میں اپنی کسی تحریر میں عرض کر
چکا ہوں‘ کہ کام کے پیچھے موجود غرض و غایت کے حوالہ ہی سے‘ ثمرات ہاتھ
لگتے ہیں۔ تحقیق کا حقیقی مقصد تو یہ ہوتا ہے‘ کہ اس سے کچھ نیا دریافت ہو
اور وہ نئ دریافت‘ بنی نوع انسان کے لیے سکون اور آسودگی کا باعث بنے۔
عمومی اور خصوصی سوچ میں‘ بالیدگی پیدا ہو۔ جب سوچ کا محور پیسہ‘ حصول جاہ
یا شو شا اور نوکری کا حصول رہا ہو‘ تو انسانی آسودگی اور سوچ کی بالیدگی
حرف ثانی بھی نہیں رہ پاتی۔ خودغرضی‘ مطلب بری‘ چھینا جھپٹی اور مزید کی
ہوس میں‘ ہر چند اضافہ ہی ہو گا۔ درس گاہیں تماشہ بن جاءیں گی۔ وہاں ٹھرک
بھورنا یا ٹھرک سے بڑھ کر‘ دیکھنے سننے کو رہ جاءے گا۔ علی گڑھ برصغیر کا
صف اول کا تعلیمی ادارہ‘ اگر سرور عالم راز صاحب کے بیان کیے گیے ناک نقشے
کا رہ جاءے گا‘ تو باقی کا تو الله ہی حافظ ہے۔
پی ایچ ڈی سطع کے کام‘ ٹوٹل پورا کرنے کے مترادف رہ جاءیں گے‘ تو اس کے بعد
تو کچھ کہنے کو باقی نہ رہے گا۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ نتھی ہو جانے
سے‘ علمی فضیلت میں اضافہ نہیں ہو جاتا۔ ہمارے ایک ملنے والے پی ایچ ڈی
کرنے سے پہلے‘ علامہ صاحب عرف رکھتے تھے۔ کچھ ہی پہلے میری ان سے ملاقات
ہوئ اور میں انہیں علامہ صاحب کہہ کر مخاطب ہوا۔ انہوں نے مجھے زہریلی
نظروں سے دیکھا اور اٹھ کر چلے گیے۔ حیرت ہوئ کہ آخر ناراض کیوں ہو گیے
ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست سے ماجرا کہا۔
انہوں نے زوردار قہقہ لگایا۔ سمجھ میں کچھ نہ آیا‘ آخر میں نے کون سا کسی
پٹھان یا سردار کا لطیفہ سنایا ہے‘ جو مسکرانا کی حدوں کو پھاند رہے ہیں۔
معلوم ہوا موصوف پی ایچ ڈی کر گیے ہیں‘ لہذا انہیں ڈاکٹر کہلانا خوش آتا
ہے۔ پی آیچ ڈی کرنے کا آخر فاءدہ ہی کیا‘ جو لوگ دوبارہ سے پرانا دیسی
سابقہ استعمال میں لاءیں۔ علامہ بھی اگرچہ برصغیر سے متعلق نہیں ہے‘ چوں کہ
مستعمل ہو گیا ہے‘ اس لیے دیسی لگتا ہے۔ آج چوں کہ انگریز کا طوطا بولتا
ہے‘ اس میں چاشنی اور جازبیت کا عنصر مرزا غالب ہے‘ اس لیے بگڑنا‘ لایعنی
اور بے معنی نہیں۔
جب وہ صاحب اگلی بار ملے تو میں نے بصد احترام جناب پی ایچ ڈی صاحب کہہ کر
مخاطب کیا۔ اس سے بڑھ کر سعادت مندی اور ٹی سی کیا ہو سکتی تھی‘ کہ ایک
ساتھ جناب کا سابقہ اور صاحب کا لاحقہ استعمال کر ڈالا۔ چاہیے تو تھا کہ
بڑے خلوص سے ملتے‘ بلاجواب سوال‘ قیامت خور نگاہوں سے دیکھتے ہوءے‘ قریب کی
مسجد کے غسل خانے میں‘ جوتوں سمیت چڑھ دوڑے۔ میری اردو پر خفا ہونے کی
ضرورت نہیں‘ طہارت گاہ کے لیے‘ لفظ غسل خانہ بھی مستعمل ہے۔ مجھے حیرت ہوئ
آخر اب کیا غلطی یا غلطان سرزد ہو گیا ہے۔ میرے ایک مغربی پرفیسر دوست ہوا
کرتے تھے۔ ایک بار میں نے انھیں ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارا ۔ انھوں نے نیم
ناراضگی کی حالت میں فرمایا: حسنی صاحب میں پروفیسر ہوں۔ آپ یہ ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر صاحب کہہ کر کیوں مخاطب کر رہے ہیں۔ ان کا غالبا‘ ہو سکتا ہے یقینا
یہ کہنا ہو‘ یہ تو ایسے ہی ہے‘ جیسے کسی کو ہیلو ایف اے صاحب یا ہیلو بی اے
صاحب کہہ کر پکارا جاءے۔ لکھنے میں بھی اس طرح آنا چاہیے:
پروفیسر صابر آفاقی پی ایچ ڈی۔
اصل میں نفسیاتی عارضہ ہے‘ کہ ہم کچھ کر لینے کے بعد‘ تفاخر کا شکار ہو
جاتے ہیں حالاں کہ آگہی عجز سے سرفراز کرتی ہے۔ ڈگری اس امر کی گواہ ہوتی
ہے‘ کہ یہ شخص عجز سے سرشار ہو گیا ہے۔ یہاں معاملہ ہی برعکس جا رہا ہے۔ پی
ایچ ڈی کے بعد تکبر کی‘ آسمان سے باتیں کرتی روڑی لگ جاتی ہے۔ مجھے ایک قصہ
سا یاد آگیا ہے۔ ایک صاحب جو ایم فل کر رہے تھے‘ انھیں مارفونیات پر
اسءنمنٹ دے دی گئ۔ سیدھا سادا لٹریچر پڑھانے والا کالج پروفیسر‘ لسانیات کی
اس اوکھی سی اصطلاح کو کیا جانے۔ جب انھوں نے دریافت فرمایا کہ جناب یہ کس
چڑیا کا نام ہے تو ڈاکٹر صاحب بپھر گیے۔
کہنے لگے میرا امتحان لیتے ہوءے‘ تمہیں شرم آنی چاءیے۔ اب شکل گم کرو۔
ایک صاحب سے کہا گیا‘ میجک ان ریسرچ پر اسءنمنٹ لکھ کر لاؤ۔ انھوں نے بھی
پوچھا تو جواب ملا: پہلے کام کرکے لاؤ‘ پھر سوال جواب کرنا۔ یہ معاملہ سمجھ
سے باہر ہے‘ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
آج کل مقالے لکھ کر دینے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ جناب سرور عالم راز کو
بھی‘ میری طرح اس فعل بد کا افسوس ہے۔ ان کے افسوس سے لوگ ناراض ہو جاتے
ہیں۔ لوگ میری الٹی سیدھی بکواس کو خبط کا نام دیتے ہیں۔ ویسے یہ کاروبار
اچھا ہے‘ دس بیس دن کی نقل بازی سے‘ ایک معقول نہیں‘ معقول ترین رقم ہتھے
چڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں بیمار اور مالی کمزوری سرعت انزال کا سا‘ روپ دھار
چکی ہے۔ سوچتا ہوں اگر میں حرف کاری اوز نقل طرازی کے ہنر سے آگاہ ہوتا‘ تو
باہر کی طرح گھر میں بھی معزز شہری ہوتا۔ کہیں باہر جا کر ترلے لینے کی
ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس سے بیک وقت چار فاءدے میسر آتے
١۔ معززی میرے قدم چومتی
٢۔ گرہ میں کڑکتے کڑکتے نوٹ آتے ہیں۔
٣۔ ملنے والوں میں اضافہ کے سبب کوئ کام نہیں رکتا،
٤۔ مقالہ لکھوانے والا ساری عمر کے لیے کانا ہو جاتا ہے اور وقتا فوقتا
ناجاءز اور صرف ناجاءز کام بآسانی نکلواءے جا سکتے ہیں۔
٥۔ داخلی نتھیا گوڈے لگے نالگے‘ خارجی نتھیا تکمیل مقالہ تک‘ سر سر کا راگ
جنگلہ گاتی رہتی ہے۔ یہ کوئ عام اور گیا گزرا اعزاز نہیں۔
چیز خریدتے وقت مال مات دے جاتا ہے۔ اب اہلیت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ خیر
دکھ کیا کرنا ہے یا ٹنشن کیا لینی ہے۔ میکیش بہت پہلے گا گیا ہے۔
وہ تیرے پیار کا غم اک بہانہ تھا صنم
اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا
بول میں کہیں کمی بیشی نظر آءے تو معافی کا خواستگار نہیں ہوں کیوں کہ اپنی
قسمت ہی کچھ ایسی ہے‘ کہ ربط اور ضبط ٹوٹ گیا ہے۔ یقیں مانءے‘ یہ حافظے کا
قصور ہے۔ کچھ باتیں سچی مچی بھول جاتا ہوں ورنہ ہر وہ بات جو دینی آتی ہو‘
سماج کے مزاج کی طرح دماغ سے دانستہ اور معلوم ہوتے ہوءے بھی بھول جاتا
ہوں۔
|