اس کالم کی روداد ملاحظہ ہو
ہم نے ایک کالم لکھا تھا کسی پریشان حال بہن کے حوالے سے اس کا فرضی نام
نیک پروین رکھا تھا ہمارا کالم”نیک پروین کی آنکھیں“ پڑھ کر بے شمار در مند
قارئین نے خطوط لکھے۔ ٹیلی فون کیے، بعضوں نے توجوابی لفافے بھی بھیجے کہ
ہمیں نیک پروین کے پتے ٹھکانے سے آگاہ کیجئے۔ یا ان تک ہمارے یہ نیک جذبات
پہنچا دئیے کہ ہم حاضر ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے نکاح پڑھوا نے کے لیے
تیار ہیں۔ بعضوں نے لکھا کہ نیک پروین کو سمجھائیں کہ وہ آدھی رات کو کھڑکی
میں کھڑی ہو کر ستارے نہ گنا کرے۔ یہ بری بات ہے۔ پولیس کی کسی گشتی پارٹی
نے دیکھ لیا تو مشکوک سمجھ کے اسے گرفتار کرنے آدھمکے گی۔ ایک بزرگوار نے
لکھا کہ الحمداللہ، میرے تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ اب میں کلم کلاہوں۔
نیک پروین کے حالات جان کر دکھ ہوا اگر وہ راضی ہوں تو مجھے مطلع کریں۔ میں
بھی راضی ہوں۔ ایک صاحبہ نے بڑی برہمی سے لکھا کہ آپ نے نیک پروین کی اصل
عمر کیوں لکھ دی؟ گھما پھرا کے بات کرنی چاہیے تھی۔ کیونکہ پوری دنیا کا یہ
اخلاقی دستور ہے کہ عورت چالیس سال کی ہو کر بھی پچیس یا چھبیس سال ہی کی
رہتی ہے۔ اس سے ایک آدھ سال بھی آگے نہیں بڑھتی۔ واقعی اس میں تو کوئی شک
نہیں کہ خواتین کی عمروں کے معاملے میں مرد بے احتیاطی کرتے ہیں۔ ان کی عمر
زیادہ بتاتے ہیں خود بچے بنے رہتے ہیں۔ سینگ کٹا کے بچھڑوں میں شامل رہتے
ہیں۔ خباط لگا کے بچوں میں کرکڑے لگاتے رہتے ہیں حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ
اگر بعض مردوں کی مقفل الماریاں کھول کر ان کی خفیہ درازیں چیک کی جائیں تو
بہت سے نیلے پیلے خطوط کے علاوہ مختلف قسم کے خضابوں کی بھی انگنت شیشیاں
اور ٹیوبیں برآمد ہوں گی۔ اور اگر تلاشی محنت سے لی جائے تو بعض وگیں بھی
مل جائیں گی۔ بہر حال ذکر خضاب آلودہ مردوں کا نہیں نیک پروین کا ہے جس
بچاری کی اب تک شادی نہیں ہوئی حالانکہ شادی کی عمر سے گزرے اسے مدت ہوچکی
،اب اس کا شباب خزاں کی ڈھلتی چھاﺅں ہے۔ پت جھڑ کی اداس شام ہے۔ اور یہ ایک
واحد نیک پروین ہی کا مسئلہ نہیں ہمارے ملک کے لاکھوں گھروں کا مسئلہ ہے بے
شمار ایسی بچار ی نیک پروینیں ہیں جو تمام تر نیکیوں سمیت بابل کی دہلیز یہ
بیٹھی پیا گھر جانے کی منتظر ہیں مگران کے بالوں میں چاندی کے تار بڑھتے
چلے جاتے ہیں اور برات ہے کہ آہی نہیں چکتی۔ یہ کوئی ایک اکیلی نیک پروین
کا مسئلہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ اسے حل کردیتا۔ لیکن مسئلہ
تو ہزاروں لاکھوں بے آس لڑکیوں کا ہے جو حالات اور مسائل کی چکی میں پس رہی
ہیں اوران کا گھر بسنے کی نوبت ہی نہیں آرہی ہے۔
اس کے بے شمار سماجی، اقتصادی اور اخلاقی پہلو ہیں۔ انگنت ایسے اسباب ہیں
جو بظاہر عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ بیٹی
یا بہن کی عمر جب شادی کے لائق ہوجائے تواس کی شادی ہوجانی چاہیے۔ ستم یہ
ہے کہ ہمارے ہاں شادی اب ایک فریضہ نہیں ایک دکھاوا ہے۔ جہیز کی نمائش، بری
کی نمائش، بے انت برقی جھالروں کی نمائش، مہندی کا اصراف بے جا۔ ولیمے اور
رخصتی کی دعوتوں میں ایک دوسرے کا بھاﺅچڑھ جاتاہے۔چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی
ہیں۔سفید پوش ہوں، غریب ہوں، کم آمدنی والے لوگ ہوں۔ سب بچارے پریشان ہیں
کہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کا بندوبست کیسے کریں۔یہی وجہ ہے کہ
لڑکیوں کی عمریں بڑھتی چلی جاتی ہیں انہیں مناسب بر نہیں ملتا۔لڑکوں کے
دماغ عرش کو چھورہے ہیں۔ وہ معمولی شکل و صورت کی، غریب والدین کی بیٹی سے
شادی پر آمادہ نہیں ہوتے۔خود کا رٹون ہوںگے۔ بیوی چاند جیسی مانگیں گے۔یہی
وجہ ہے کہ ہماری بے شمار نیک پروینیں ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ یاس و
ہراس، مایوسی،اور گھٹن ان کی ہڈیوں میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ جب تک اچھے
نوجوان سماجی سطح پر انقلابی قدم نہیں اٹھائیں گے جہیز وغیرہ کی فرسودہ
رسوم کے خلاف عملی جہاد نہیں کریں گے نیک پروینوں کی تعداد بڑھتی رہے گی۔
جن لوگوں نے گہری ہمدردی کے ساتھ نیک پروین کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش
کیں ان کا جذبہ قابل قدر ہے۔ لیکن ہمیں ان سے یہ کہناہے کہ ہمارے ملک میں
بہن نیک پروین کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں کچھ بھائی نیک محمد بھی اس ملک
میں بستے ہیں۔ جن کے لاتعداد مسائل ہیں۔ ان میں پہلا مسئلہ بیروز گاری ہے۔
کسی نیک محمد نے میٹرک پاس کیا ہے۔ کوئی ایف اے ہے۔ کوئی بی اے ہے۔ کوئی
ایم اے ہے۔ یہ نوجوان ہر روز سینکڑوں درخواستیں دیتے ہیں متعدد دفاتر کے
چکر لگاتے ہیں۔ لیکن انہیں نوکری نہیں ملتی۔ جب ہزار جتن کے باوجود بھی
انہیں نوکری نہیں ملتی توان میں جھنجھلاہٹ اور چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتاہے۔
ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ
میرٹ کی کوئی حیثیت نہیںاور عملاً وہی لوگ حصول معاش میں کامیاب ہوتے ہیں
جو کسی نہ کسی طرح سر کار دربار تک رسائی حاصل کرلیں تو پھر نیک محمد بھنا
اٹھتاہے۔ جو سندیں اور ڈگریاں اس نے محنت سے حاصل کی ہیں وہ اسے بیکار
معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اسے ہنستے ہوئے بچے، شاخوں پر کھلے ہوئے پھول اور
چہچہاتے ہوئے پرندے بھی زہر لگنے لگتے ہیں۔ طرب انگیز نغموں پر وہ دانت
کچکچانے لگتاہے۔ دکھی اور آزردہ گیت اسے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا جی
چاہتا ہے وہ کمرہ بند کر کے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے درد بھرے گیت سنے
اوراس کی آواز میں آواز ملا کر گائے۔
بالوبتیاں۔ وے ماہی سانوں مارو سنگلاں نال
نیک محمد ہو یا نیک پروین دونوں ہی ہماری قوم کا سرمایہ ہیں۔ دونوں فریق
ہماری یکساں توجہ کے مستحق ہیں۔ جو بال بچے دار، فارغ البال، صاحبان حال و
قال نیک پروین سے نکاح مسنونہ کے خواہاں ہیں ان سے ہماری گزارش یہ ہے کہ
نیک محمد بھی آپ کی توجہ کے طالب ہیں:
ان پہ بھی ایک عنایت کی نظر ہوجائے۔٭ |