے علاوہ اختلافات روایات کی ایک اہم وجہ احادیث کی
روایت بالمعنی بھی تھے۔صحابہ اور تابعین کے دور میں روایت بالفظ کا اہتمام
نہیں تھا،بلکہ نبی اکرمﷺ کے قول کو اپنے الفاظ میں نقل کردیا جاتا۔
ابن سرین (م۱۱۰ھ) کہتے ہیں" کہ میں نے ایک ہی حدیث کو دس مشائخ سے سنا ،ان
میں سے ہر ایک نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا لیکن معنی ایک تھے"اس کی
وجہ یہ تھی کہ کوئی بھی بات نبیﷺ سے منسوب کرتے وقت انھیں یہ حدیث یاد
آجاتی تھی کہ
من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار(ؓبخاری:۱:۳۳،کتاب العلم)
ابراہیم نحعی کا قول ہے کہ
"مجھ کو احادیث رسولﷺ سنانے کی بجائے یہ کہنا زیادہ پسند ہے کہ عبداللہ ابن
مسعودؓ نے یہ فرمایا ہے،علقمہ نے یہ کہا ہے"(اختلافی مسائل میں اعتدال کی
راہ:ص:۷۴)
اختلاف حاکمیت الہی کا آئینہ دار:
لیل و نہار ،فصلوں اور موسموں کا اختلاف ہے۔جیسے اختلاف زمان کہنا مناسب
ہے،اس اختلاف کو آیت ذیل میں ذکر کیا گیا ہے۔
ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنہار لایت لاولی الالباب(ال
عمران:۱۹۰)
اختلاف ایک فطری چیز:
امورو معاملات میں رائے اور نقطہ نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے۔جس کا
انفرادی خصوصیات سے بڑی حد تک تعلق ہے اور کسی ایسی اجتماعی زندگی کی تشکیل
ناممکن ہے جو ایک جیسی صلاحیت و لیاقت اور یکساں انداز رکھنے والے افراد پر
مشتمل ہو،کیونکہ انسانی ذہن اور اس کے اعمال کی الگ الگ مہارتیں ہوتی ہیں
اور صلاحیتوں کا فرق و تفاوت ضروری ہے۔
اختلاف غیر حقیقی:
اختلاف غیر حقیقی سے مراد وہ اختلاف جس کی اسلام مذمت کرتا ہے۔ذیل میں ان
کی مختصر نشاندہی کی جاے گی۔
1. جہالت
2. تقلید محض
3. قرآن سمجھنے میں اٹکل پچیوں سے کام لینا
4. فرض سوالات کی تعلیمات کو بطور جزو لینا
5. قرآن و سنت کو عقل کے تابع کرنا
6. جہلاء کو امام بنانا
7. غیر اسلامی افکارونظریات
8. دوسروں کی نہ سننے کا رجحان
9. اتباع ھوی
دور بنو امیہ میں اختلاف کی بنیادیں:
• حدیث روایت کرنے میں اگرچہ تابعین نے بڑی محتاط انداز اختیار کیا،مگر
چونکہ روایت کثرت سے ہونے لگی،اس لئے دشواری پیدا ہوئی،(فقہ اسلامی کا
تاریخی پس منظر:ص:۳۶۵)
• اختلاف کا ایک سبب شیعہ اور خوارج بھی تھے،کیونکہ شیعان علیؓ کا میلان
حضرت علیؓ کی طرف تھا،ان کے دشمنوں پر لعنت بجتےا تھے اور انھیں کافر
کہتے،خوارج کا میلان حضرت ابی بکرؓ و عمرؓ کی طرف تھا،اور حضرت عثمانؓ و
علیؓ اور معاویہؓ سے ان میں سے کسی کی رائے کو قابل توجہ نہ سمجھتے اور
حضرت امیر معاویہؓ اور دونوں فرقوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔اور حضرت
امیر معاویہؓ کے طرف دار دونوں فرقوں سے بے زاری کا اظہار کرتے۔اور ان کے
نزدیک ان کا کوئی وزن نہ تھا۔اس لیئے مسائل کے اجتہاد میں اسی اختلاف کو
بڑا دخل تھا۔ (تاریخ فقہ:ص:۱۶۲)
• ایک امر یہ تھا کہ بعض صحیح احادیث ان علماء و تابعین کو نہ پہنچی
تھیں،جن پر فتوی کا دارومدار تھا،اس لئے ان کو اپنی رائے سے اجتھاد کرنا
پڑا۔عام الفاظ کا انھوں نے لحاظ کیا اور گزشتہ صحابہؓ کی انھوں نے پیروی
کی،اسی کے موافق انھوں نے فتوی دیا اس سے اختلاف ہے۔(حجتہ اللہ
البالغہ:ص:۲۶۴)
• آراء میں کثرت و قلت اور اس میں اختلاف کی وجہ یہ بھی ہوئی کہ صحابہ
اکرامؓ مملکت اسلامیہ کے دور دراز علاقوں میں منتشر ہو چکے تھے،چنانچہ اس
کے سبب اہل عراق صرف عراق کے رہنے والے فقہاء کا اتباع کرتے،حجاز والے
حجازیوں کا اور کوفے والے کوفیوں کا،(فقہ اسلامی کا تارٰیخی ارتقاء،ص:۱۹)
• اختلاف کا ایک بڑا سبب احادیث رسولﷺ میں جھوٹ کا داخل ہونا بھی تھا۔اور
یہی وہ چیز ہے کہ جس سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو خوف تھا۔
الغرض دور رسالت سے دور بنو امیہ تک فقہ کا ارتقاء چلتا رہا،یہاں تک کہ اس
نے باقاعدہ ایک شعبے کی شکل اختیار کر لی۔اس کے باقاعدہ اصول مرتب ہوئے،یوں
فقہ نے اپنی جامعیت اور وسعت کے حوالے سے عالمگیر حثیت اختیار کرلی۔
مصادرومراجع:
1. ولی اللہ ،شاہ،حجتہ اللہ البالغہ:مترجم مولانا خلیل احمد،مکتبہء
رحمانیہ،س ن
2. بی عبداللہ محمد بن اسماعیل ،الجامع لصحیح۔الکتب ستہ،صالح بن عبدالعزیز
بن محمد بن ابراہیم آل ژیخ،دارالسلام للنشر والتوزیع،الریاض،۱۹۹۹
3. محمود احمد غازی،ڈاکٹر،محاضرات سیرت،الفیصل ناشران،لاہور،س۔ن
4. مولانا تقی امینی،فقہ اسلامی کی تاریخ اور اصول فقہ،قدیمی کتب خانہ
کراچی،سن اشاعت ستمبر۱۹۹۱
5. ۱امام غزالی،احیاءلعلوم ،مکتبہء رحمانیہ،س ن
6. محمد اسحاق بھٹی۔برصغیر میں علم فقہ۔مکتبہء کاروان سرائے،س ن
7. طہ جابر فیاض العلوانی،اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب،مکتبہء تعمیر
انسانیت۔۱۹۸۷
8. مودودی،ابوالاعلی،تفھیمات،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور ،۱۹۸۷
9. ابن ھشام،عبدالملک ابو محمد(مترجم سیدایسین علی نظامی دہلوی)ادارہ
اسلامیات،لاہور،س ن
10. مدکور،محمد سلام،ڈاکٹر،مناہج الاجتہاد،دارالنہضہ العربیہ،مصر ۱۹۶۰
11. شافعی،محمد بن ادریس،الرسالہ،مکتبہ و مطبعہ مصطفی،س ن
12. مصطفے سعدالخن،ڈاکٹر(مترجم حافظ حبیب الحمن)قواعد اصولیہ میں فقہاء کا
اختلاف،شریعہ اکیڈمی،بین الاقوامی یونیورسٹی ۲۰۰۳
13. ولی اللہ، شاہ(مترجم مولانا صدالدین اصلاحی)الانصاف فی بیان سبب
اختلاف،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۰
14. شہزاد اقبال شام،دینی مسائل میں اختلاف اسباب اور ان کا حل۔اسلامی
یونیورسٹی،اسلام آباد
15. جسٹس ،ڈاکٹر تنزیل الرحمن ،فقہ اسلامی کا تارٰیخی ارتقاء،مطبع
کراچی،دسمبر ۱۹۸۲ |