سود کی حرمت اور وبال (قسط اول)

تاریخ پاکستان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ جس مقصد کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں ، عزتیں لٹائیں لاکھوں مسلمانوں کی معصوم جوانیاں خون کی نظر کر دیں، لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھر بار اور مال و متا ع کو چھوڑا تھا۔ وہ مقصد اس خطہ ارضی کے نفاذ اور نظام زندگی بسر کرنا تھا۔ مگر بدقسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ہم اپنی منز ل کی طرف نہیں بڑھ سکے۔اور حکومتی و قومی سطح پر ہم تنزلی اور انحطاط کا شکا ر ہوتے چلے گئے۔ نیز حکمرانوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں شدید کوتاہی کی اور ملک کو دلدل میں پھینک دیا۔

اللہ تبارک وتعالی نے اہل اقتدار کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ـوہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز کا نظام قائم کریں اور زکوۃ دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
سود اور سود کے استحصالی نظام کے خلاف کلمہ جہاد بلند کرنا کیوں ضروری ہے؟ آئیے قرآن و سنت نبوی ؐ کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا۔ '' جو لوگ سو د کھاتے ہیں و ہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھو کر اسے مخبوط ( حواس باختہ) بنا دیا ہو''

یعنی قیامت کے روز سود خور اس فالج زدہ شخص کی طر ح کھڑے کیے جائیں گے جیسے کسی کو کوئی شیطان یا جن چھو جائے اور اس کے ہوش و حواس جاتے رہیں قیامت کے دن جس کو فالج زدہ کھڑا دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ سود خور ہے۔اور اس حرام خوری کے باعث آج قیامت کے دن اس کے اوسان خطا کر دیے گئے ہیں۔ پھر فرمایا '' یہ حالت ان کی اس لیے ہوگی کہ انھوں نے (حلال اور حرام کو یکساں کر دیا ہے ) کہ جیسے سودا ہے ویسے ہی سود ہے''

سود خوروں کو اس لیے شیطان کے مس شدہ کی طرح ہوش و حواس سے عاری کھڑا کیا جائے گا کہ جب ان کو کہا جاتا تھا کہ سود چھوڑ دو تو وہ کہتے تھے بھئی سود لینا ایک نفع ہی تو ہے جیسے تم کاروبار میں نفع حاصل کرتے ہو۔ ہم قرض کے ذریعے مال کما تے ہیں۔ چونکہ انھوں نے سود اور تجارت کو سود کے بربر اور سود کو تجارت کے بربر قرار دے دیا تھا اور ایہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے باعث قیامت کے دن انھیں شیطان زدوں کی طرح کھڑا کیا جائے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ '' اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا'' ( سورۃ البقرہ ٢:٥٧٢)

اور جو سود کو ترک نہ کرے و ہ پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیا ر ہو جائے۔ اللہ نے مسلمانوں کو سود ترک کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا '' اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر تم سچے مسلمان ہو۔'' اللہ تعالی کا یہ واضح حکم بھی تمام لوگوں کے لیے موجود ہے کہ تم نے سود کا لین دین اور سود کا نظام نہ چھوڑا تو پھر تیار ہو جاؤ کہ تمھارے خلاف اور تمھارے استحصالی نظام کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اعلان جنگ ہو چکا ہے۔

قرآن مجید نے یہودیوں کے ان بڑے بڑے جرائم اور مظالم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا اور ان سے سلطنت چھین لی گئی۔ اللہ پاک نے حلال رزق ان کے لیے ختم کر دیا ۔ ان کے اقتصادی نظام تبا ہ کر دیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے ہولنا ک مظالم میں سے ان کے سودی نظام کو صرحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے '' تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کر دیں۔ اور اس لیے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا'' یہودی سود کھاتے تھے سود پر اپنا کاروبار چلا تے تھے حالانکہ انھیں سود کا نظام چھوڑنے کا حکم تھا اس لیے یہودیوں کو تباہ و بربا د کر دیا گیا۔

حضرت عبداللہ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید (جرم) ہے بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہےـــ'' ( مسند احمد ٥:٥٢٢)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدھوں سے بھرے ہوئے گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جبریل ؑ سے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ سود خور ہیں۔ــ'' (سنن ابن ماجہ : ٥٦١)

اسلام سلامتی اور نفع بخش دین ہے۔ اور استحصالی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے چونکہ ربو (سود) معاشی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے کلیتہ حرام قرار دیا ہے ۔ سود صرف دنیائے اسلام کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی بنیاد ہے چنانچہ سود سے پاک بینکاری کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں کا مرکز رہا ہے اور اس ضمن میں خود مغربی دنیا میں بھی تجربات ہو رہے ہیں۔ علم معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ کہ سرمایہ ہمیشہ بچتوں سے آتا ہے۔ اور بچتیں ترقی یافتہ ممالک میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص اسی متوسط طبقے سے آتی ہے۔ سودی بینکاری نظام کا ایک استحصالی پہلو یہ ہے کہ ایک جائزہ کے مطابق ٠٨ سے ٠٩ فیصد بینک کے ڈپازٹ بیس ہزار روپے یا اس سے کم رقم جمع کروانے والے چھوٹ کھاتہ داروں کے ہوتے ہیں مگر جب انہی ڈیپازٹ سے قرضہ جات کا اجرا ہوتا ہے تو صرف چھ سے سات فیصد قرضہ جات غریب اور متوسط طبقے کے حصے میں آتے ہیں جبکہ ٣٩ سے ٤٩ فیصد قرضے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سماجی و سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں۔ (جاری ہے)
َِ
Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 37851 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.