اسرا ئیل امریکہ کی جاسوسی کر رہا ہے۔

دنیا بھر کی جاسوسی کرنے والا امریکہ کی جاسوسی بھی کی جاتی ہے، اور یہ جاسوسی کوئی اور نہیں اس کا پالتو بلا اسرائیل کرتا ہے، اسرائیل جسے امریکہ اپنا دودھ پلا کر پال رہا ہے، دنیا بھر میں دہشت گردی اور جاسوسی میں اسرائیلی انٹیلیجنس موساد کو کمال مہارت حاصل ہے، کچھ عرصے پہلے دبئی میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ایک فلسطینی رہنما کو ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں دن دھاڑے قتل کیا اور با آسانی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اسرئیلی ایجنٹوں نے جن غیر ملکیوں کے نام کے پاسپورٹ اور دستاویزات استعمال کیئے وہ سب جعلی نکلے۔ وٹیرنر ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل امریکہ میں اپنا جاسوسی کا سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کرچکا ہے۔ اور اس میں اسے یہودی اور غیر یہودی امریکیوں کی مدد حاصل ہے۔ امریکہ میں اسرئیل کی جاسوسی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کوئی امریکی صدر بھی اسرائیلی مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک چند نمائیشی اقدامات کے علاوہ کسی اسرئیلی جاسوس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکی۔ امریکی اسرائیلی ایجنٹوں کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کسی اہلکار کو حلف اٹھا کر گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اہلکار جی بھر کو جھوٹ بولتے ہیں ، نائین الیون کے کیمیشن کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کی،، امریکی اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے حقائق چھپائے اور جھوٹ بولا۔،،

قصور وار ثابت ہونے پر عمر قید ہو سکتی ہے۔ نائین الیون کو اسرائیلی ایجنٹوں کی ایک پوری ٹیم پکڑی گئی تھی۔ لیکن بعد میں ایک اسرائیلی ایف بی آئی کا جعلی ایجنٹ بن کر آیا اور پوری ٹیم کو گرفتار کرکے غائب ہوگیا، اس جاسوسی نیٹ ورک کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ دو ہزار نو میں اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں امریکی سائنسدان کو گرفتار کیا گیا۔یہ سائنسدان امریکی خلائی ادارے "ناسا" اور وائٹ ہاوس میں خدمات سر انجام دے چکا تھا۔ امریکا میں حکام کے مطابق ایک سائنس دان پر جنھوں نے امریکی محکمہ دفاع اور ناسا کی خلائی ایجنسی جیسے اداروں میں کام کیا ہے، جاسوسی کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔امریکا کے محکمہ انصاف کا کہنا تھا کہ سائنس دان سٹیورٹ ڈیوڈ نوزیت نے مبینہ طور پر خفیہ معلومات ایک ایسے شخص کو دینے کی کوشش کی جسے وہ اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے کا افسر سمجھتے رہے۔باون سالہ نوزیت کو جنھیں کبھی اعلیٰ سطح کی سکیورٹی کلیرنس حاصل تھی، اس ایجنٹ کو ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا۔ جاسوسی کے اس "سودے" میں نوزیت نے گیارہ ہزار ڈالر کیش کی رقم قبول کی تھی۔ لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ اس ایجنٹ پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا گیا کہ اسرائیل یا اسرائیل کی طرف سے کسی نے امریکی قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔ان کے خلاف شکایت میں کہا گیا ہے کہ ان کا طور طریقہ سنگین نوعیت کا تھا اور امریکہ کے معاون اٹارنی جنرل ڈیوڈ کرس نے کہا ہے "جو کوئی بھی پیسے کی خاطر ہمارے ملک کے رازوں پر سودا بازی کرنے کا سوچے گا اس کے لیے یہ وارننگ کافی ہونی چاہیے۔"ایک حلف نامے کے مطابق نوزیت سنہ نواسی سے نوے کے درمیان وائٹ ہاؤس میں نیشنل سپیس کونسل میں کام کرتے رہے اور اسی دوران انھوں نے ریڈار بنا کر تجربے کے ذریعے دکھایا کہ چاند پر پانی کے آثار پائے جاتے ہیں۔اس کے بعد وہ دس برس تک لیبارٹری میں کام کرتے رہے اور سنہ دو ہزار میں انھوں نے امریکی حکومت ، پینٹاگون اور ناسا کے لیے انتہائی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی تیار کی۔ایک بیان میں محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ سنہ انیس سو نواسی سے دو ہزار چھ تک نوزیت کو باقاعدگی سے خفیہ معلومات تک رسائی حاصل تھی کیونکہ انھیں حد درجہ بلند سطح کی سکیورٹی کلیرنس مل چکی تھی۔ ان کی رسائی ایسی خفیہ دستاویزات تک بھی تھی جن کا امریکی دفاع سے تعلق تھا۔ گرفتاری سے قبل ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے بھیس بدل کر نوزیت سے رابطہ کیا اور خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا افسر ظاہر کیا۔ نوزیت نے مبینہ طور پر اس ایجنٹ سے کہا کہ وہ اسے (ایجنٹ کو) اسرائیلی پاسپورٹ اور مال کے عوض باقاعدگی کے ساتھ خفیہ معلومات سے متعلق سوالوں کے جواب دیں گے۔ دوران سائنس دان نے ایجنٹ کو جوابی خطوط دیئے جن میں "انتہائی خفیہ" معلومات تھیں جن کا تعلق امریکہ سیٹلائٹس سے تھا۔ اس کے علاوہ یہ معلومات پیشگی خبردار کرنے کے نظام، دفاعی نظام، بڑے حملے کو پسپا کرنا، اطلاعاتی انٹیلی جنس اور دفاعی حکمتِ عملی کے بعض عناصر سیمتعلق تھیں چاند پر پانی کی موجودگی کا انکشاف کرنے والی ٹیم کے ایک رکن اور امریکا کے سرکردہ خلائی سائنسدان نے کہا ہے کہ وہ اپنے اوپر اسرائیل کے لئے جاسوسی کے لگنے والے الزام میں بے قصور ہیں. ان پر ایک امریکی عدالت میں اسرائیل کو بیس لاکھ ڈالرز کے عوض امریکا کے دفاع راز فروخت کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے.عدالت کے جج ڈیبوراہ رابنسن نے خلائی سائنسدان اسٹیوارٹ ڈیوڈ نوزیٹے کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ وہ ہوائی سفر کے ذریعے ملک سے راہ فرار اختیار کر سکتے ہیں، اس لئے انہیں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت تک جیل ہی میں رکھا جائے.سٹیوارٹ کو ایف بی آئی نے ایک خفیہ کارروائی کے بعد 19 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا.باون سالہ سٹیوارٹ نوزیٹے کے خلاف اسرائیلی انٹیلی جنس آفیسر کا روپ دھارنے والے ایف بی آئی کے ایک خفیہ ایجنٹ کو دفاعی راز فروخت کرنے اور جاسوسی کے دو الزامات پر فرد جرم عاید کی گئی ہے.اگر ان پر یہ جرم ثابت ہو گیا تو انہیں سزائے موت ہو سکتی ہے یا پھر انہیں عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا.مقدمے کے شواہد کے مطابق فیڈرل پراسیکیوٹر ہیتھر شمڈٹ نے عدالت کو بتایا کہ ''مدعا علیہ کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں''.استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی دستاویز میں اسٹوارٹ نوزیٹے پر صرف بیس لاکھ ڈالرز کے عوض جاسوسی کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے''.استغاثہ کے مطابق انہوں نے نقد رقوم اور غیر ملکی پاسپورٹ کے عوض ایک ایسے فرد کو خفیہ معلومات مہیا کی تھیں، جسے وہ اسرائیلی انٹیلی جنس کا افسر خیال کر رہے تھے.امریکی حکومت کی جانب سے عدالت میں نوزیٹے اور ایف بی آئی اے کے ایجنٹ کے درمیان 19 اکتوبر کو ہونے والی گفتگو کے اقتباسات ریکارڈ کی شکل میں پیش کئے ہیں جس میں نوزیٹے مسکراتے ہوئے اسرائیل کے لئے جاسوسی پر مشتبہ قرار پانے کے بعد امریکا سے راہ فرار اختیار کرنے کے مختلف منصوبوں کا تذکرہ کر رہے ہیں.اس روزاپنی آخری گفتگو کے دوران ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹ نے مبینہ طور پر نوزیٹے کو سوبلوں کی شکل میں دس ہزار ڈالرز کی رقم دی تھی جو وہ ایک ہوٹل کے باتھ روم ٹائیلٹ کے ٹینک میں چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا. ایک اور مقدمے میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے امریکہ میں جاسوسی کے الزام میں عمر قید کاٹنے والے ایک اسرائیلی شہری کی رہائی کیلئے امریکی انتظامیہ سے باقاعدہ اپیل کی تھی۔ اسرائیلی شہری جوناتھن پولارڈ کی رہائی کیلئے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے باضابطہ اپیل پر مشتمل خط امریکی صدر براک اوباما کو روانہ کیا گیا تھا۔ امریکہ میں قید جوناتھن پولارڈ کی اہلیہ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم سے ملاقات کرکے اپنے شوہر کی جانب سے ان کے نام لکھا گیا ایک خط پہنچایا تھا۔ ملاقات کے بعد نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ پولارڈ کی رہائی کیلئے امریکہ سے باضابطہ اپیل کریں گے۔ جوناتھن پولارڈ بنیادی طور پر امریکی شہری ہیں اور وہ امریکہ کی بحری انٹیلی جنس میں تجزیہ کار کے طور پر تعینات تھے۔ 1985میں امریکی سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی گرفتاری کے بعد پولارڈ نے دورانِ تفتیش اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ حکام کی جانب سے یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ پولارڈ نے امریکہ کے کون سے راز اسرائیل کے حوالے کیے تھے تاہم یہ گمان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی حکام کو ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات تک رسائی فراہم کی تھی۔اسرائیل کیلئے جاسوسی کا جرم ثابت ہونے پر ایک امریکی عدالت کی جانب سے پولارڈ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد اسرائیلی حکومت کی جانب سے 1995 میں پولارڈ کو اسرائیل کی شہریت عطا کی گئی تھی۔ حال ہی میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق 56 سالہ پولارڈ آج کل شدید علیل ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ سے پولارڈ کی رہائی کی اپیل کرنے کو اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔۔اسرائیل کے لئے کام کرنے والا امریکی شہری جوناتھن پولاڈ اسرائیلی جاسوس نکلا، جوناتھن اسرائیل کا ایسا جاسوس تھا جو عرب دنیا اور پاکستان کے راز بھی سرائیل کو دیتا رہا ہے۔ اسرائیلی جاسوس پاکستان اور سعودی عرب کے لئے مواد اکھٹا کرتا تھا۔ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کی پاداش میں عمرقید کے امریکی ملزم شہری جوناتھن پولاڈ پاکستان اور عرب ملکوں کے ایٹمی پروگرام سے متعلق معلومات جمع کرتا رہا۔ سی آئی اے کے مطابق امریکی بحریہ میں کام کرنے والا جوناتھن پولاڈ 1985 میں امریکا میں اسرائیلی سفارتخانے میں پناہ لینے کی کوششوں کے وقت گرفتار ہوا اور اسے اسرائیل کو دفاع سے متعلق خفیہ راز دینے پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔جاری دستاویزات کے مطابق جوناتھن پولاڈ پاکستان اور عرب ملکوں کے ایٹمی پروگرام میں بارے میں معلومات اکٹھی کرتا رہا۔ 1995ء میں اسرائیل نے اعتراف کیا تھا کہ جوناتھن پولاڈ اسرائیلی جاسوس ہے اور تل ابیب نے پولاڈ کی رہائی کے لیے امریکا سے مختلف فورم پر بات کی ہے ۔جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس بات کا انکشاف ریلیز ہونے والی دستاویز میں کیا گیا تھا۔1984 سے 1985 تک پولارڈ نے اسلامآباد کے قریب واقع ایک نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی معلومات کے کئی سیٹس اسرائیلی حکام کے حوالے کئے اور یہ آفیشل امریکی ڈاکیومنٹ تھے۔پولارڈ، اگرچہ امریکی شہری ہیں لیکن امریکی بحریہ سے وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے لئے جاسوسی کی۔ 1987 انہیں اسی بنیاد پر عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ 14 دسمبر، 2012 کو سیآئی اے نے ایک خفیہ دستاویز جاری کی جس کا نام ' جوناتھن جے پولارڈ جاسوسی کیس، نقصان کا اندازہ' ہے اور یہ رپورٹ 30 اکتوبر 1987 کو تیار کی گئی تھی۔یہ دستاویز، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی آرکائیو پروجیکٹ کی اپیل پر جاری کی گئی ہے جس میں پولارڈ کے جاسوسی مشن پر معلومات موجود ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد امریکہ میں خفیہ اور در پردہ معلومات کو کم سے کم کرکے لوگوں اس کی لوگوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔پولارڈ کیخلاف عدالتی کارروائی میں سابق امریکی وزیرِ دفاع کیسپر وائنبرگر نے بتایا تھا کہ پولارڈ کو جو خفیہ دستاویز دی گئیں ان سے چھ فٹ چوڑا، اتنے ہی فٹ لمبا اور دس فٹ اونچا کمرہ بھرا جاسکتا ہے۔سیآئی اے کی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پولارڈ کو عرب ( اور پاکستانی ) نیوکلیئر پروگرام، عرب ممالک کی جانب سے باہر سے خریدے گئے ہتھیاروں اور کیمیائی اسلحے، سوویت جنگی ہوائی جہاز، سوویت ایئر ڈیفینس سسٹم، فضا سے فضا تک مارکرنیوالے میزائلوں اور عرب افواج کی تیاریوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔دستاویز میں بڑا حصہ وہاں سے سینسر کیا گیا ہے جس میں پولارڈ کی جاسوسی کا اسرائیلی فائدے پر بحث کی گئی ہے۔ صفحہ 58 پر لکھا ہے کہ پولارڈ نے اسرائیل کیلئے مٹیریل بھی چْرایا اور کافی فوائد۔۔۔ ( سینسر)۔پھرصفحہ 59 پر لکھا ہے ( سینسر) پولارڈ نے تیونس میں پی ایل او ہیڈ کوارٹر سے متعلق معلومات بھی دیں۔ ساتھ ہی تیونس اور لیبیا کے ایئر ڈیفینس کے بارے میں معلومات فراہم کی اور اسلامآباد کے قریب پاکستان کے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ پر بھی دستاویز فراہم کی تھیں۔اکتوبر 1985 میں اسرائیل نے ان معلومات کی بنا پر تیونس میں واقع پی ایل اور کے صدر دفاتر پر حمہ کیا تھا۔

آرکائیو کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی دستاویز میں تقریباً دس جگہ پاکستان اور اس کی ایٹمی تنصیبات کا ذکر ہے جسے مٹایا گیا ہے۔ بعض ڈاکیومینٹس میں افغان جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔اگرچہ سی آئی اے کی دستاویزات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کتنا کچھ جانتے تھے لیکن اسی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ دوسری دستاویز میں ایسا نہیں ہے۔ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ 1980 کے عشرے میں امریکی یہ جانتے تھے کہ پاکستان ایٹمی میدان میں خاصی پیش رفت کررہا ہے لیکن افغانستان میں جاری سوویت جنگ میں اسلام آباد کی حمایت کے بدلے پاکستان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پھر جولائی 1982 میں ریگن حکومت نے سیآئی اے کے سابق نائب سربراہ جنرل ورنن والٹرز کو جنرل ضیا الحق کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں ایٹمی پروگرام میں پاکستانی کی خفیہ اور تیز رفتار پیش رفت پر واشنگٹن کی تشویش سے آگاہ کیا جاسکے۔پھر 1986 میں آرمز کنٹرول اور ڈسآرمامنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر، کینتھ ایڈلمان نے بھی وائٹ ہاوس کو خبردار کیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے اسرائیلی جاسوس کی رہائی کیلئے صدر شمعون پیریز کی اپیل مسترد کر دی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ٹومی ویٹر نے اپنے ویب سائٹ بیان میں کہا کہ اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کو عمر قید کی سزا دینے کے بارے میں ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے صدر اوبامہ کو پولارڈ کی رہائی کیلئے تحریری درخواست دی ہے تاہم ہمارا موقف ہے کہ اس حوالے سے پہلے جیسا ہے۔ دریں اثناء اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کے مطابق شمعون پیریز نے اپنی اپیل پولارڈ کی صحت کو بنیاد بنا کر کی ہے۔ اپنی اپیل میں انہوں نے کہا کہ پولارڈ کی اہلیہ نے اس کی بگڑتی ہوئی صحت بارے صدر کو آگاہ کیا ہے جبکہ شہریوں کی اکثریت بھی پولارڈ کی رہائی کیلئے صدر سے استدعا کی ہیسرائیلی کابینہ کے کئی ممبران نے امریکہ کی جانب سے اسرائیلی رہنماؤں کی جاسوسی کی خبروں کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ امریکی جیل میں قید اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کو رہا کرے۔سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے لیک کی جانے والی تازہ دستاویزات کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے اسرائیلی رہنماؤں کی بھی جاسوسی کی تھی۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اسرائیلی رہنماؤں کی امریکہ کی جانب سے جاسوسی کی خبروں کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ جوناتھن پولارڈ امریکی بحری انٹیلی جنس میں تجزیہ کار تھے۔ ان کو 1987 میں اسرائیل کے لیے جوسوسی کے الزام میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ اسرائیل نے کئی بار امریکی صدور سے پولارڈ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان صدور نے ان کو معافی دینے سے انکار کیا ہے۔ ایک اور ایسا ہی کیس جس سے گمان ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنے شہریوں کو اسرائیل کے ہاتھ بیچ ڈالا ہے۔ وہ رچرڈ سنٹون کا ہے۔ رچرڈ سنوڈن کا نیا تہلکہ خیز انکشاف 12ستمبر کو امریکی حکومت کے ’’غدار‘‘ رچرڈ سنوڈن نے ایک اور انکشافاتی دھماکہ کرڈالا۔ اس نے برطانوی اخبار، گارڈین کو ایک خفیہ معاہدے کی نقل فراہم کی جو 2009ء میں امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے مابین طے پایا تھا۔ اِس خفیہ معاہدے کے ذریعے امریکیوں نے اسرائیلیوں کو اْس اربوں میگا بائٹ ڈیٹا تک رسائی دے ڈالی جو امریکہ کی سب سے بڑی امریکی خفیہ ایجنسی، این ایس اے(National Security Agency ) اپنی عوام اور غیرملکیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کرتی ہے۔ اس ڈیٹا میں عوام وخواص کی موبائل فون کالوں، ای میلز اور انٹرنیٹ پہ سرچنگ کا ریکارڈ شامل ہوتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اسرائیلی بھی امریکہ میں اپنے شکار دریافت کر سکیں۔ ایک اور خفیہ دستاویز سے اسرائیل اور امریکہ کے عجیب وغریب رشتے کا اتا پتا ملتا ہے جو بیک وقت دوستی و مخاصمت پہ استوار ہے۔۔ دستاویز میں این ایس اے کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ جملہ درج ہے: ’’اسرائیلی دنیائے انٹرنیٹ وموبائل میں جاسوسی کرتے ہوئے ہمارا بہت ہاتھ بٹاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ ہمیں بھی ٹارگٹ کرتے ہیں تاکہ مسئلہ مشرق وسطی کے سلسلے میں ہمارے خیالات و نظریات جان سکیں۔ ‘‘اسی دستاویز میں این ایس اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد کو ’’امریکہ کے خلاف شدومد سے کام کرنے والی تیسری بڑی انٹیلی جنس سروس قرار دیا۔‘‘ درج بالا معاہدہ اوردستاویز منظرعام آنے پہ امریکہ میں خاصا ہنگامہ برپا ہے۔ معاشی زوال کا شکار امریکہ میں پہلے ہی کئی امریکی شہری اسرائیل کو اپنی تباہی کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے : ’’اسرائیلی حکومت ہی نے امریکہ کو جنگوں میں الجھایا اور خود اس کا کام فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ وہ ہماری ساتھی نہیں دشمن ہے جسے امریکی حکومت ہرسال اربوں ڈالر کی امداد دے ڈالتی ہے۔ ‘‘ امریکی عوام اپنی حکومت کی منافقت بھی عیاں کرنے پہ جتے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی بریڈلے مینینگ ، رچرڈ سنوڈن، مائیکل ہیسٹنگز (صحافی) اپنی حکومت کی غیرقانونی وغیرانسانی سرگرمیاں افشا کرے، تو وہ غدارا ور وطن دشمن قرار پاتا ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اپنے عوام کے نجی راز خود امریکی حکومت نے اسرائیلیوں کے حوالے کردیئے۔ دنیا میں ایسی بے ضمیر حکومتیں کم ہی ہیں جو اپنے شہریوں کو یوں بیچ ڈالیں۔ امریکہ کا مشہور صحافی، ایلین برگ اپنے کالم میں لکھتا ہے :’’پہلے تو امریکی شہری اپنی وسیع وعریض خفیہ ایجنسی ، این ایس اے چلانے کے لیے اربوں ڈالر ادا کرتے اور اس دوران خود کو صحت وتعلیم کی سہولیات سے دور کرڈالتے ہیں۔ پھر یہی ایجنسی غیرقانونی طورپر امریکی شہریوں سے متعلق بے پناہ معلومات جمع کرتی ہے۔ پھر امریکی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساری معلومات ایک غیرملک کو مفت دے ڈالتی ہے۔ یہ سارا معاملہ صرف ایک لفظ سے بھی بیان کرنا ممکن ہے …غداری۔ ‘‘ امریکہ میں باشعور لکھاری اپنے عوام پر زور دے رہے ہیں کہ وہ نیند سے جاگ کر اپنی حکومت کی ناجائز سرگرمیوں پہ آواز اٹھائیں۔ تاہم ایک کالم نگار امریکی عوام کی بے حسی پہ کچھ یوں طنز کر گیا : ’’امریکی عوام اسی وقت جاگتے ہیں جب اگلا آئی فون آجائے۔ تب سٹورز کے سامنے صبح سویرے لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ آئی فون خرید کروہ برگرو بوتل پکڑتے اور مزے سے پیٹ بھرتے یہ دیکھنے لگتے ہیں کہ اب اگلی کون سے گرما گرم (HOT)مصنوعات آنے والی ہے۔پھر وہ واپس وادیِ نیند میں جاپہنچتے ہیں۔‘‘ گویا بقول حبیب جالب رقص ِآتش و آہن،دیکھتے ہی جاؤ گے دیکھتے ہی جاؤ گے،ہوش میں نہ آؤ گے۔ اسرائیل ایک طرف تو امریکہ کا پالتو ہے لیکن دوسری جانب اسرئیل امریکہ کو آنکھیں بھی دکھاتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ نے امریکہ سے اسرائیلی رہنماؤں کی جاسوسی فوری روکنے اور پولارڈ کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا:’امریکہ منظم طریقے سے اسرائیل کے سیاسی اور سکیورٹی کے رہنماؤں کی جاسوسی کر رہا ہے۔‘اسرائیل کے وزیر برائے سیاحت نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’پولارڈ کو اسرائیل لانے کا اس سے بہتر موقع کوئی نہیں ہو سکتا۔‘تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ پولارڈ پر بات چیت کے لیے کسی خاص موقعے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں تواتر سے پولارڈ کا ایشو اٹھایا ہے اور ’امید ہے کہ صورتحال ایسی پیدا ہو جائے گی کہ پولارڈ کو رہا کردیا جائے گا۔ لیکن اس بات کا تعلق تازہ صورتحال کے ساتھ نہیں ہے۔‘دوسری جانب ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے لیک کی گئی دستاویزات میں حال ہی میں یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ این ایس اے اور برطانوی تنظیم جی سی ایچ کیو نے 2009 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور وزارت دفاع کے سینیئر حکام کی ای میل ہیک کی تھیں۔اسرائیل کے وزیر برائے سٹریٹیجک امور نے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے کی جانے والی جاسوسی کو ناقابل قبول قرار دیا۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ ممالک اسرائیل کے اتحادی ہیں لیکن اسرائیل نے یہ سمجھ کر چلتا ہے کہ وہ جاسوسی کریں گے۔سابق وزیر اعظم اولمرٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر جاسوسی کی خبریں درست ہیں تو یہ ای میل ایڈریس حساس نوعیت کا نہیں تھا اور اس لیے اس جاسوسی سے اسرائیل کو بہت کم نقصان پہنچا ہو گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387855 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More