قرآن کریم اوراحادیث طیبہ میں جا بجا ’’وقت‘‘کی
اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے جن میں وقت گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔وقت
کی قدروقیمت کاموازنہ دنیاکی کسی بھی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتا،جو لوگ وقت
کی قدرنہیں کرتے ناکامیاں اور مایوسیاں ان کامقدر بن جاتی ہیں۔قوموں کی
ترقی کاراز بھی یہی ہے کہ جو قومیں وقت کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے آگے ہی
آگے بڑھتے رہنے کی اہلیت حاصل کرچکی ہیں ان پر کامیابیوں اور ترقیوں کے نت
نئے دَور آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ترقی یافتہ کہلانے والی ان قوموں کاہرفرد خوش
حال دنیا کی ہرآسائش اور سہولت کاحامل اور مالامال ہوتاہے جبکہ وقت کی
قدروقیمت کااحساس نہ کرتے ہوئے اسے بربادکرنے والی قومیں خود برباد ہوجاتی
ہیں ان کاتقریباً ہرفرد بدحال دنیا کی ہرتکلیف و پریشانی میں مبتلا اور
کنگال دکھائی دیتاہے۔حکایت مشہور ہے کہ کسی دانشور نے لوگوں سے
پوچھابتاؤ!اس کارخانۂ قدرت میں مہنگی ترین چیز کیاہے؟کسی نے سونے کومہنگی
ترین چیز قرار دیاتوکسی نے ہیرے کو،کسی نے اولادکوتوکسی نے وطن کو،الغرض
جتنے منہ اتنی باتیں تھیں لیکن دانشور کسی کے جواب سے مطمئن نہیں
ہوا،بالآخر خود ہی جواب دیاکہ دنیامیں قیمتی ترین شئے ’’وقت‘‘ہے۔
انسان کسی کو وقت سے زیادہ قیمتی تحفہ دے ہی نہیں سکتاکیونکہ وہ اسے تحفے
میں ایسی شئے پیش کررہاہے جو کبھی نہ واپس آسکتی ہے اور نہ ہی اسے
خریداجاسکتاہے۔مگر افسوس!! ہمیں وقت کی قدر و قیمت کااحساس ہی نہیں ،سستی،کاہلی
اور لاپرواہی کے ساتھ ساتھ فضول سرگرمیوں اور بے مقصد مصروفیات میں وقت
ضائع کرکے ہم اپنے آپ کوبربادکررہے ہیں۔لیکن افسوس کہ اس بربادی کابھی ہمیں
کوئی احساس نہیں۔ہمارے ہاں وقت کی ناقدری کایہ عالم ہیکہ یہاں کوئی بھی کام
اپنے مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوتااور نہ ہی طے شدہ مدت میں اختتام
پذیرہوتاہے۔دیئے ہوئے وقت سے لیٹ پہنچنافیشن بن چکاہے جس کی وجہ سے پابندیِ
وقت کااحساس بھی ختم ہوتاجارہاہے۔ہمارے دفتروں میں کام کے آغاز کے لئے دس
بجے کاوقت مقرر ہے لیکن دس بجے کہاں کہاں کام شروع ہوتاہے ہم بخوبی جانتے
ہے۔اسی طرح شادی کی تقریب ہی کولے لیں،رسم ِنکاح کاوقت صبح دس بجے
رکھاجاتاہے لیکن نوشہ صاحب کا ۱۲؍بجے تک شادی ہال میں پتہ ہی نہیں ہوتایعنی
صرف دولہے کی وجہ سے تقریباً۲۰۰؍افراد کاقیمتی وقت برباد ہوتاہے لیکن کسی
کو اس بات کااحساس تک نہیں․․․․․․․․چھوٹے دواخانے ہویا بڑے ہاسپٹل ہر جگہ
ڈاکٹر کے آنے اور جانے کا ٹائم بورڈ لگاہوتاہے مگر ڈاکٹر حضرات کی آمد کب
ہوتی ہے یہ امر کسی سے مخفی نہیں ، مریض بے چارہ مرض سے نڈھال اوردردسے بے
حال ہواجاتاہے اور ڈاکٹر صاحبان کواپنے وقت کے حوالے سے ذرہ برابربھی فکر
لاحق نہیں ہوتی،جب زمانہ نیند کی آغوش میں جاتاہے تب ان کی صبح ہوتی ہے ،
نہ مریض کی نیند کاخیال اور نہ ہی ان کی تکلیف کا۔جبکہ رات اﷲ پاک نے آرام
کے لئے بنائی ہے اور دن کام کے لئے(سورۃ النباء ،پ۳۰)
مریض کاحال بھی کچھ جدانہیں ہے،جب ڈاکٹر کے جانے کاوقت ہوتاتب ہی یہ ہاسپٹل
میں پہنچتے ہیں اور پھر ہاسپٹل اسٹاف کی جانب سے کسی قسم کی کوئی کمی واقع
ہوجائے تو شکوہ وشکایت کابازار گرم ہوتاہے جبکہ یہ سوچناچاہئے کہ
ڈاکٹروہاسپٹل اسٹاف کی بھی نجی زندگی ہیں ،انہوں نے تواپنی ذمہ داری نبھائی
ہم ہی تاخیر سے پہنچے ہے۔دنیاوی تقریب ہویادینی مجلس وقت کی ناقدری کم وبیش
یکساں نظر آتی ہے،عوام کو وقت کچھ دیاجاتا ہے مقرر صاحب کچھ اور وقت پر
رونق اسٹیج ہوتے ہے ،پھررودادِ سفربیان کی جاتی ہے ،پھر وقت کی اہمیت
پرگفتگو بھی ہوتی ہے، بھلاجو صاحب خود تاخیر سے پہنچے،داستانِ سفرمیں عوام
کاوقت برباد کیا،اب وہی وقت کی افادیت کوبیان کریں توکس کی اصلاح مقصود ہے؟
؟عوام یا․․․․․؟اسکول وکالج کاجائزہ لیں تو استاد وشاگرد سبھی وقت کی کمی
بیشی میں گرفتار نظرآتے ہیں۔غرضیکہ شاید ہی کوئی ایساشعبہ ہوجو اس بیماری
سے محفوظ رہاہو،صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کابھی یہی عالم ہے۔ہم اپنے
اردگرد اس طرح کی کئی مثالوں کاجائزہ لے سکتے ہیں۔
صرف معاملات ہی میں نہیں بلکہ عبادات میں بھی وقت کاخیال رکھناانتہائی
ضروری ہے جیساکہ اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا:’’پھر جب تم نماز پڑھ چکوتو
اﷲ کی یاد کروکھڑے اور بیٹھے اور کروَٹوں پر لیٹے،پھر جب مطمئن ہوجاؤتوحسب
دستور نماز قائم کرو بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھاہوافرض ہے‘‘۔(سورۂ
نساء،پ۵،آیت ۱۰۳) شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺ نے فرمایا:دو نعمتیں
ایسی ہیں کہ جن کی ناقدری کرکے اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں،ایک صحت اور
دوسری فرصت۔(بخاری وترمذی)ایک اور مقام پر فرمایا:پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں
سے پہلے غنیمت جانو (۱ ) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو(۲)بیماری سے پہلے صحت
کو(۳)محتاجی سے پہلے تونگری کو(۴)مصروفیت سے پہلے فراغت کواور(۵)موت سے
پہلے زندگی کو۔اگر ہم اپنے اوقات کاجائزہ لینگے تومعلوم ہوگاکہ ہم اپنی
زندگی کے کتنے ہی قیمتی لمحات کوشوق کی نذر کردیتے ہیں،بے جاسیروتفریح،گپ
شپ،فلموں،ڈراموں ،ایک دوسرے پر الزام تراشی،لڑائی،جھگڑے اور مسلمانوں کی
غیبت کرنے میں صرف کردیتے ہیں ، دن بھر موبائل پر لگے رہنا،کسی بھی طرح وقت
نکال کر ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فضول کاموں میں وقت برباد کرنا،یہ
تمام باتیں عام ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر آدمی بذات خود وقت کاخیال
کریں ، اگر ہر انسان خود اپنی ذمہ داری کااحساس کریں تو بہت حد تک وقت کی
ناقدری سے بچا جاسکتاہے۔اﷲ پاک ہم سب کو وقت کے صحیح استعمال کی توفیق
عطافرمائے۔ |