میلی چادر اُور پَھٹا ڈُھول۔۔۔
ناکام مجرم سے رُوح کا مناظرہ
آج زِندگی کی چوالیس بہاروں اُور اُن سے پہلے آنے والی تمام خِزاوٗں سے
سلامت گُزر جانے کے بعد دِل میں پھر سے یہ خواہش اَنگڑائی لیکر بیدار ہُونے
کی سعی کرنے کی جراٗت کررہی ہے۔ کہ،، میں اِن گُزرے ہُوئے چوالیس برس کا
محاسبہ کرنے کی جسارت کروں۔۔۔ اُور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ بلکہ رُوح کے
انتھک کوششوں کے باوجود ،،رُوح اُور نفس میں ہمیشہ ہی ایک جنگ کا سماں پیدا
ہُوجاتا ہے۔
رُوح چیخ چیخ کر میری بدعنوانیوں کی داستاں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
لیکن جیت ہمیشہ نفس کی ہی ہُوتی ہے۔۔۔جنگ کی ابتدا میں رُوح کچھ پُراُمید و
پُر عزم دِکھائی دیتی ہے۔ لیکن میری بے حسی اُور بے توجہی کے باعث ہمیشہ
تھک ہار کر نفس کے سامنے سِپر ڈال دیتی ہے۔ اُور مسلسل کئی برسوں سے بلاآخر
جیت نفس کے حِصے میں ہی آتی ہے۔۔۔اِس جنگ کے زُور پکڑنے سے قبل ہی میرا نفس
ہمیشہ مجھے یہ باآور کرانے میں کامیاب ہُوجاتا ہے۔کہ رُوح مغالطہ میں ہے۔۔۔
حالانکہ منزل سامنے نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ میں اِختیار کئے ہُوئے ہُوں۔
دراصل صرف یہی رستہ سہل ہے اُور اِسی راستے سے منزل تک پُہنچنا ممکن ہے۔
نفس کا انداز بیاں اتنا پُرکشش ، پُرجوش، دِلنشین، اُور سِحر اَنگیز ہُوتا
ہے۔ کہ طبیعت رُوح کی آواز سننے کی طرف مائل ہی نہیں ہُوپاتی۔ اُور رُوح کی
پُکار ہمیشہ صدائے صحرا کی طرح بالکل بے اثر ہُوجاتی ہے۔
آج شائد نفس کچھ مدہوش و بے فکر ہِے۔۔۔ سُو اِس لئے رُوح نے چالاکی سے کام
لیتے ہُوئے میرے کانوں میں دھیمے دھیمے پُھسپسھسانا شروع کردیا۔ پہلے تو جی
میں آیا کہ اپنے دِل کے کانوں میں خوب رُوئی ٹھونس کر لحاف میں
سُوجاوٗں۔۔۔لیکن۔۔۔ دھیرے دھیرے رُوح کے سُوز نے میرے تمام جسم کو شل کردیا۔
جسکی وجہ سے نہ ہی میں اپنے نفس کو ہشیار کرپایا۔۔۔ اُور نہ ہی ہمیشہ کی
طرح سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرپایا۔
تشبیہ۔
رُوح نے میری بےبسی دیکھ کرسب سے پہلے میری توجہ اِس جانب مبذول کروائی کہ،،
مجھے دُنیا میں کسی مادی شئے سے اپنی تشبیہ اُور شناخت حاصل کرنی چاہیئے۔۔۔
میں نے کہا۔۔۔ کہ،، میں مسجودِ ملائک ہُوں۔ بھلا میری تشبہ کسی مادی شئے سے
کب ممکن ہے۔۔۔ لیکن رُوح کا اِصرار بڑھتا گیا۔ کہ،، نہیں مادی شئے سے تشبیہ
ضروری ہے۔تُم نے چوالیس برس میں میری کوئی بات نہیں مانی ہے۔ صرف آج کی رات
موقع مِلا ہے۔ خدارا ضد نہ کرو۔ اُور آج صرف میری سُن لُو۔جب ہم کسی نتیجے
پر پُہنچ جائیں۔ تب تُم کو اِختیار ہُوگا۔ چاہو تو میرے تجزیئے کے مطابق
منزل کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا۔ چاہو تو اپنی سابقہ ڈگر پر لُوٹ جانا۔۔۔
مجھے آج اپنی بےبسی سے ذیادہ نفس کی بے فکری پر غصہ آرہا ہے۔۔۔ نہ وُہ یُوں
اطمینان سے تان کر سُوتا۔۔۔ اُور نہ مجھے یُوں رُوح کے ہاتھوں یرغمال بننا
پڑتا۔ لیکن اب کرا بھی کیا جا سکتا ہے۔
میں نے عقل کے گھوڑے دُوڑائے۔۔۔ کبھی خود کو پہاڑ سے، کبھی فلک سے، کبھی
شجر سایہ دار سے تشبیہ دینے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن میرے ہر خیال و انتخاب کی
رُوح نے دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔۔۔ اُس کے مسلسل انکار سے میں نے عاجز آکر
کہہ دیا۔۔۔۔ جب تُمہارے خیال میں اِن میں کوئی بھی نہیں ہے ۔تو تُم خود ہی
کیوں نہیں بتادیتے کہ،، مجھے کس شئے سے خُود کو تشبیہ دینی چاہیئے۔۔۔ رُوح
نے پہلے تو فاتحانہ انداز سے میری جانب دیکھا۔ لیکن پھر مغموم لہجے میں کہا۔۔۔
پہلے مجھ سے وعدہ کرو۔کہ،، میرے رائے سن کر بدک تو نہیں جاوٗ گے۔۔۔یا۔۔۔
یُوں تو نہیں کہو گےکہ،، جاوٗ ہمیں یہ آزمائشی اور اِحتسابی کھیل نہیں
کھیلنا۔۔۔۔
میں نے نا چاہتے ہُوئے بھی حامی بھرلی۔کیونکہ،، میرے پاس اقرار کے سِوائے
کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ،، ایک طرف آج مجھےنفس کی مدد حاصل نہیں تھی۔ تو
دوسری طرف میرے اندر بھی تجسس پیدا ہُوچلا تھا۔کہ آخر رُوح میرے متعلق کیسی
تشبیہ کو اپنے من میں سجائے ہُوئے ہے۔۔۔؟
مجھ سے ایجاب و قبول کی سند حاصل کرنے کے بعد ،، رُوح نے مجھ سے کہا،، میرے
خیال میں تُمہاری تشبیہ،، میلی چادر میں چھپے پَھٹے ڈُھول،، جیسی ہُونی
چاہیئے۔۔۔۔۔ بےعزتی کے احساس سے میرے نتھنے پھولنے لگے۔ اُور مجھے یُوں
محسوس ہُونے لگا۔ جیسے مجھے کسی نے زندہ پکڑ کردِہکتی ہُوئی بھٹی میں جھونک
دیا ہُو۔۔۔ اسقدر بےعزتی کا تصور شائد ہی نےمیں زندگی میں کبھی محسوس کیا
ہُو۔
میں نے غُصیلے لہجے میں پجنکارتے ہُوئے احتجاج کیا۔۔۔ تمہاری اتنی جراٗت
بھی کیسے ہُوئی کہ،، میرے متعلق اتنی گھٹیا رائے اپنے ذہن میں رکھو۔۔۔ کیا
تمہیں عِلم نہیں ہے۔کہ،، لُوگ میرے بارے میں کتنی اچھی رائےرکھتے ہیں۔ اُور
میری کتنی عزت کرتے ہیں۔۔۔۔ رُوح نے مجھے بپھرتا دیکھ کر فوراً مجھے میرا
وعدہ یاد دِلایا۔کہ ،، ہم دونوں میں ابھی یہ معاہدہ طے پایا ہے۔ کہ ہم غصے
کے بجائے دلیل سے بات کریں گے۔ اُور جسکی دلیل مضبوط ہُوگی جیت بھی اُسی کی
ہُوگی۔
میں نے گلا کھنکارتے ہُوئے کہا۔۔۔ لیکن ہمارے درمیان یہ معاہدہ نہیں ہُوا
تھا۔ کہ تم میری عزت نفس کے ساتھ کسی بھی قسم کا کِھلواڑ کرو۔۔۔ اُور میں
خاموش تماشائی کی طرح چپ چاپ سہتا رَہونگا۔۔۔۔ اُور جہاں تک دلیل کی بات ہے۔۔۔
وُہ میں تُم سے ضرور مانگوں گا۔کیونکہ مجھے قوی یقین ہے۔کہ تم اپنی بےہودہ
الزام تراشی کے جواز میں کوئی دلیل پیش نہیں کرپاوٗگے۔۔۔
میرے لہجے کی تُرشی سے ایک لمحے کیلئے رُوح پر مایوسی کی کیفیت طاری ہُوئی۔
جیسے بازی اُس کے ہاتھ سے نکل گئی ہُو۔ لیکن میرے دلیل طلب کرتے ہی وُہ
پرسکون نظر آنے لگی۔ جیسے میں انجانے میں اسکے مطلب کی بات کردی ہُو۔ رُوح
نے میرے چہرے پر نظریں جماتے ہُوئے مجھ سے استفسار کیا۔تمہیں یہ تو معلوم
ہی ہُوگا۔کہ پہلے زمانے میں لُوگ سُونا ، چاندی، ہیرے جواہرات۔ اپنے بوسیدہ
کپڑوں میں چھپا کر رکھتے تھے۔۔۔؟
ہاں میں نے بھی سُنا ہے ۔کہ پہلے زمانے کے لوگ اپنی قیمتی اشیاٗ کو ایسے ہی
محفوظ کرتے تھے۔۔۔۔ لیکن دھیرے دھیرے چور ڈاکووٗں کو بھی اِس بات کی بھنک
پڑگئی تھی۔اُور پھر سب سے پہلے چُور گھر میں داخل ہُونے کے بعد ایسی
گٹھڑیوں کا گھنگالتے تھے۔۔۔ میں نے اپنی معلومات جھاڑتے ہُوئے یہ ثابت کرنے
کی کُوشش کی کے میں بھی کوئی لاعلم اِنسان نہیں ہُوں۔
خُدا تُمہارا بھلا کرے۔ تم نے خود ہی میرے لئے معاملہ کو سمجھانا آسان
کردیا۔ اُور مجھے اقرار۔و۔ انکار کی اذیت سے بچالیا۔۔۔رُوح نے خُوش ہُوتے
ہی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ جیسا کہ تم نے ابھی خود یہ ثابت کردیا ھے۔کہ تُم
پچھلے زمانے کی یہ چالاکیاں خوب اچھی طرح جانتے ہُو۔ سُو میرا کہنا یہ ہے
کہ،، تُم نے لُوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہُوئے۔ خُود کو ایک بناوٹی عاجزی
کی میلی چادر میں چھپانے کی کوشش کی۔جس میں تمہیں خاطر خواہ کامیابی بھی
حاصل ہُوئی۔ایک طرف تم نے خود پر عاجزی کی ملمع شدہ چادر اُوڑھ لی ۔ دُوسری
طرف تُم لوگوں کو اپنی بڑائی کے جا بجا قصے سُنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش
کرتے رہے۔کہ،، جیسے اِس میلی چادر میں کوئی پُوشیدہ خزانہ چھپا ہُو۔ تم
چونکہ ایک چالاک اُور مکار اِنسان ہُو۔۔۔ تُم کو معلوم تھا کہ،، انسان
ہمیشہ سے ہی پوشیدہ خزانوں کا مُتلاشی ریا ہے۔۔۔ اِس لئے لُوگ خزانے کی
تلاش میں ضرور آئیں گے۔ یعنی میں یوں کہوں کہ بظاہر تم نے دانہ بچھا رکھا
تھا۔۔۔ جیسے بھوکوں کے بُہت بڑے ہَمدرد ہُو۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔کہ اِس دانے
کے نیچے تُم نے کمال ہشیاری سے جال بھی بچھا رکھا تھا۔
لیکن میں دانہ اُور جال کیوں بچھانے لگا۔۔۔ مجھے اِس تمام معاملے سے کیا
حاصل ہُوگا۔۔۔سب جانتے ہیں۔کہ میں کوئی پیشہ ور عامل یا لکھاری نہیں ہُوں۔
میں نے رُوہانسی آوازمیں احتجاج کیا ۔
فائدہ!! ۔۔۔ کوئی ایک فائدہ ہُو تو گنِواوٗں۔۔۔۔ رُوح نے تمسخر اُڑانے والے
لہجے میں کہا۔۔۔ مانا کہ تُم پروفیشنل نہیں ہُو۔۔۔ لیکن لُوگوں کی بھیڑ
کسکو اچھی نہیں لگی۔۔۔ حب جاہ اُور شُہرت کی بیماری جب کسی کو لگ جائے تو
یہ ایک ایسا نشہ ہے جسکے لئے انسان اپنی تمام دُولت بھی داوٗ پر لگانے
کیلئے تیار ہُوجاتا ہے۔جبکہ تُم کو تو دُولت بھی خرچ نہیں کرنی پڑ رہی تھی۔
تمہارے پاس دُولت سے بھی بڑا ہتھیار تھا۔ قلم کا ہتھیار۔ جِسے استعمال کرنا
بھی تمہیں خُوب آتا ہے۔ لیکن افسوس قلم کی امانت کا بار بھی تم سے سنبھالا
نہ گیا۔
مجھے رُوح کے طعنے تشنوں سے وحشت محسوس ہُونے لگی ہے۔ من چاہتا ہے۔ کوئی
نفس کو خبر کردے ۔ اُور وُہ میری مدد کو چلا آئے جیسے وُہ ہمیشہ چلا آتا ہے۔
اُور میری حمایت میں رُوح کے سامنے میرے ایسے ایسے قصیدے پڑھے کہ،، رُوح
شرمندہ ہُوجائے۔ لیکن نجانے آج نفس کو کیسی مُوت پڑی ہے۔ کہ چوالیس برس کا
ساتھ بھی اُسے میرا معاون نہیں بناپایا۔ اُور اُسکی ذرا سی غفلت سے آج سارا
بنا بنایا کھیل بگڑنے کو ہے۔۔۔۔ میں نے بے بسی سے ہانپتے ہُوئے آخری پتہ
بھی یہ کہتے ہُوئے اُسکی جانب پھینک دِیاکہ،، چلو مانا کہ میری چادر بوسیدہ
ہے۔ اُور میں یہ بھی مان لیتا ہُوں کہ،، ہُوسکتا ہے۔ مجھ میں حُبِ جاہ کا
چور موجود ہے۔۔۔۔ لیکن تُم نے مجھے پَھٹا ہُوا ڈھول کیوں کہا۔۔۔؟؟؟
رُوح نے اپنی کاری ضرب کا اثر محسوس کرتے ہُوئے۔ فاتحانہ انداز میں کہا۔ جب
انسان اپنی ذات میں پُوشیدہ اسرار سے نظریں چُرا کر ایک ایسی راہ کو اپنا
لیتا ہے۔ جہاں اُسکو صرف اپنی خُوشی عزیز ہُوجاتی ہے۔ تب وُہ نہ اچھا بھائی
بن پاتا ہے۔ نہ اچھا بیٹا بن سکتا ہے۔ نہ بیٹیوں کے حقوق اسکی نگاہ میں
ہُوتے ہیں۔ نہ بیٹے کی اچھی تربیت پیش نظر ہُوتی۔ نہ وُہ اچھا دُوست ہُوتا
ہے۔ نہ ہی معاشرے میں ایک کارآمد فرد کی طرح رِہتا ہے۔۔۔۔ اِس لئے۔۔۔ وُہ
اپنی۔ دُنیا میں آمد کے سبق سے بھی ناآشنا رہتا ہے۔۔۔۔ حتیٰ کہ جِس معرفت
کی خاطر اُس نے اتنا طویل اور تھکا دینے والاسفر کیا تھا۔۔۔ وُہ مقصد بھی
آہستہ آہستہ پس منظر میں دھندلا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اِس طرح وُہ ایک ناکام مجرم
بن جاتا ہے۔۔۔ صرف ناکام مجرم۔۔۔ اور ناکام مجرم کی مثال پھٹے ڈُھول کی طرح
ہی تو ہُوتی ہے۔۔۔ دُور سے دیکھو تو ۔۔۔ خُوب حجم گھیرے ہُوئے ایک گٹھری۔۔۔
جِسے ہر ایک للچائی نظر سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جب کھول کر دیکھو۔۔۔
تب چند بوسیدہ چمڑے کے پارچوں میں ملفوف لکڑیوں کا ڈھانچہ برآمد ہُوتا ہے۔
اِسلئے میری نگاہ میں تمہاری مثال اُسی شکستہ ڈُھول جیسی ہے۔۔۔۔۔ رُوح کی
صدا بازگشت کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی۔۔۔ یکایک مجھے ایسا محسوس
ہُونے لگا جیسے فضاٗ میں لاکھوں آنکھوں کا سمندر اُمنڈ آیا ہُو۔۔۔ اُور وُہ
تمام آنکھیں نگاہوں ہی نگاہوں میں ایک دوسرے سے میری چغلی کرتے ہُوئے کہہ
رہی ہُوں کہ،، یہی ہے وُہ ۔۔۔ ناکام مُجرم۔۔۔ ناکام مُجرم۔۔۔۔ناکام |