آپﷺ کی سیر ت کاایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں زبردست قوتِ تاثیر تھی۔
چنانچہ بڑی بڑی شخصیتوں نے اس سے گہرا اثرقبول کیا۔ جن افراد کوآپ کا فیضِ
صحبت نصیب ہوا وہ آپ کے عکسِ کامل بن گے ، آپﷺ میںخداکی یاد ، آخرت کاخوف ،
فنائے نفس اور ایثارو قربانی کے جذبات تھے تویہ جذبات ان کے اندر بھی
ابھرآئے ۔
آپﷺ کے اخلاق وسیرت میں پاکیزگی تھی توان کے اخلاق وسیرت میں بھی پاکیزگی
آگئی ۔ حق کے لیے ان کے پاس بے پایاں اخلاص تھا اور باطل کے مقابلے میں ان
کے اندر بڑی شدت تھی ۔وہ بے یقینی کے عالم سے نکل کریقین کے اس مقام تک
پہنچ گئے جس سے اونچے مقام کا تصورنہیں کیاجاسکتا۔ انھوں نے آپ ﷺ کو رسول
مانا اور اس طرح ماناکہ اس میں شک وشبہ کی کوئی آمیزش نہیںتھی۔ انھیں جس
طرح اپنے وجود پریقین تھا، ٹھیک اسی طرح یہ بھی یقین تھاکہ آپ خدا کے رسول
ہیں ۔ ان کے اس یقین سے دنیا نے قدم قدم پرٹکرلی، لیکن اسے متزلزل نہ کرسکی
۔ وہ آزمائشوں میں ڈالے گئے، ہرطرح ستائے گئے ، قیدوبند کی تکلیفوں سے گزرے
، مال ودولت سے محروم کیے گئے، لیکن ان کے یقین نے ان کاساتھ نہیں چھوڑا ۔
حضرت بلال ؓ نے جب اعلان کیاکہ محمدﷺ خداکے رسول ہیں تومکے کے لڑکے ان کے
پیروں میں رسی باندھ کر شہرکی گلیوں اورکوچوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے۔ ان
کامالک امیہ بن خلف تپتی ہوئی ریت پرانھیں لٹاکر سینے پر پتھر رکھ دیتا کہ
اگرمحمدکا انکار نہ کروگے، اسی حال میں مرجاﺅگے ۔ لیکن اس کے باجود محمدصلی
اللہ علیہ وسلم نے توحید کا جوکلمہ انھیں پڑھایاتھا اس کے سواکوئی دوسرا
کلمہ پڑھنے سے انھوں نے انکارکردیا۔ حضرت خبابؓ کو انگاروں پرلٹا دیاجاتا
جس سے ان کے جسم کی چربی پگھلنے لگتی ۔اس عذاب سے دہکتے ہوئے انگارے ٹھنڈے
پڑجاتے ،لیکن ان کے یقین کی وہ آگ نہ بجھتی جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
روشن کیا تھا۔
نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ نے حضرت حبیب بن زیدؓ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے
کرڈالے ،لیکن ان کے دل کی دنیا جس ایمان ویقین سے آبادتھی اسے نہ نکال سکا۔
وہ ان سے پوچھتا کہ کیا محمدخداکے رسول ہیں ؟ تو پورے یقین کے ساتھ جواب
دیتے کہ ہاں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم خداکے رسول ہیں اورجب وہ یہ سوال
کرتا کہ کیاتم مجھے خداکارسول مانتے ہو تو صاف کہہ دیتے کہ تمہاری ان
خرافات کے سننے سے میرے کان بہرے ہیں۔ حضرت صہیبؓ کواس جرم میں کہ وہ آپ
کوخداکا رسول مانتے تھے، مکہ چھوڑنا پڑا تو انھوںنے اس شان سے ہجرت کی کہ
اپنا سارامال ومتاع مشرکین کے حوالے کردیا اور خالی ہاتھ مدینے پہنچ گئے ۔
جن لوگوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی ¿ رسالت کو تسلیم کیا تھاان کے
نزدیک کسی بات کی صداقت کاسب سے بڑاثبوت یہ تھاکہ وہ آپ کی زبان سے نکلی ہے۔
ان کے یقین کایہ عالم تھا کہ غیب کی جن حقیقتوں کو آپ بیان کرتے وہ ان پراس
طرح ایمان لے آتے جیسے کہ انھوںنے ان حقیقتوں کواپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ آپ
نے معراج کاذکرفرمایا کہ شب کے چند لمحات میں اللہ تعالیٰ آپ کو مکے سے بیت
المقدس لے گیا، وہاں آپ نے نماز پڑھی اور پھرآپ مکے واپس لوٹ آئے ۔ آپ کے
مخالفین کے نزدیک اس واقعہ کی روایت ہی آپ کی تکذیب کے لیے کافی تھی، لیکن
حضرت ابوبکرؓ نے سنا تو کہا:”واللہ لئن کان قالہ لقد صدق“ (خداکی قسم،
اگرآپ نے یہ واقعہ بیان کیاہے تو سچ بیان کیاہے) ۔
حضرت یاسرؓخداکی راہ میں مارے گئے، ان کی بیوی سمیہ ؓکوابوجہل کے نیزے نے
شہید کردیا اور ان کے بیٹے عمارکو لوہے کی زرہ پہناکر چلچلاتی دھوپ میں ڈال
دیاگیا۔ وہ یہ سب کچھ جھیل گئے، کیونکہ ان کے سامنے آپ کایہ ارشاد
تھا:”صبرایااٰل یاسر فان موعدکم الجنة “( صبرکرو اے آل یاسر! تم سے ملاقات
جنت میں ہوگی )۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدرمیں فرمایاکہ” دوڑو جنت کی طرف جو
آسمان وزمین کی طرح وسیع ہے “۔یہ سنتے ہی عمیر بن حمام بے تاب ہوگئے اور
جلدی جلدی اپنے جھولے سے چند کھجور کھانے لگے ، پھر کچھ سوچ کرکہا کہ ان
کھجور وں کے ختم ہونے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی لمبی زندگی ہوگی، چنانچہ فوراً
انھیں اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور میدان جہاد میں جان دے دی۔
جنگ ِ احد میں انس بن نضرؓ ، حضرت سعدؓ سے فرماتے ہیں : خداکی قسم، مجھے
احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو آرہی ہے ۔ یہ کہا اور پھر اسی وقت دشمن
سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ بعد میں لوگوں نے دیکھاکہ ان کے جسم پرنیزے
اورتلوار کے اسّی(۰۸) سے زیادہ زخم تھے۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کاحکم دیا توحضرت عمرؓ گھرگئے اور اپنا
آدھامال لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ گئے اور اپنا کل سرمایہ لاکرسامنے رکھ دیا
اورکہاکہ بیوی بچے اب خدا اور اس کے رسول کے حوالے ہیں۔
غزوہ تبوک کے موقع پر لشکر کے لیے سازوسامان کاکوئی انتظام نہیں ہورہاتھا ۔حضورﷺ
نے فرمایا کہ جوشخص اس لشکرکو مسلح کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر دے گا
۔ ان الفاظ کے سنتے ہی حضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اور لشکر کی ایک ایک ضرورت کا
اس طرح انتظام کیا کہ اونٹوں کے لیے رسیاں اورنکیلیں تک فراہم کردیں ۔
نبی علیہ السلام نے خداکا حکم سنایا کہ انسان نیکی کا مقام اسی وقت
پاسکتاہے جب کہ وہ اپنی بعض محبوب چیزوں سے دست بردار نہ ہوجائے ۔ توحضرت
ابوطلحہ ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرافلاں باغ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے،
اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں اور اسی سے مجھے اس کے اجروثواب کی
توقع ہے ۔
دوآدمی آپﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کرپہنچے، لیکن دونوں میں سے کسی کے
پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ”میں انسان ہوں، تم اپنے
جھگڑے میرے پاس لاتے ہو ،ممکن ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے دعوے کودوسرے سے
زیادہ وضاحت اورچالاکی کے ساتھ پیش کرنے میںکامیاب ہوجائے اورمیں اس کے حق
میں فیصلہ دے دوں ۔ لیکن یادرکھو، اگر اس طرح میں کسی کواس کے بھائی کی
چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی دوں تو وہ اسے ہرگز نہ لے ۔ کیونکہ میںجہنم کی آگ
کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کررہاہوں ۔ “اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ دونوں بے
اختیار رونے لگے اور اپنے اپنے دعوے سے دوسرے کے حق میں دست بردار ہو گئے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کورسول ماننے والوں کا یہ یقین ، یہ ایمان اور یہ
قربانیاں میرے نزدیک آپ کے برحق ہونے کی زبردست دلیل ہیں،کیونکہ آج تک اس
کی کوئی مثال نہیں ہے کہ کسی جھوٹے نے دوسروں کو صداقت کاپابند بنادیا ہو،
کسی خداسے بے خوف انسان نے اپنے ساتھیوں کے اندر اس کاخوف اور خشیت
پیداکردی ہواور کسی پست سیرت آدمی کی صحبت سے لوگوں کی سیرت بلند ہوگئی ہو
۔ جھوٹ انسان کو کم زور کردیتاہے، اس لیے جھوٹے شخص میں یہ طاقت نہیں ہوتی
کہ کسی کوسہارا دے سکے۔ اس کا مقام مصلحِ اخلاق کانہیں ہوتا،بلکہ وہ اس
قابل ہوتاہے کہ اس کی اصلاح کی جائے ۔ ظاہر ہے، جو خود دوسروں کی مدد
کامحتاج ہو، وہ کسی کی دست گیری کیاکرسکتاہے ؟ میدانِ عمل میں جس کے قدم
لڑکھڑا رہے ہوں، ناممکن ہے کہ وہ کسی کم زور اورناتواں جسم میں استقلال
اورثابت قدمی کی روح پھونک دے۔ ٭٭٭
|