گُذشتہ سے پیوستہ۔
کامل علی جانتا تھا ۔ کہ اگر اِس وقت وُہ گھنشام داس کے چیلوں کو ہاتھ آگیا۔۔۔
۔ تو وُہ اسکی چیر پھاڑ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کریں گے۔۔۔ اسلئے
بدحواسی میں وُہ ایک گھر کے دووازے کھلے دیکھ کر۔۔۔۔اپنی جان بچانے کیلئے
اُس گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ اندر داخل ہُوتے ہی اُس نے دروازے کی کنڈی
لگالی۔۔۔ اُن نوجوانوں نے شائد کامل علی کو اِس گھر میں داخل ہُوتے ہُوئے
نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ اِس لئے بھاگتے قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے دُور ہُوتی
چلی جارہی تھی۔کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے کامل علی کو متوجہ کرتے ہوئے
مُخاطب کیا۔۔۔۔ اے مِسٹر کون ہُو تم۔ اُور گھر میں داخل کیسے ہُوئے۔۔۔۔؟
کامل علی نے بوکھلا کر خاتون کی جانب دیکھا تو۔۔۔حیرت سے اُس کی چیخ نِکل
گئی۔۔۔۔ اُس کی نرگس اُسکے سامنے موجود تھی۔۔۔۔ لیکن نرگس کو دیکھ کر ایک
لمحے کیلئے کامل علی کو ایسا لگا جیسے،، نرگس نے اپنی زندگی کی دس منزلیں
مزید طے کرلی ہُوں۔۔۔۔ اُور اُسکے حُسن میں مزید وقار پیدا ہُوگیا ہُو۔۔۔۔
خاتون نے دوسری مرتبہ جب درشت لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔ تو کامل علی کے مُنہ
سے صرف اتنا ہی جملہ نِکل سکا۔۔۔۔۔ نرگس تُم یہاں۔۔۔۔؟؟؟۔
اَب مزید پڑہیئے۔
نرگس ! کُون نرگس۔۔۔؟؟ اُور مسٹر تم نے بتایا نہیں۔ کہ،، تم میرے گھر میں
اِس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ ؟ دیکھو مِسٹر اگر تُم یہاں چوری کی نیت سے آئے
ہُو۔ تو فوراً واپس لُوٹ جاوٗ۔۔۔ کیونکہ ہمارے گھر میں تُمہیں فی الحال
چُرانے کیلئے کچھ نہیں مِلے گا۔۔۔ اُور دوسری بات یہ ہے۔ کہ اندر میرے
بھائی موجود ہیں۔ جو تمہاری درگت بنانے میں ایک لمحہ بھی تامل نہیں کرے گا۔۔۔۔
وُہ خاتون کامل علی کو بے تکان مشورے دیئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کیا تُم نرگس
نہیں ہُو۔۔۔؟؟ حالانکہ تمہاری شکل تو بالکل نرگس جیسی ہے۔ البتہ تم نرگس کی
عُمر سے کچھ زائد نظر آتی ہُو۔۔۔ اُور باوقار بھی زیادہ دِکھائی دیتی ہو۔۔۔۔
مِسٹر یہ تُم نےکیا نرگس ،نرگس کی رَٹ لگارکھی ہے۔۔۔ میں نرگس نہیں بلکہ
عکشہ ہُوں۔۔۔ لیکن میں تمہیں یہ سب کیوں بتارہی ہُوں۔ اُس خاتون نے چونک کر
خود سے بڑابڑاتے ہُوئے کہا۔۔۔۔لگتا ہے تُم ایسے نہیں مانو گے ۔۔ مجھے اپنے
بھائی کو آواز دینی ہی پڑے گی۔۔۔ اُس باوقار حسینہ نے گویا کامل علی کو
آخری مرتبہ انتباہ کرنے کی کوشش کرتے ہُوئے اندر کی جانب دیکھتے ہُوئے کسی
کو پُکارنے کی کوشش کی۔
اِس سے پہلے کہ،، وُہ خاتون اپنے بھائی کو طلب کرتی۔۔۔۔ کامل علی نے موقع
کی نزاکت کو سمجھتے ہُوئے عکشہ کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھئے محترمہ۔
آپکو شائد کچھ غلط فہمی ہُورہی ہے۔۔۔۔ میں کوئی چُور اُچکا نہیں ہُوں۔۔۔
بلکہ میں ایک مسافر ہُوں۔ اُور میرے پیچھے کچھ غنڈے پڑے ہیں۔۔۔ وُہ شائد
مجھے اجنبی سمجھ کر لُوٹنا چاہتے ہیں۔۔۔ جسکی وجہ سے میں دروازہ کھلا دیکھ
کر آپ کے گھر میں گُھسا چلا آیا۔۔۔ اُور آپکی شکل میری ایک عزیزہ نرگس سے
بُہت مِلتی ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے میں نے آپکو نرگس کہہ کر مخاطب کیا تھا۔۔۔
جسکے لئے میں آپ سے بُہت معذرت خواہ ہُوں۔۔۔ کامل علی نے فوراً ایک کہانی
گھڑتے ہُوئے عکشہ کو مطمئین کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
غنڈے پیچھے پڑے ہیں۔۔۔ یا خود کسی کا کوئی سامان اُٹھا کر بھاگے ہُو۔۔۔۔
ویسے تم شکل سے تو شریف آدمی لگتے ہُو۔۔۔ لیکن۔۔۔؟؟۔۔۔ لیکن کیا
محترمہ۔۔۔۔؟؟ کامل علی نے اُسکے لیکن کی وجہ جاننے کو کوشش کی۔۔۔۔۔۔ لیکن
یہ کہ،، تُم ایک اجنبی ہُو۔ اُور اِس وقت اگر میرا بھائی گھر آگیا تو وُہ
میرے متعلق کیا سُوچے گا۔۔۔؟؟۔۔۔۔ اِسکا مطلب ابھی جو تُم نے کہا تھا کہ،،
گھر میں تمہارے بھائی موجود ہیں۔۔۔ وُہ تم نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا۔۔۔ ؟کامل
علی نے نرگس کی ہمشکل سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل علی کا جملہ ختم
ہُوتے ہی دروازہ پر دستک کیساتھ ابو شامل کی آواز سُنائی دی۔۔۔ کامل باہر
آجاوٗ خطرہ ٹل گیا ہے ۔۔۔۔ کامل علی نے نرگس کی ہمشکل کی جانب الوداعی
نِگاہ ڈالتے ہُوئے کہا۔۔۔ اگرچہ میرا دِل نہیں چاہ رہا۔ کہ،، میں یہاں سے
اتنی جلدی چلا جاوٗں۔۔۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی کے سامنے مجبور ہُوں۔۔۔
لیکن عکشہ میں اِس اُمید کیساتھ واپس جارہا ہُوں۔۔۔ کہ،، ہماری مُلاقات
دوبارہ بھی ضرور ہُوگی۔۔۔ اُور ہاں اتنی دیر اپنے گھر میں مجھے برداشت کرنے
کیلئے میں تُمہارا انتہائی شکر گُزار ہُوں۔
ابو شَامِل نجانے کہاں سے ایک پجارو ٹائپ گاڑی لے آیا تھا۔۔۔ کامل علی کے
گلی سے باہر نِکلتے ہی ابو شَامل نے اُسے فوراً گاڑی میں بیٹھنے کا اِشارہ
کیا۔۔۔ اُور خود ڈرئیونگ سیٹ پر براجمان ہُوتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اُو میرے
بھائی ہر وقت رومانس کے چکر میں مت پڑا رَہا کر۔۔۔ کبھی سچویشن بھی دیکھ
لیا کر ورنہ تیری یہی عادت کسی دِن تیرے ساتھ مجھے بھی لے ڈُو بے گی۔۔۔۔
ابوشِامل انتہائی مہارت اُور برق رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہُوئے چند ہی
منٹ میں شہر سے باہر نِکل آیا۔۔۔۔ اُس نے گاڑی کو سپرہائی پر لانے کے بعد
درختوں کے ایک جھنڈ کو دیکھ کر گاڑی وہیں پارک کی۔ اُور کامل علی کی جانب
ہاتھ بڑھادیا۔۔۔ کامل علی نے بھی بے اختیاری میں اُسکی جانب ہاتھ بڑھا
دِیا۔۔۔ جسکے بعد ابو شامل نے ہمیشہ کی طرح کامل علی کے ہاتھ کو ایک جھٹکا
دِیا۔۔۔ کامل علی نے غصے سے ابو شامل کی جانب دیکھا۔ تو اُسے معلوم ہُوا کہ
وُہ پجارو سے نِکل کر اپنے گھر کے دروازے پر پُہنچ چُکے ہیں۔۔۔ ابو شامل نے
اُسے آنکھ مارتے ہُوئے اندر جانے کا اِشارہ کیا۔ تو کامل علی نے غُصہ سے
پھنکارتے ہُوئے کہا۔ مجھے نہیں جانا اندر۔۔۔ نجانے تُم نے کیا چکر چلایا
ہُوا ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے نرگس بہکی بہکی گفتگو کررہی ہے۔ جب تک تُم مجھے سب
کچھ نہیں بتاوٗگے میں اندر جانے والا نہیں ہُوں۔
ابو شامل نے کامل علی کو اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔ تو کامل علی بھی
ناچار اُسکے پیچھے پیچھے چلدیا۔۔۔ کامل علی چلتے چلتے جب بَگس کیفے کے قریب
سے گُزرنے لگا۔ تو تھک کر بَگس کیفے کی باہر پڑی کرسیوں پر ہی ڈھے گیا۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر کامل علی گرما گرم کافی سے لُطف اندوز ہُوتے ہُوئے ابو شامل
کی زبانی حیرت انگیز کہانی سُن رَہا تھا۔
ابو شامل نے بتایا کہ وُہ،، جس دِن جہلم سے واپس لُوٹ رہا تھا۔ تب اُسکی
نگاہ سڑک کے کنارے بس کا انتظار کرتی ایک لڑکی پر پڑی۔۔۔ جس کو لُوٹنے
کیلئے چند منچلے نوجوان قریب ہی کھڑی ایک کار میں موجود تھے۔ اُس لڑکی کا
چہرہ دیکھنے کے بعدمیرے دِل نے گوارا نہیں کیا۔ کہ،، میں اُسے سنسان سڑک پر
لُٹنے کیلئے تنہاہ چھوڑ دُوں۔۔۔ اِس لئے میں بھی اُس لڑکی کے قریب بظاہر بس
کے انتظار میں کھڑا ہُوگیا۔۔۔ جسکی وجہ سے وُہ لڑکے تو وہاں سےفرار ہُوگئے۔
لیکن میں نے اپنی ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے معلوم کرلیا۔کہ وُہ لڑکی لاہور کی
رہنی والی ہے۔ اُور اپنے گھر سے بھاگ کر جہلم اپنی سہیلی کے سسرال چلی آئی
ہے۔۔اُسکی سہیلی نے اُسکی خاطر مدارت تو بُہت کی لیکن اپنے سسرالی رشتہ
داروں کے ڈر سے اپنے گھر میں ٹہرنے کی اجازت نہیں دِی۔ جسکی وجہ سے اب وُہ
کراچی کیلئے نِکل رہی تھی۔ اور کراچی جانے والی کوچ کا انتظار کررہی تھی۔۔۔
میں نے اُسکے ذہن سے اُسکے گھر کا پتہ لگایا۔ اُور اُن تک رسائی حاصل کی۔
تب مجھے معلوم ہُوا۔کہ،، اُسے یتیم خانے سے لیکر پرورش کرنے والے اَب اِسکا
سودا کسی عیاش انسان سے کرچُکے ہیں۔۔۔ اُور سارے لاہور میں اُسکی تلاش جاری
ہے۔
جاری ہے۔۔۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔ |