ہمارا نظام تعلیم اور طبقاتی تفریق

گزشتہ دنوں جنگ اخبار میں محترم ارشاد احمد حقانی صاحب کا ایک آرٹیکل عربی زبان کی تعلیم کے حوالے سے شائع ہوا تھا، جس کے بعد ابھی تک جنگ اخبار میں اس بارے میں آرٹیکلز اور مراسلات شائع ہورہے ہیں۔ محترم ارشاد احمد حقانی صاحب ایک بہت بزرگ اور کہنہ مشق صحافی ہیں، ان کی عمر اس کوچے میں گزر گئی ہے، اس لیے ہم ان سے متفق نہ ہونے کے باوجود ان کے آرٹیکل پر گفتگو کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے اس مضمون نے ہمارے نظام تعلیم کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا اور جب ہم نے اس پر سوچ بچار کی اور جائزہ لیا تو نظام تعلیم کے حوالے سے کچھ باتیں ہمارے ذہن میں آئیں جو کہ ہم آپ سے شئیر کریں گے۔

ارشاد احمد حقانی صاحب کی بات سے اختلاف سہی لیکن بات یہ ہے کہ عربی یا اردو یا انگریزی کی تعلیم لازمی یا اختیاری کردینا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ نظام تعلیم کا ایک ہونا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کئی قسم کے نطام تعلیم رائج ہیں۔ ایک میٹرک سسٹم ہے اور یہی سب سے زیادہ رائج ہے۔ اس کے بعد دوسرا سسٹم جو ہے وہ مدارس کا ہے۔ اس کے بعد ایک سسٹم اے لیول اور او لیول کا ہے۔ اور اب ایک نیا سسٹم جو کہ آغا خان بورڈ کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے، وہ سسٹم رائج ہے۔

ان تمام سسٹمز کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ طبقاتی تفریق کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں کیوں کہ او لیول آغا خان بورڈ سے بہتر مانا جاتا ہے، آغا خان بورڈ میٹرک بورڈ سے بہتر مانا جاتا ہے، میٹرک بورڈ میں بھی دو درجہ بندیاں ہیں انگریزی سے میٹرک کرنے والے کا درجہ اردو میں میٹرک کرنے والے سے بہتر ہے، اور اردو میٹرک کو مدارس کے سسٹم سے بہتر مانا جاتا ہے۔ اور ان کی اسی درجہ بندی کے تناسب سے فیسیں بھی ہوتی ہیں۔ او لیول کی کم از کم فیس ڈھائی سے تین ہزار روہے ماہانہ ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ علاقے کے حساب سے پانچ تا سات ہزار روپے ماہانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد آغا خان بورڈ کا نمبر ہے اس کی فیسیں بھی دو تا ڈھائی ہزار روپے ماہانہ سے اسٹارٹ ہوتی ہیں۔ جبکہ میٹرک بورڈ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میٹرک بورڈ سے الحاق شدہ پرائیوٹ اسکولز انگریزی میں میٹرک کراتے ہیں جبکہ سرکاری اسکولز میں اردو میڈیم رائج ہے۔ نسبتاً اچھے پرائیوٹ اسکولز کی فیسیں ایک ہزار تا بارہ سو روپے ماہانہ سے اسٹارٹ ہوتی ہیں ( کچھ اچھے اور معیاری اسکولز تعلیم کو مشن سمجھ کر عام کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن انکی تعداد بہت کم ہے ) اور یہ دوہزار روپے ماہانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ کئی پرائیوٹ اسکولز جو کہ نسبتاَ کم معیار کے ہوتے ہیں جن کو عرف عام میں “ گلی محلے کا اسکول “ کہا جاتا ہے ان اسکولز کی فیس بھی تین سو تا چھ سو روپے ماہانہ تک ہوتی ہے۔ اس بعد سرکاری اسکولز کا نمبر ہے جس میں ذریعہ تعلیم اردو میڈیم ہے ( اگرچہ کئی سرکاری اسکولز انگریزی میڈیم بھی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ) جو کہ برائے نام فیس لیتے ہیں اور معذرت کے ساتھ تعلیم بھی برائے نام دیتے ہیں ( کئی اسکول اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن عمومی طور پر یہی حال ہے ) جبکہ صوبہ سندھ میں سندھی میڈیم اسکولز بھی موجود ہیں۔

اب ان تمام سسٹمز پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس کی جتنی پہنچ ہے یا جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اسی تناسب سے اپنی اولاد کو تعلیم دلاتا ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا صنعت کار، جاگیر دار ہے، بیوروکریٹ ہے، یا کسی اونچے عہدے پر فائز ہے تو وہ اپنی اولاد کو مہنگے اسکول میں او لیول میں تعلیم دلائے گا، یہ واضح رہے کہ لوگ باگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے علاقے کا بھی تعین کرتے ہیں۔ اس سے کچھ درجے نیچے کا جو طبقہ ہے وہ اپنی چادر کے حساب سے او لیول یا آغا خان بورڈ کو ترجیح دے گا، اس کے بعد نمبر آتا ہے متوسط طبقے کا اس طبقے کے افراد کسی اچھے اور معیاری نجی اسکول میں تعلیم دلانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے بعد رہ جاتا ہے، مزدور پیشہ، غریب افراد کا طبقہ یہ طبقہ اپنی کمزور مالی پوزیشن کے باعث اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں تعلیم دلاتا ہے۔ یہاں ہم نے دانستہ مدارس کا ذکر نہیں کیا کیوں کہ یہ بات غلط ہے کہ مدارس میں صرف غریب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ مدارس میں کئی امیر کبیر خاندانوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی رجحان رکھنے والا طبقہ اپنے بچوں کو مدارس میں تعلیم دلانا پسند کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عموماً لوگ قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے بچوں کو مدارس میں تعلیم دلاتے ہیں اور حفظ مکمل ہونے کے بعد اپنی حیثیت کے مطابق بچوں کو اسکولز میں داخل کراتے ہیں البتہ یہ بات درست ہے کہ فی زمانہ مدارس کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔

اس قدر مختلف نظام ہائے تعلیم کا نتیجہ لازماً یہ نکلے گا کہ طبقاتی تفریق مزید بڑھے گی۔ کیوں کہ ایک بچہ جو کہ میٹرک سسٹم سے تعلیم حاصل کرے گا وہ اولیول یا آغا خان بورڈ سے تعلیم یافتہ فرد کا مقابلہ نہیں کرسکے گا، اسی طرح ایک اردو میڈیم سے تعلیم یافتہ بچہ انگریزی میڈیم سے تعلیم یافتہ فرد کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ نتیجہ یہ کہ جو اعلیٰ طبقہ کا بچہ ہے وہ حکمران، بیوروکریٹ، بنے گا، جبکہ متوسط طبقے کے فرد کا بچہ آفس ورک کرے گا یا کلرک بنے گا، جو سرکاری اسکولز میں تعلیم حاصل کرے گا وہ بچہ اپنی تعلیم سے یہ فائدہ اٹھائے گا کہ اگرچہ وہ کہیں مزدوری کرے گا، ٹھیلہ لگائے گا، محنت مشقت کرے گا لیکن وہ اخبار کو پڑھ لے گا، انگریزی میں دستخط کرسکے گا۔ یا اپنی دکان وغیرہ کو نسبتاً اچھے طریقے سے چلا سکے گا۔

ُتو تو قادر مطلق ہے لیکن تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

اس طبقاتی تفریق کو ختم کرنے کا غریب کے دل سےاحساس محرومی دور کرنے کا اور تمام شہریوں کو بلا تفریق ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اول تو ایک ہی قسم کا نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ یکساں نصاب ہو، اور ایک ہی زبان میں ہو، چاہے اردو ہو یا انگریزی! دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ تعلیم کو نجی شعبے کے بجائے سرکاری تحویل میں ہونا چاہیے کیوں کہ شہریوں کو تعلیم، روزگار، اور علاج معالجہ ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ تعلیم کے حوالے سے یہاں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی کیوں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اسکولز کو نجی شعبے کے بجائے سرکاری تحویل میں لیکر تمام لوگوں کےلیے یکساں نطام تعلیم کا انقلابی قدم اٹھایا تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے سرکاری اسکولز کا گرتا ہوا معیار تعلیم بھی بہتر ہوجائے گا، کیوں کہ اس وقت سرکاری اسکولز کے گرتے ہوئے معیار کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہیں ہے۔ جب ایک ہی اسکول میں اگر ایک سرکاری ادارے کے چپڑاسی، ایک محنت کش کا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا اور اسی اسکول میں کسی ادارے کا سربراہ کا بیٹا، کسی بیورو کریٹ کا بیٹا، کسی جج کا بیٹا بھی تعلیم حاصل کرے گا تو سسٹم خودبخود ٹھیک ہوجائے گا، اساتذہ بھی دلجمعی سے تدریس کا فرض سر انجام دیں گے۔( یہاں اساتذہ کی توہین کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ بدقسمتی سے یہ رجحان عام ہوتا جارہا ہے کہ اساتذہ بچوں کو سبق پڑھانے کے بجائے امتحانوں کے دنوں میں بتا دیتے ہیں کہ کس کس باب سے سوالات آئیں گے طلبہ وہ یاد کرلیں۔ یا پھر طلبہ کو مارکیٹ میں دستیاب ماڈل پیپرز یا شرح سے امتحانوں کی تیاری کرائی جاتی ہے)

یہ ہمارے کچھ بکھرے بکھرے خیالات تھے جو ہم نے آپ لوگوں کے سامنے رکھے ہیں۔ ہماری کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہے۔ قارئین میں یقیناً ہم سے بہتر سوچ اور تجاویز رکھنے والے افراد بھی ہونگے۔ اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد بھی ہونگے، اس مضمون پر ان کی آراء نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520219 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More