٭مصنوعی کھاد پیداوار بڑھاتی ہے
مگر کسانوں کو دماغی مریض بناتی ہے۔ ٭پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے سے سرطا
ن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ٭ایلومینیم کے برتنوں میں کھانا پکا کر کھانے والے
پاگل ہوسکتے ہیں۔ ٭کولا مشروبات کے استعمال سے کم عمر لڑکیوں کی ہڈیوں کے
فریکچر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ٭دوران حمل شعاعوں کا استعمال جنس کو کندذہن
بنادیتے ہیں۔ ٭سپرے کرنے والے کسانوں کے ہاں زہریلے اثرات کے نتیجے میں
بچوں کے مقابلے میں بچیوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ ٭غیرمعیاری گھی (جس میں
نکل کی آمیزش ہوتی ہے) ٭گردوں کو ناکارہ بنادیتا ہے اور بینائی پر اثرانداز
ہوتا ہے۔ ٭منہ اور حلق کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ فاسٹ فوڈ کا استعمال ہے۔
٭چربی کی زیادتی جسم میں زہرآفرینی کاکام دیتی ہے۔ ٭برف کا زیادہ استعمال
معدہ کو کمزور اور ٹائیفائیڈ کا موجب ہوتا ہے۔ ٭غذائی ریشے کینسر سے بچاتے
ہیں۔ ریشہ دار غذائیں (گندم‘ چاول‘ چنا‘ جوار‘ باجرہ‘ مکئی‘ قدرت کا انمول
تحفہ ہیں جسے بگاڑ کر ہم خود اپنے لیے مختلف بیماریاں خریدتے ہیں۔) ٭پھلیاں
درخت پر اگنے والا گوشت ہے ان کے استعمال پر پوری توجہ دی جائے اور معمولی
سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے۔ ٭مسواک کا استعمال منہ اور حلق کے کینسر سے
محفوظ رکھتا ہے ۔ مسواک استعمال کرنے والا فالج سے بچا رہتا ہے۔ ٭آرجی نین
کی اضافی مقدار بانجھ مردوں کیلئے بےحد مفید ہے اس سے اسپرمز کی تعداد میں
اضافہ ہوجاتا ہے تمباکو نوشی سے اسپرمز کمزور ہوجاتے ہیں۔ ٭الکوحل پینے
والی زچہ کے بچوں کا دماغ متاثر ہوتا ہے۔ ٭چینی کے زیادہ استعمال سے
ماہواری کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے۔٭ناقص تغذیہ کا گنٹھیا سے گہر ا تعلق
ہے۔ ٭لیموں‘ سنگترہ ‘ مالٹا‘ چکوترا اور بیروں میں تلے دی نوئیڈز ہوتے ہیں
جو خلیات کی مدد کرکے کینسر پیدا کرنے والے مالیکیولوں کی ساخت توڑ دیتے
ہیں۔ ٭ٹماٹر میں کاڈیرک ایسڈ اور کلورو جنیٹک ایسڈ ہوتے ہیں جو کینسر پیدا
کرنے والے عناصر کا خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ ٭لہسن اور پیاز میں الائیل
سلفائیڈ ہوتے ہیں جو معدہ کے کینسر کو پیداہونے سے روکتے ہیں۔ ”ازمہلک
غذائیں‘ نبوی غذائیں اور جدید سائنس“ |