یہ کشمیر اور اس کے چاہنے والوں کے لئے اہم خبر
ہے۔ اس اہم منصوبے کا جلد از جلد آغاز اور پایہ تکمیل تک پہنچنا انتہائی
اہم ہو گا۔ خطے میں اس سے معاشی اور سماجی ترقی کا دور بھی اس سے شروع ہو
سکے گا۔ یہ اسلام آباد براستہ مظفر آباد مجوزہ ٹرین سروس ہے۔ وفاقی حکومت
کی ہدایت پر منصوبہ بندی کمیشن نے منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ کی تیاری شروع
کر دی ہے۔ اس کے لئے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پروفیسر احسن اقبال نے گزشتہ
دنوں مطفر آباد کا دورہ کیا۔ اس کا بظاہر مقصد کشمیر ویژن 2025کا جائزہ تھا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم ترقیاتی منصوبوں پر بھی بات ہوئی ہے۔ یہ پہلا
موقع ہے کہ وفاق مین ن لیگ کی حکومت آزاد کشمیر مین اپنی حکومت کے دور کا
انتظار نہیں کر رہی ہے بلکہ دل کھول کر کشمیر کی ترقی کے منصوبے شروع کئے
جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ایسے ہوا کہ وفاق میں جس کی ھی حکومت رہی تو مطفر
آباد میں اپوزیشن کی حکومت کا ساتھ نہیں دیا گیا بلکہ اس کو گرانے کی بھر
پور کوشش کی گئی یا اسے مالی لحاظ سے بھی تنگ کیا جاتا رہا۔ میاں نواز شریف
نے اس روایت کو ختم کر کے ایک اہم کام کیا ہے۔ عوام کے مندیت کا احترام
ضروری ہے۔ اگر چہ الیکشن مین دھاندلی کی بھی شکایات ہیں۔ ن لیگ کے آزاد
کشمیر کے چیپٹرکو مشکل سے یہ کڑوی گولی ہضم کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن ایک طرح
سے میاں صاحب کی پالیسی درست ہے۔ یہی بعض مبصرین کی رائے ہے۔ لیکن کرپشن ،
دھاندلی، میرٹ کی پامالی کی اجازت بالکل نہیں دی جانی چاہیئے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اوصاف کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ میرے
کالموں کی کٹننگ وہ خصوصی طور پر منگواتے ہیں۔ انہیں اس بات کا اعتراف ہو
گا کہ یک طرفہ کوئی بھی گفتگو موثر کام نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کا
کوئی اثر ہوتا ہے۔ یہی موجودہ حکومت کا خیر سگالی کا جذبہ اور عمل ہے۔ فی
الحال یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کسی سے لاکھ سیاسی اختلاف کریں لیکن
اگر کوئی بات اپنے مفاد یا کسی زاتی مقصد کو سامنے رکھ کر کی جائے ، وہ
ضرور اپنی اہمیت بھی کھو لیتی ہے اور لفظ کا تقدس اور حرمت بھی پامال
کرجاتی ہے۔
کشمیر ٹرین سروس کا منصوبہ آغاز میں3کروڑ روپے کا ہے۔ وزارت ریلوے اور چین
کے تکنیکی ماہرین اس پر کام شروع کر رہے ہیں۔ چین کے ساتھ حکومت نے اس ایشو
کا اٹھایا ہوا ہے۔ یہ بتایا جا رہا کہ 107کلو میٹر طویل پروجیکٹ میں دشوار
گزار علاقے بھی آتے ہیں۔ اس میں 50پل اور کلوٹ بھی تعمیر ہوں گے۔
بھارت نے دہلی کو کشمیر سے جوڑا ہے۔ جمون سے سرینگر تک ٹریک انتہائی دشوار
گزار تھا۔ جموں سے سریگر کی مسافت 300کلو میٹر ہے۔ سرینگر سے بارہمولہ
45کلو میٹر ہیں۔ جموں سے اودھم پور تک 53کلو میٹر پر ریلوے ٹریک کے لئے 20
ٹنلز اورا 158پل تعمیر ہوئے۔ پیر پنچال کے پہاڑوں کو کاٹ کر بھارت کی سب سے
لمبی اور ایشیا کی تیسر بڑی ریلوے ٹنل تعمیر کی گئی۔ اس کی لمبائی ساڑھے
11کلو میٹر ہے۔ 345کلو میٹر کے پروجیکٹ کہ کل لاگت کا تخمینہ ایک کھرب
95ارب روپے ہے۔
قاضی گنڈ سے بارہمولہ کئی سال سے ٹرین چل رہی ہے۔ یہ وادی کشمیر کا میدانی
علاقہ ہے۔ جس کی مسافت 70میل یا 119کلومیٹر ہے۔ 2009سے یہ ٹرین چل رہی ہے۔
اب وہاں سے بانہال تک بھی ٹرین سروس جاری ہے۔
پہاڑوں کی بلندی سے ٹرین گزارنازیادہ مشکل نہیں ہے۔ سرف ایک عزم اور مناسب
فزیبلٹی رپورٹ اور انتہائی ماہرین کی ضرورت ہے۔ سرکاری طور پر کہا جا رہا
ہے کہ اس پروجیکٹ کی کامیابی سے سالانہ 50لاکھ لوگ مستفید ہوں گے۔ اس کے
لئے بہارہ کہو سے سی ڈی اے کو قبضہ مافیا سے جگہ خالی کرنے کو کہا جا رہا
ہے۔ لیکن یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ قبضہ مافیا ہی حکومت کے اس منصوبے میں
پہلی رکاوٹ ہو گی۔ اس میں سابق حکومتوں کے لوگ بھی ہیں۔ لیکن حکومت عوام کے
مفاد کے لئے اپوزیشن سے تعاون طلب کر سکتی ہے۔ ن لیگ نے پہلے دن سے پی پی
پی سے مفاہمت کی سیاست کی ہے۔ پی پی پی ک بھی اب ن لیگ کے منصوبوں میں ہر
ممکن تعاون کرنا چاہیئے۔
ٹرین اسلام آباد سے مری اور مری سے مظفر آباد تک چلانے کا منصوبہ ہے۔
2291میٹر سطح سمندر سے مری بلند ہے۔ اس لئے یہاں ٹرین پہنچائی جا سکتی ہے۔
بھارت، سویٹرزلینڈ، فرانس ، تائیوان ، جرمنی، امریکہ، چلی، پیرو، بولویا
میں2ہزار سے لیکر 5ہزار میٹر کی بلندی پر ریل ٹریک تعمیر کئے گئے ہیں۔ چین
میں ثنگولا ٹریک کی بلندی پانچ ہزار 68میٹرہے۔ اس لئے مری میں ٹرین پہنچانا
بیوروکریسی کی رکاوٹ نہین بنائی جا سکتی ہے یا لینڈ مافیا کی وجہ سے اس اہم
پروجیکٹ کو گول نہیں کیا جانا چاہیئے۔
امریکہ، جرمنی اور چین کی کمپنیوں کی کنسورشیم پاکستان ریلوے سے تعاون کر
رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔ اس کا کریڈٹ میاں
صاحب، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق یا کسی اور کو نہیں بلکہ بھر پور تعاو پر
اپوزیشن اور بیور کریسی کو بھی جائے گا۔ اس میں عوام کا مفاد ہے۔ عوام کے
مفاد کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔
سکریٹری ریلوے بورڈ آفتاب اکبر کی جانب سے اس کشمیر ٹرین منصوبے کی تصدیق
کے بعد کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ منصوبہ جلد از شروع ہو اور پایہ تکمیل
کو پہنچے۔ یہ ایک خواب ہے جو پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
|