چینی کی بوری او ر پہنچا ہوا بزرگ

ایک اجنبی آدمی کنویں میں گر گیا اور مرگیا ۔اسے کنویں سے باہر نکال کر دفنایا گیا۔ دو چار روز کے بعد لوگوں نے کنویں کا پانی استعمال کرنا شروع کیا تو انہیں یہ جان کر مسرت وخوشی ہوئی کہ کنویں کا پانی جوکہ کھارا کڑوا تھا اب میٹھا ہوگیا ۔بات جنگل میں لگی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی ۔دور دراز سے لوگ آنے لگے اور میٹھے پانی سے مستفید ہونے لگے اور یہ تصور کر لیا گیا کہ اس میں گرنے والا شخص کوئی ’’پہنچا ہوا بزرگ‘‘ تھا اور اس کی کرامت کی وجہ سے کنویں کا پانی میٹھا ہوگیا ہے ۔اب اس شخص کے عقیدت مند بھی پیدا ہوگئے۔ مجاور بھی ’’معرض وجود ‘‘ میں آگئے اسکی قبر دوبارہ تعمیر کی گئی ۔ اسکی ’’کرامات‘‘ بھی لوگوں کو بتائی جانے لگیں۔مگر رفتہ رفتہ کنویں کے پانی سے میٹھا پن غائب ہونے لگا اور کچھ عرصہ بعد کنویں کا پانی دوبارہ کھارا ہوگیا پھریہ افواہ گردش کرنے لگی کہ ’’پہنچا ہوا بزرگ‘‘ شاید ناراض ہو گیا ہے اور ہم لوگوں سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔اب غلطی کو تلاش کر کے بزرگ کو خوش کرنے کی تجاویز زیر بحث آنے لگیں۔ ایک روز ایک شخص اس علاقے میں آیا اور لوگوں سے پوچھا کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں فلاں فلاں شکل وصورت کی شباہت کا کوئی شخص آیا ہو یا کسی نے اسے دیکھا تو لوگوں نے فورا کہا کہ ہاں وہ تو بڑا پہنچا ہوا شخص تھا۔ جس کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہو وہ تو کچھ عرصہ پہلے کنویں میں گر کر مرچکا ہے لیکن اس کی کرامات ابھی تک جاری ہے اور پھر اسے ساری کہانی سنائی گئی کہانی سن کر اس شخص نے اپنا سر پیٹ لیا اور ان لوگوں کو بتایا کہ میر ے بھولے بھائیو یہ شخص ایک چور تھا اور میری دوکان سے چینی کی ایک بوری چراکر فرار ہوگیا تھا اور وہ یقینا اس کنویں میں بوری سمیت گرگیا ہو گا جس کی وجہ سے پانی کچھ عرصہ کیلئے میٹھا ہوگیا۔ اور پھر کنویں سے چینی کی منہ بند خالی بوری بھی برآمد ہوگئی ۔

یہ ہے حال ہماری سادہ لوح اور بھولی بھالی عوام کا،جوسوچے سمجھے اور تحقیق کیے بغیر کسی بھی شخص کے بارے میں اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں۔بات سادہ لوح اور ان پڑھ عوام تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگ اور طبقہ بھی اس پریکٹس کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے ملک کی یونیورسٹیاں اور ان کے وائس چا نسلرز ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بلا سوچے سمجھے تقسیم کر رہے ہیں اور ڈاکٹرز ایک ایسی کھیپ تیا ر کر رہے ہیں جو کہ نہ تو کوئی مرہم رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو زخموں کا مداوا کرنا سکھایا جاتا ہے ان کے سبجیکٹ میں جراحی (Operation)کا نصاب بڑا عجیب ہوتا ہے جس میں عوام کو بغیر چھری کانٹے کے اس طرح آپریٹ کیا جاتا ہے کہ نہ تو زخم لگتا ہے نہ ہی خون بہتا ہے لیکن ہر طرف آہیں سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ڈگریو ں کی یہ بندر بانٹ عرصہ دراز سے جاری ہے کسی کو فلسفے کا ڈاکٹر بنا دیا جاتا ہے تو کسی کو قانون کا ۔کسی کے ہاتھ میں سیاست کی ڈاکٹریٹ ہوتی ہے توکوئی یس سر یس سر کی گردان کا ڈاکٹر ہوتا ہے حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف ،خورشیدشاہ اور قائم علی شاہ کو ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں جاری کی ہیں ۔اگر اسی بنیاد پر ڈگریاں جاری کی گئی ہیں تو پھر آصف علی زرداری،یوسف رضا گیلانی، شہباز شریف اور سب سے بڑھ کر سیاست کے بے تاج بادشاہ مولانا فضل الرحمن کو بھی یہ ڈگریاں دی جانی چاہئیں۔کیونکہ ملک و قوم کو جس انداز میں یہ موصوف ڈیل کرتے رہے ہیں یا کررہے ہیں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

ڈاکٹر تو کسی قوم کا مسیحا ہوتا ہے اور ان کے دکھوں کا مداوا ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے لیکن اب عجب نظام چل پڑا ہے کہ سیاست دان ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ڈاکٹرز سیاست کی شطرنج کے مہرے بن کر ملک وقوم کو ٹریٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ڈاکٹر رحمان ملک ،ڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر نواز شریف ،ڈاکٹر خورشید شاہ،ڈاکٹر قائم علی شاہ ہمارے ملک کے مایہ ناز ڈاکٹرز ہیں جو کہ ملک چلانے میں ید طولی رکھتے ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر ،ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ اپنے شعبے سے اکتا کر سیاسی ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کسی بھی شخص کو اس کی طویل شبانہ روز ریسرچ کے بعد عطاء کی جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے اپنے سبجیکٹ میں بہت حد تک مہارت حاصل کرلی ہے اور اپنے سبجیکٹ پر عبور حاصل کرکے اسکی مدد سے دنیا میں اپنی مثبت انداز میں پہچان کرالی ہے لیکن اب یہ ڈگریاں جن احباب کو ودیعت کی گئیں ہیں ان کا کا م اپنی غرض کی سیاست کرنے ، ملک وقوم کو انگلیوں پر نچانے اور بھولی اور سادہ لوح عوام کو سبز باغ دیکھانے کے سوااور کچھ نہیں۔جھوٹ ،مکروفریب،بد عہدی اور بد عملی کے منبع لوگ ہماری تقدیروں کے فیصلے کر رہے ہیں ملک میں انتشار، افراتفری، دہشتگردی، رشوت ستانی،مہنگائی ،نقص امن ،لاقانونیت اور بے راہ روی ہمارے حکمرانوں کا ایک ’’عظیم تحفہ‘‘ ہے جسے عرصہ دراز سے عوام پاکستان سنبھالے ہوئے ہے اور ان کے ناموں کا ڈنکا اسی طرح بجانے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح سے درج بالا کہانی میں ایک چور کو ’’پہنچا ہوا بزرگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ۔اگر انہیں ڈگریاں ان کی درج بالا’’ خصوصیات ‘‘کی بنا پر ایوارڈ کی گئیں ہیں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ۔بس اسی طرح لگے رہو ۔عوام میں چینی کی بوریاں پھینکتے رہو اور بھولی عوام کو اپنی ’’کرامات‘‘کے گن گنواتے رہو۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211689 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More