عربی زبان میں تزکیہ کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا اور اس
کو نشوونما دے کر پروان چڑھایا جائے۔ ایک اور اصلاح میں تزکیہ کا مطلب یہ
ہے کہ اپنے آپ کو غلط رجحانات، میلانات اور اعمال سے ہٹا کر نیکی اور تقویٰ
کی راہ پر ڈالا جائے۔
اپنا تزکیہ نفس کس طرح کر سکتے ہیں؟
(1 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا خرابیاں اور برائیاں ہیں
اور انہیں دور کرنا۔
(2 اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کونسی اچھائیاں نہیں ہیں اور اس کے
لیے کوشش کر کے اسے اپنے اندر پیدا کرنا۔
اب جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ چاہے گا وہ ان اعمال کا جائزہ لے گا جن سے
برائیاں اس سے دور ہوں اور اچھائیوں کا اس میں اضافہ ہو گا اگر وہ ایسا نہ
کر سکے تو اس میں بھی کامیاب نہیں ہوگا۔
انسانی نفس ان اعمال کو بے فائدہ اور لاحاصل سمجھتا ہے جس کے فوائد اس کے
ذہن نشین نہ ہوں اس لیے تزکیہ نفس کا خیال اسی کے دل میں آسکتا ہے جو کہ یہ
سمجھ لے کہ برائیاں میرے لیے ہلاکت خیز اوراچھائیاں فائدہ مند ہیں۔ اس لیے
انسان کو پہلے تو یہ یقین ہو جائے کہ اللہ نے مجھے جن باتوں سے روکا ہے وہ
اس لیے کہ وہ میرے لیے تباہ کن ہیں اور جن باتوں کا حکم دیا ہے وہ مجھے
دنیوی اور اخروی سعادتوں سے ہمکنار کرنے والی ہیں۔
سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
قَد اَفلَح مَن زکّٰھَاْ وَقَدخابَ مَن دَسَّھَاْ
یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور برباد ہوا وہ جس نے اسے
دبا دیا۔
نفس کا تزکیہ کرنے اور دبا دینے کی تشریح یوں ہے کہ تزکیہ کا مطلب ہے پاک
کرنا، ابھارنا اور نشوونما دینا یعنی جو اپنے نفس کو فسق و فجور سے پاک کر
دے، اس کو ابھار کر تقویٰ اور بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو
نشوونما دے وہ فلاح پائے۔
دَسَّھَا جس کامطب دبا دینے کے ہے وہ یہ کہ نامراد ہوا وہ شخص جو اپنے نفس
میں نیکی کے جذبات کو ابھارنے کی بجائے اس کو دبا دے اور برائی کے رجحانات
کو اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اورنیکیاں اس کے نیچے چھپ جائیں جیسے کہ مٹی
کے نیچے لاش دبا دی جائے۔
ہمارے نفس میں دونوں قسم کی خواہشات دبی ہوئی ہیں۔ نیکی اور برائی۔ برے نفس
کو نفسِ امارہ کہتے ہیں جبکہ نیک نفس کو نفسِ مطمئنہ اور جس نے نیک جذبات
کو غالب کیا اس نے نفس کا تزکیہ کیا اور کامیاب ہوا۔
جب حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو یہ دعا
مانگتے تھے۔ ’’اے رب ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایسا رسول اٹھائیو جو
انہیں تیری آیات سنائے، کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔‘‘
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ خدایا
میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اس کا تزکیہ کر تو ہی بہتر ہستی ہے جو
اس کا تزکیہ کر سکتی ہے تو ہی اس کا سرپرست اور مولا ہے۔
تزکیہ نفس کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسان عملاً اپنے آپ کو برائیوں سے پاک
کرنے اور اچھائیوں سے مزین کرنے کا کام شروع کر دے۔ اور اس سلسلے میں پہلا
قدم یہ کہ اچھائیوں سے الفت اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو۔ نیکی کی کروڑوں
تعریفیں کرکنے سے بھی انسان کا نفس پاک نہیں ہوتا جب تک نیکی کو عملاً
اختیار نہ کرے اور اس طرح وہ اجتماعی دکھ بھی دورنہیں ہوتے جن کا منبع گناہ
ہے۔ |