السلام علیکم محترم قارئین۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اپنے ایک کورس کی تکمیل کے سلسلے میں میرا ہفتے
میں چار پانچ بار کراچی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں جس استاد سے پڑھ رہا
تھا وہ پاکستان کے ایک معروف استاد ہیں۔ دورانِ تدریس انہوں نے بڑے دکھ کے
ساتھ اپنا ایک واقعہ ہم لوگوں سے شیئر کیا۔ وہ کہتے ہیں ۔
میرا ایک دوست ہے جو ایک مشہور اخبار میں معروف کالم نگار ہے۔ ان کا ایک
انگریز دوست ان سے ملنے آیا ۔ شاید اس کا ارادہ کچھ دن پاکستان رکنے کا تھا۔
کالم نگار نے اس انگریز کو اپنے گھر ٹھہرنے کی دعوت دی اور اپنے آبائی گاؤں
کا دورہ کرانے کی وعدہ کر لیا۔ وعدے کی تکمیل کے لیے وہ اپنے انگریز دوست
کو لے کر اپنے گاؤں روانہ ہوئے جو اندورنِ سندھ میں تھا۔ دورانِ سفر انگریز
باتوں کے ساتھ ساتھ باہر کے نظاروں سے لطف اندوز بھی ہو رہا تھا کہ اچانک
کوئی منظر دیکھ کر اس نے گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا۔ کالم نگار نے گاڑی
روک کر ماجرہ پوچھا۔ انگریز نے انگلی سے سڑک کے کنارے بنی ایک چھپڑا ہوٹل
کی طرف اشارہ کیا۔ منظر واقعی ششدر کر دینے والا تھا۔ سندھ کے ایک پسماندہ
علاقے کی سڑک کے کنارے ہوٹل کی ہر میز پر کچھ لوگ بڑے انہماک سے لکھنے میں
مصروف تھے اور باقی لوگ میزوں کے گرد جم گھٹا بنائے انہیں دیکھ رہے تھے۔
انگریز نے کالم نگار کو معاملے کی سُن گُن لینے بھیجا۔ کالم نگار گاڑی سے
اترا اور جوش وخروش سے ہوٹل کی جانب چل دیا۔ کچھ ہی دیر میں معاملے کی
تفتیش کر کے چُپ چاپ گاڑی میں آ بیٹھا فوراً گاڑی اسٹارٹ کی اور اپنے راستے
پر چل دیا۔
انگریز کالم نگار کی حالت دیکھ کر خاموش رہا لیکن تجسُس سے بھرا انگریز آخر
کب تک خاموش رہتا! آخر کو پوچھ بیٹھا۔
آخر کار کالم نگار کو افسوس سے یہ خبر سنانی پڑی کہ ’’ اس ہوٹل کے قریب ایک
امتحانی مرکز ہے اور انہماک سے مصروف یہ خود غرض لوگ آج کا پرچہ حل کر رہے
ہیں‘‘۔
انگریز نے یہ سن کر کالم نگار سے گویا ہوا کہ آپ لوگوں کو تو خدا کا شکر
ادا کرنا چاہیے۔
’’اس افسوس ناک حالت پر خدا کا شکر ادا کیوں کر بھلا‘‘ کالم نگار نے حیرت
سے پوچھا۔
خدا کا شکر اس لیے کہ ’’ ابھی تک آپ کے پاس پرچہ حل کرنے والے لوگ موجود
ہیں‘‘
کیا یہ انگریز صحیح کہتا ہے؟ کیا چند نمبرز یا ایک سند کی خاطر ہم اپنی قوم
کو بانجھ نہیں کر رہے ہیں؟ دل کی تسلی کے لیے ہی سہی، ہے کوئی اس مسئلے کا
حل؟ |