مسلم عوام وخواص کے بڑے طبقے
میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ مسلم معاشرہ اخلاقی سطح پر زوال پذیر ہے۔ اس
کی مثالیں زبان زد عام ہیں۔ امانت و دیانت، وعدے کا پاس و لحاظ، معاملات کی
صفائی، سچائی، حسنِ سلوک، خدمت اور ہمدردی کا عملی جذبہ جیسی اخلاقی صفات
کی مسلمانوں میں شدید کمی ہے۔ ان سب کے علاوہ خاص طور پر اجتماعی اخلاق کے
باب میں نمایاں گراوٹ آئی ہے۔یہ صورتِ حال جارج برنارڈ شا جیسے مغربی ادیب
کے اس قول کی یاد دلاتی ہے کہ اسلام تو اچھا مذہب ہے لیکن مسلم معاشرے کی
صورتِ حال ناقابلِ رشک ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فکر و عمل
کے اس تضاد کی وجہ بنیادی طور پر کیا ہے؟ اس اخلاقی گراوٹ کے اسباب کیا ہیں؟
اور اس گراوٹ کو روکنے کی کوششوں کی عملی جہت کیا ہونی چاہیے؟
اخلاقی انحطاط کی سب سے اہم وجہ اور بنیاد دین اور دین داری کا غلط تصور ہے
جو عام لوگوں کے ذہنوں میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ اسلام چار اہم چیزوں
عقائد، عبادات، اخلاق اور قانون سے مرکب ہے۔ اسلام کا پورا ڈھانچہ ان چاروں
سے مل کر مکمل ہوتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی ادبیات میں جس طرح
عقیدے، عبادات اور فقہ و قانون کو مرکزِ توجہ بنایا گیا، اس طرح اخلاق پر
توجہ نہیں دی گئی، بلکہ اب سے کچھ پہلے تک اسلام کے بنیادی عناصر و ترکیبات
کی فہرست میں اخلاق شامل ہی نہیں تھا اور اب بھی اس موضوع پر لکھی گئی
بکثرت تحریروں میں اسے فراموش کردیا جاتا ہے۔ جب کہ عبادات کی جزئیات کی
جزئیات سے بھی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق
کو سراپا قرآن سے تعبیر کیا ہے (کان خلقہ القرآنمسلم۔کتاب المسافرین) اس سے
اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کا اخلاق کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ رسول اللہ
ﷺ کی حیثیت معلمِ اخلاق کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں اخلاق کی تکمیل کے
لیے خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔ (موطا:باب ما جاء فی حسن الخلق)
اس سے اسلامی فکر میں اخلاق کی جو اہمیت سمجھ میں آتی ہے اس بنا پر کہا
جاسکتا ہے کہ قرآن کتاب الاخلاق پہلے اور کتاب القانون بعد میں ہے۔ یہ اس
لیے بھی کہ قانون خود قرآن کے مطابق (المائدہ:48) امتوں کے اختلاف سے مختلف
اور متعدد ہوتا رہتاہے لیکن اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیوں کہ وہ
دین کے بنیادی تصور اور اس کے فریم ورک میں شامل ہوتا ہے۔ بحث کا اصل پہلو
یہ نہیں ہے کہ عبادت اور اخلاق میں کس کو کس پر فوقیت حاصل ہے، بلکہ بحث کا
اصل پہلو یہ ہے کہ ہمارے علمی و سماجی حلقوں میں نظری و عملی سطح پر عبادت
کو جو اہمیت حاصل ہوئی، کیا اس کے مقابلے میں اخلاق کو ضروری اہمیت دی
جاسکی؟ اس کا جواب یقینانفی میں ہے۔ یہ رویہ قرآن کی اس آیت کے سراسر خلاف
ہے کہ :’’ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘
(البقرۃ:208)
دین کے اس ناقص تصور کو پروان چڑھانے میں ہمارے واعظین و مقررین نے اہم رول
ادا کیا۔ انھوں نے عام طور پر عبادات، اسلام کے ثقافتی مظاہر، اسلام کے
معاشرتی امتیازات و خصوصیات وغیرہ کو زیادہ موضوع بنایا اور عوام کو اس پر
کاربند ہونے کی زیادہ شدت کے ساتھ تلقین کی۔ اس کے مقابلے میں انھوں نے
اخلاقیات پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک
عبادات، معاشرت اور اسلامی شناخت کا معاملہ ہے، پوری طرح ان کی شخصیت خود
اس سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، لیکن جہاں تک اپنے وسیع مفہوم کے اعتبار سے
اخلاق کا معاملہ ہے، ان میں خود اس قبیل کے بعض افسوس ناک اخلاقی عیوب پیدا
ہوگئے ہیں۔ اجتماعی اخلاق کے تعلق سے ایسی چیزیں کم ہیں جن کے بارے میں
عوام ان پر، ان کی ظاہری شناخت کو نگاہ میں اور ان کی قدروعظمت کو دل میں
رکھنے کے باوجود، ان پر کلی طور پر اعتماد کرسکیں۔
اس کا اندازہ اسلامی اداروں کی سرپرستی کرنے والی شخصیات کی نجی زندگی کے
اسلوب و انداز اور ان کے ماتحتوں کی بے چارگی اور شکایات کو سن کر بہ آسانی
کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں عوام کو اس بات پریقین نہیںہے کہ مذہبی طبقہ
اقتدار میںآنے کے بعد زیادہ بہتر طو ر پران کے فلاح وبہبود کے لیے کام
کرسکے گا۔ یہ بھی اخلاقی کمزوری کی بات ہے کہ مذہبی طبقہ کے افراد دوسروں
پر تو دین و اخلاق کے حوالے سے تنقید و سرزنش بلکہ ملامت تک کو روا رکھتے
ہیں لیکن جب خود ان پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ اسے دین اور اہلِ دین کے
خلاف سازش تصور کرنے لگتے ہیں۔ حالاںکہ یہ بات عین فطری ہے اور اس لیے
قابلِ حیرت نہیں ہے کہ ہر طبقے میں ایک تعداد بہرحال ایسے لوگوں کی ہوتی
ہے،مفاد پسندی کی بنا پر جس کی اخلاقی حس کمزور ہوگئی ہو۔اہم بات یہ ہے کہ
ہر طبقے کے اندر تنقید ذات (self criticism) او ر محاسبے (introspection)
کا مزاج اور ماحول باقی رہنا چاہیے تاکہ غلط اور منفی رجحانات کی اصلاح کا
عمل جاری رہ سکے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کی مثال قابلِ غور ہے کہ ان پر
ایک معمولی بڑھیا تک تنقید کردیتی تھی۔ایک معمولی آدمی یہ کہنے کی جرأت کر
سکتا تھا کہ اے عمر ہم تمہار ی کجی کو تلوا ر سے ٹھیک کر دیں گے۔بدقسمتی سے
مسلم معاشرے میں اصلاح کا عمل مدتوں سے سست پڑا ہے۔ اس کی وجہ سادہ طور
پراصلاح کا فریضہ انجام دینے والے افراد( اور ان میںظاہر ہے صرف علما اور
روایتی دین دار لوگ ہی شامل نہیں ہیں) کے اندر بڑے پیمانے پر پایا جانے
والا یہ احساس ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ خرابیاں اور اجتماعی بگاڑ
اصلاً یاتو ’’غیروں‘‘ کے اندر پایا جاتا ہے یا انہی کی دین ہیں۔ محاسبے اور
اصلاح کی کوششوں کی بجائے ہمارا اصل نشانہ ان الزامات کا دفاع ہوتا ہے جو
ہمارے خیال میں دوسروں کی طرف سے ہم پر لگائے جاتے ہیں۔کسی قوم کی سب سے
بڑی قوت اس کی اخلاقی قوت ہوتی ہے۔ اس کی عظمت کی تاریخ اسی اخلاقی قوت سے
لکھی جاتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے واقعات میں لوگوں نے بدر و حنین
کو زیادہ نمایاں کیا اور صلحِ حدیبیہ اور فتح مکہ کے حوالے سے عظیم اخلاقی
قوت کے نشانات کو نسبتاً نظروں سے اوجھل کردیا۔فلپ کے حتی نے یہ بڑی بامعنی
بات اپنی کتاب’’ہسٹری آف دی عربس‘‘ میںلکھی ہے کہ جہاں محمد کی تلوار ناکام
ہوگئی، وہاںقرآن نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ دراصل اس میں اسلام کی اسی اخلاقی
قوت و عظمت کا اعتراف ہے۔ اسلام کی قدیم اور ابتدائی تاریخ میں اصحابِ رسول
میں اور بعد کے ادوار میں صوفیہ کے اندر اخلاقی قوت و عظمت کے بے پناہ اور
نمایاں نقوش نظر آتے ہیں۔
اجتماعی اخلاقیات کا پہلا اصول یا بنیاد وہ ہے جس کا ذکر حدیث میں ان لفظوں
کے ساتھ آیا ہے کہ: ’’تم دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو، جو تم اپنے لیے
پسند کرتے ہو۔‘‘ (مسلم:کتاب الایمان،فتح الباری 1/71) ہمارے لیے سوچنے کا
اور محاسبے کا اہم مقام ہے کہ کیا غیر مسلم ممالک میں ہمیں جو حقوق حاصل
ہیں وہ ہم مسلم ملکوں میں غیر مسلموں کو دینے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ مغربی
ملکوں میں چرچ تک کو خرید کر اس کی جگہ پر مسجد قائم کرنے کے واقعات بکثرت
موجود ہیں۔ آئے دن نئی مساجد اور اسلامی مراکز کے قیام و افتتاح کی خبریں
شائع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن کسی مسلم ملک میں چرچ یا کسی مذہب کی عبادت گاہ
کا قیام وہاں بحث و مباحثے کا اہم موضوع بن جاتا ہے۔ کچھ عرصے قبل یمن
میںایک چرچ قائم ہوا تو لندن سے (جی ہاں لندن سے کیوں کہ اسلامی ملک میں اس
طرح کے آزادی فکر کے حامل پرچے کی اشاعت ممکن نہیں) شائع ہونے والے ایک
عربی پرچے (البیان) میں اس ہیڈ لائن کے ساتھ اس خبر پر نہایت جارحانہ تبصرہ
کیا گیا کہ : ’’ابرہہ کا نیا قائم کردہ معبد‘‘ اور اس طرح کے مظاہر کو
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ معقولیت کی بات یہ ہے کہ
مسلم ملکوں میں یا تو باضابطہ لمبے عرصے تک قیام کی غیر مسلموںکو قیام کی
اجازت ہی نہ دی جائے(لیکن مسلم ملکوں کی غیر مسلم ملکوں خصوصاً دنیا کی بڑی
طاقتوں پر انحصار نیزسہولت اور عیش پسندی کی وجہ سے یہ بظاہر نہایت مشکل
ہے) ورنہ دوسری صورت میں اخلاقی تقاضا ہے کہ ان کے مذہبی جذبات کا احترام
کرتے ہوئے ان کے مطالبے پر انہیں اپنی عبادت گاہ کی تعمیر کی اجازت دی
جائے۔ بعض احیائی فکر رکھنے والی جماعتوں کے افراد کا یہ رویہ بھی قابلِ
غور ہے کہ وہ مغرب، مغربی تہذیب بلکہ کہنا چاہیے کہ مغرب سے منسوب ہر چیزکے
ناقد ہیں۔ لیکن اپنی تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے وہ مغرب کی ہی سرزمین
میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ وہاں حاصل اور اسلامی ملکوں میں مفقود
مختلف قسم کی مادی و معنوی آسائشوں سے محظوظ ہوتے ہیںلیکن دوسری طرف مغرب
سے ان کی نفرت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس تضادِ عمل پر ہمارے حلقوں میں
مکمل سکوت ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر چھوٹا بڑا قرآن کی اس آیت کو
کہ :’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو،
عدل کرو‘‘(المائدہ:8) اور دوسری عدل پسندی پر ابھارنے والی آیات کو اسلام
کی انصاف پسندی کی تعلیمات کے لیے نقل کرتا ہے۔ لیکن جہاں تک عمل کا معاملہ
ہے، ہم اس میں بہت پیچھے ہیں۔
بہرحال اسلام کے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کے حوالے سے ہمیں اپنی صورت حال
کا جائز ہ لینے کی ضرورت ہے کہ کمی کہاں ہے اور اصلاح کی کہاں ضرورت ہے اس
کے بغیر ہم خود غیرمسلم ،خصوصاً مغربی ملکوں میں آباد مسلمانوںکے حق میں
ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف موثر طور پر آوازبلند نہیں کر سکتے۔ |