نذر ماننا
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نذر ماننا
ایک پسندیدہ عمل جس کا پوراکرنا ضروری ہے
اﷲ تعالی نے انتیسویں سپارے کی سورہ دہرمیں نذر پوری کرنے والوں کے لیے جنت
کا وعدہ فرمایا ہے’’نیک لوگ جنت میں شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب
کافور کی آمیزش ہوگی یہ ایک بہتاہوا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اﷲ تعالی
کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں سے چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے
،یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیامیں نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس
کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی ‘‘(آیات5,6,7)۔سورۃ بقرہ میں بھی ا ﷲتعالی
نے فرمایاکہ’’تم نے جو کچھ بھی خرچ کیاہواور جو نذر بھی مانی ہواﷲ تعالی کو
اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘(آیت270)۔سورۃ حج میں اﷲ
تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کے احکامات دیتے ہوئے فرمایا کہ
’’یادکرو وہ وقت جب کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس گھر کی
جگہ تجویز کی تھی اس ہدایت کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،اور
میرے گھرکو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک
رکھواور لوگوں کو حج کے لیے اذن عام دے دوکہ وہ تمہارے پاس ہر دوردراز مقام
سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے
لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اﷲ تعالی کانام لیں
جو اس نے انہیں بخشے ہیں،خود بھی کھائیں اور تنگ دست و محتاج کو بھی دیں
،پھر اپنا میل کچیل دورکریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم
گھرکاطواف کریں۔‘‘(آیات 26-29)۔
سورۃ آل عمران میں اﷲ تعالی نے ام مریم کی نذر کے ماننے پوراکرنے اور اس کے
قبول ہونے کا ذکر کیاہے’’جب عمران کی زوجہ کہ رہی تھیں کہ میرے پروردگارمیں
اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف
ہوگامیری اس پیشکش کو قبول فرماتو سننے والااور جاننے والا ہے پھر جب وہ
بچی اس کے ہاں پیداہوئی تواس نے کہا اے مالک میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی
ہے ۔۔۔حالانکہ جوکچھ اس نے جناتھااﷲ تعالی کو اس کی خبر تھی۔۔۔اور لڑکا
لڑکی کی طرح نہیں ہوتاخیر میں نے اس کا نام مریم رکھ دیاہے اور میں اسے
اسکی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔آخر کا
اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرمالیا،اسے بڑی اچھی لڑکی بناکر
اٹھایااور زکریاعلیہ السلام کواس کاسرپرست بنایا‘‘(آیات 35-37)۔
ایک حدیث مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار
سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں کا انتقال
ہوگیاہے اور اس کے ذمہ ایک نذر کا پوراکرنا باقی تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ماں
کی طرف سے نذر پوری کر دی جائے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ کا بیان ہے
کہ آپ ﷺ نے فرمایانذر انسان کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں
نہ ہوبلکہ نذر انسان کو اس چیز کے قریب کردیتی ہے جو اس کے مقدر میں لکھ دی
گی ہو۔حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں ایک بار آپ ﷺ نے ایک بوڑھے شخص
کو دیکھاجو اپنے بیٹوں کا سہارا لے کر چل رہاتھا،پوچھنے پر پتہ چلاکہ اس نے
پیدل چل کر کعبۃ اﷲ تک پہنچنے کی نذر مان رکھی ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ
اﷲتعالی اس سے بے نیازہے کہ کوئی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالے چنانچہ آپﷺ نے
اس بڑے میاں کو سوارہونے کا حکم دیا۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ
بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے منت مانی کہ بیت اﷲ تک پیدل جائیں گی،انہوں
نے مجھ سے کہا اس نذر کی بابت رسول اﷲ ﷺ سے بھی پوچھ لوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ
وہ پیدل بھی چلیں اور سوار بھی ہو جائیں۔
نذر کی بہت سی تعریفیں کی جاتی ہیں اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مراد بر
آنے پرایسا کام جسے شریعت نے لازم نہ کیا ہواسے اپنے اوپر لازم کر لینا اور
اسے جملہ شرائط کے ساتھ پوراکرنا گویا نذر کا پورا کرنا ہے۔نذر ماننا دوسرے
لفظوں میں اﷲ تعالی سے قسم کھاکر کہناہے کہ میں یہ کام ضرور کروں گایا
بالکل نہیں کروں گا،نذر کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بعض علماء اسے قسم
کا قائم مقام بھی قرار دیتے ہیں۔نذر کے لیے نیت کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ
بھی ہونے چاہیں جن میں عمل کے اپنے اوپر لازم ہونے مفہوم واضع ہو،بعض فقہا
الفاظ کی ادائگی کو لازم بھی قرار دیتے ہیں۔اس کا آسان طریقہ یہ ہے کسی
مشکل یا اہم کام کے ہونے پر اﷲ تعالی سے ایسا وعدہ کیاجائے جو شریعت میں
جائز ہو اور جس کا کرنا ممکن اور آسان بھی ہویا پھر کسی گناہ کے بار بار
ارتکاب کے باعث شرمندگی کے مارے اﷲ تعالی سے وعدہ کیاجائے کہ اب کے یہ گناہ
ہوا تو ایساعمل کیاجائے گا جو جائزاور ممکن ہو۔نذر میں نوافل،روزے ،اﷲ
تعالی کے راستے میں مال خرچ کرنایا اسی طرح کے دیگر اعمال مانے جاسکتے ہیں
نذر ماننے کے بعدان اعمال کا پوراکرنا واجب ہے۔کسی ناجائز عمل کی نذر ماننا
جائز نہیں ایسی نذر مان لی جائے تو اسے قطعاََ بھی پورانہیں کرنا چاہیے
تاہم اس صورت میں قسم کا کفارہ اداکرنا پڑے گا۔
نذر ماننااپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے کا ایک بہانہ ہے،اﷲ تعالی کو یہ بات
پسند ہے کہ اس کے بندے اس سے نذر مانیں لیکن اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے
کہ تقدیربدل جائے گی کیونکہ احادیث مبارکہ میں محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ
قلم اٹھ چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ کاقول
ہے کہ ’’نذر سے اﷲ تعالی کا کوئی فیصلہ آگے ہوتاہے اور نہ ہی پیچھے
‘‘کیونکہ اﷲ تعالی کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کسی دباؤ میں آ کر اپنے
فیصلے تبدیل کر دے۔تاہم اس عمل سے کوئی بھی انسان اپنے رب کاقرب حاصل کرنے
میں ضرور کامیاب ہو جاتاہے۔جیسے کسی بڑے کام کے آغاز سے پہلے اﷲ تعالی سے
وعدہ کرنا کہ کام کی تکمیل پر وہ اﷲ تعالی کے راستے میں اتنی رقم خرچ کرے
گااور پھر اس رقم کا خرچ کر دینا اﷲ تعالی کو بہت پسند ہے ۔انسان پر ایسا
وقت بھی آتاہے کہ کوئی بری عادت اس سے جدانہیں ہوپاتی اور ہر بار اسے اپنے
رب کے ہاں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے تب وہ یہ نذر مان سکتا ہے اب کی بار اگر
یہ غلطی سرزد ہو گئی تو وہ بطورنذر اتنے روزے رکھے گا اور پھر وہ اس نذر کو
پوراکر ڈالے توجہاں اسے اﷲ تعالی کا قرب و تقوی نصیب ہو گا وہاں عین ممکن
ہے کہ رحمت ایزدی اسے ڈحانپ لے اور آئندہ وہ اس بری عادت سے بچا رہے۔
نذر ماننے والے کو ’’ناذر‘‘کہتے ہیں،ناذر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل ہو
یعنی پاگل،بے وقوف،مغلوب العقل اوربدحواس شخص کی نذر کا اعتبار نہیں
کیاجائے گا،ناذرکی دوسری شرط بلوغت ہے اور تیسری شرط ’’اسلام‘‘ہے یعنی
اسلامی شریعت کے جملہ احکامات مسلمانوں پر ہی عائد ہوتے ہیں۔جس کام کی نذر
مانی جائے اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’منذور‘‘کہتے ہیں،منذور کے لیے ضروری
ہے کہ اس میں اﷲ تعالی کی نافرمانی نہ پائی جاتی ہو ایک شخص نے منت مانی کی
وہ اپنے یتیم بھتیجوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھائے گا تو حضرت عمر رضی
اﷲعنہ نے اسے اس نذر کے پوراکرنے سے روک دیااور اسے حکم دیا کہ ان کے ساتھ
بیٹھ کرکھاناکھاؤ۔منذورکے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پہلے سے عائد فرائض و
واجبات وحقوق میں سے نہ ہوجیسے کسی فرض کی نمازکی ادائگی یافرض روزوں کی
ادائگی کی نذر مانناجائزنہیں کیونکہ وہ توپہلے سے لازم ہیں اسی طرح بیٹی یا
بہن کو وراثت میں سے حصہ دینے کی نذر ماننا بھی جائز نہیں کیونکہ اس کا یہ
حق پہلے سے مقرر ہے ۔
منذور کی آخری شرط یہ ہے کہ وہ کام ناذرکے بس میں ہواور اس کا سرانجام دینا
آسان ہومثلاََاپنا سارامال راہ ﷲدینے کی نذر ماننا درست نہیں ،اسی طرح پیدل
حج کرنے کی نذر ماننا بھی مناسب نہیں کیونکہ قرآن مجید نے اور سنت رسول
اﷲﷺنے مشکل میں پڑنے کو ناپسند فرمایاہے ۔ایک دفعہ حضرت ابوبکررضی اﷲ تعالی
عنہ حج کے دوران ایک خیمے میں گئے اور ایک بزرگ خاتون سے گفتگو کرنا چاہی
لیکن وہ خاموش رہی وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس نے چپ رہ کر حج کرنے کی
نذرمانی ہوئی ہے اس پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ایسی نذر جائز
نہیں اور اس عورت کو گفتگو جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔تاہم اگر کسی نے
نذر مانی اور عمل کا تعن نہ کیاتو اسے نذر پوری کرنے کے لیے قسم کا کفارہ
اداکرنا پڑے گا۔امام ابوحنیفہ نے منذور کی شرائط میں ایک اضافہ یہ کیاہے کہ
وہ اس طرح کاکام ہو جسے شریعت نے فرض یاواجب کیاہے،جیسے نماز فرض ہے تو نفل
نماز کی نذر مانی جاسکتی ہے ،روزہ شریعت نے فرض کیاہے تو نفل روزے کی نذر
مانی جاسکتی ہے وغیرہ لیکن نذر ماننے کے بعد وہ نفل عمل واجب کے درجے میں
داخل ہو جاتاہے۔جبکہ جنازہ کے پیچھے چلنے کوشریعت نے فرض یاواجب نہیں کیاتو
اس عمل کی منت بھی نہیں مانی جاسکتی۔منت ماننا ایک ایسا عمل ہے جو گزشتہ
امتوں سے نیک لوگوں کا وطیرہ رہا ہے جیسے حضرت مریم رضی اﷲ تعالی عنھا کی
والدہ نے اپنے بچے کی نذر مانی تھی،اور اس امت میں بھی قرآن و سنت کی
تعلیمات سے مترشح ہوتا ہے کہ نیک لوگ اﷲ تعالی کا قرب اور حصول تقوی کے لیے
نذر مانتے ہیں اور پھر اسے محض اﷲ تعالی کی رضا جوئی کے لیے پورا کرتے ہیں
۔نذر ماننے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اپنے آپ کو ناجائز مشکل
میں نہ ڈالا جائے کیونکہ سورۃ توبہ کی آخری آیت میں اﷲ تعالی نے فرمایا ہے
تمہارا مشکل میں پڑنا آپ ﷺ کو سخت ناگوار گزرتاہے۔ |
|