رشتوں کی پائمالی سے تصور ِکائنات کا رشتہ

رشتوں کی تعریف بدل رہی ہے۔ تعلقات کا بھرم ٹوٹ رہا ہے۔ قریبی عزیز و اقارب میں قربتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ ایک دوسرے سے توقع اٹھتی جارہی ہے۔ شہروں بستیوں، برادریوں، قوموں ، خاندان اور گھرانوں کی یکجائی، ضرورتوں اور مفاد کے تحت عمل میں آنے لگی ہے۔ اب خون کا رشتہ بھی اتنا پائیدار نہیں جتنا روزی کی ضرورت سے جڑے ہوئے تعلقات ہیں۔ مالی نقصان اٹھاکر اپنوں کے کام آنے والا، اپنا روپیہ اور قیمتی وقت اپنوں پر بغیر مالی فائدہ اٹھائے خرچ کرنے والا، آجکل پرانی قدروں کا آدمی سمجھا جائیگا۔ یہ وہ نادان ہے جو وقت کی رفتار سے پیچھے رہ گیا ہے جو وقت کی ضرورت کو سمجھ نہیں رہا ہے، آگے چل کر نقصان اٹھائیگا۔ جیب خالی ہو تو نری شرافت، رکھ رکھاؤ اور انسانیت سے بھر پور جذبے، عزت و احترام کی نہیں، تمسخر کی چیزیں، بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ پچاس سال پہلے سماجی احترام کا پیمانہ غربا پروری ، قرابت داری، شرافت ، انسانیت، دیانتداری، انکساری وغیرہ ہوتا تھا۔ پیسہ والا ہونا شرط نہیں تھی۔ آج بڑا آدمی بڑے پیسہ والا ہی ہے۔

اسی کو قدروں کا بدل جاناکہتے ہیں۔ فخر کرنے، کامیاب انسان کہے جانے، عزت و احترام حاصل کرنے کا معیار بدل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کونسی بنیادی تبدیلی اس یکسر فکری انقلاب کی اہم ترین وجہ کہی جاسکتی ہے۔ مادی زمانہ اکثر کہا جاتا ہے۔

تمام دنیا اس تغیر فکر و خیال کو متعددطریقوں سے سمجھنے کی کوشش میں ہے۔ ایک بنیادی اتفاق ہے کہ یہ تبدیلی آچکی ہے۔ عالمی پیمانے پر تمام دانشوران عالم مان رہے ہیں کہ یہ تغیّر کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے انبوہِ انسانی کے رگ و پے میں سما چکا ہے۔ اور یہ غلط ہوا ہے۔ مادی حصول کی دوڑنے اقدار (Values)کو کچل ڈالا ہے اور ان اعلیٰ قدروں کو پھر سے معاشرے کی تہذیبی ضرورت بنانا ضروری ہے۔ جس طرح یہ حقیقت مان لی گئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جراحتوں نے ترقی کی جانب راستہ تو طے کیا ہے مگر بے اندازہ اور بے حد و حساب غبار چھوڑ دیا ہے ۔ یہ غبار لاتعداد قسموں کی آلودگی (Pollution)کی شکل میں انسانی زندگی کے لیے بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ ہوا، زمین اور پانی میں پائی جانے والی کروڑہااقسام کی زندہ اشیاء کے لیے ناقابل تلافی نقصان اور خطرہ کا باعث ہوچکا ہے۔ اس خطرے سے واپسی اگر کوئی شخص ممکن سمجھتا ہے وہ یا تو خود احمق ہے یا دوسروں کو احمق بنانے کا فن جانتا ہے۔
یہی کچھ حال اقدار (Values) کا بھی ہے۔ عالمی بنیادوں پر جس طرح ضبط آلودگی (Pollution control)اور ماحولیاتی تحقیق(Environmental Research)کا آغاز ہواہے اسی طرح اقدار کو واپس لانے کا اہتمام نظر آتا ہے۔ چنانچہ مختلف ممالک میں بنیادی اقدار کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ بنانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ دھلی یونیورسٹی نے (EngineeringValue) )کے نام سے ایک ایسے کورس کا آغاز کیا ہے کہ سائنس اور انجینیئرنگ کی تعلیم کو اقدار سے سنوارنے والے ماہر پیدا کئے جائیں۔ اس علم کو کیریئر کے طور پر برتنے والوں کی مستقبل قریب میں بڑی ضرورت پڑنے والی ہے۔ یہ ایک بڑا علمی میدان کھلا ہے اور اسکے جاننے والے صاحب علم بہت کم ملتے ہیں۔ اس کیریئر میں بڑا مستقبل پوشیدہ ہے۔

یہ بات تو اس فکری تبدیلی کے تسلیم کرنے اور اسکی ضرورت کے اعتراف کی ہے۔ یہ تبدیلی آج کیسے؟ کیا اوامر اسکی وجہ بنے؟ کیا عناصر اس تبدیلی کے تراکیبی جزکہے جاسکتے ہیں؟ احساس زیاں اور نقصان کا اندازہ ہی کافی نہیں۔ کھوئی ہوئی اقدار کو واپس لاناہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ایسا کیا بدل گیا اور کیوں بدل گیا کہ دنیا بھر میں تمام تر بنیادی تعلقات اور آپسی رشتوں کا توازن کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اس موقع پر تمام عالم میں مختلف عنوانات کے تحت بات ہورہی ہے۔ گھنٹوں ان موضوعات پر گفتگو ہوسکتی ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مشرقی معاشروں میں اور اسلامی تہذیب کی نمائندہ سوسائٹی میں ہمارا تصور کائنات بدل گیا ہے۔ تصور کائنات سے نظریہ حیات، فلسفہ، سیاست ، زندگی کے لیے لائحہ عمل وغیرہ مراد نہیں ہے۔ تصور کائنات اور تہذیب میں البتہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود نہیں۔
تہذیب، ثقافت کلچر اور ادب کے ملے جلے اثرات سے جو اجتماعی مظاہر اور تمدنی آثار وجود میں آئے ہیں وہ کسی تہذیب کے تصور کائنات پر مبنی ہوئے ہیں۔ یہ تصور کائنات ہی ہے جو کسی سماج کے وہ پیمانے مقرر کرتا ہے جو اس سماج میں عزت دار، اہم، اعلیٰ وارفع ہونے یا پھر شرمندہ، یا ذلیل و خوار ہونے والوں کی پہچان کراسکے۔ کسی تہذیب کا تصور علم (Theory Of Knowledge) اور اسکی علمیات ( Epistemology )اسکے تصور کائنات کی بنیاد ہے۔ یہ وہ کسوٹی ہے جو کسی تہذیبی سانچے میں رہتے ہوئے، جاننے اور نہ جاننے، سیکھنے اور سکھانے کے حدود کو پرکھنے کا مواد فراہم کرتی ہے۔ کیا جاننا ضروری ہے یا غیر ضروری ہے ،کیا علم حاصل کرنا ممکن ہے اور کیا نا ممکن ہے۔ کچھ علوم کا حاصل کرنا ممکن تو ہے مگر ان سے گریز ضروری ہے۔ لفظ علم کی تشریح، حصول علم کی متعدد بنیادی سمتوں میں تفریق اور اپنے تہذیبی رویوں سے مطابقت رکھنے والے علم کی پہچان اپنے تصور کائنات (World View)کے تحت ہوتی ہے۔

ہمارا تصور کائنات ہمارے تمام تہذیبی عناصر کے ظہور کا منبع ہے، ہم اپنے فکری نہج کے مطابق تہذیبی رویے پیدا کرتے ہیں جو ہمارے عقائد اور اصول حیات بن جاتے ہیں۔ یہ اصول اور عقائد ہمارے تصور کائنات کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ کسی تہذیب کے مادی ایجادات میں ترقی یا فتہ ممالک کچھ افکار بناتے ہیں اور دوسروں کے ہاتھوں یہ افکار فروخت کردیتے ہیں جو صفت میں مجسم ہوکر ظاہر ہوتے ہیں۔ تمدن کا تصور بھی ثقافتی مظہر سے خالی نہیں ہے۔ گھر یا جو ہر اصلی جو تہذیب، تمدن، ثقافت اور کلچر میں رواں دواں ہے وہ تصور کائنات ہے۔

ہم جو بدلے ہیں تو ہمارا تصور کائنات بدل گیا ہے۔ یہ تصور کائنات مغربی افکار کی یلغار کی زد پر رکھا ہے۔ آج پھر وہی تصور نئے نظام عالم (New world order) کے نام سے چولا بدل کر لایا گیا ہے جو پچھلے تین سو سال سے تمام عملیات کی بنیاد رہا ہے۔ سترویں صدی میں اس روشن خیالی (Enlightenment) نے سائنس کو تجرباتی نظریہ کے طور پر پیش کیا ۔ فن تحقیق کے اضافی(Relative) رویے کو انھوں نے تمام قدیم اعتقادات وایمانیات کو پرکھنے کا معیار بنایا۔ تجسس جو فلسفۂ تشکیک کی پیداوار تھا، فخرانسانی اور مبالغہ آمیزی کو باعث افتخار قرار دیا۔ اٹھارویں صدی میں اسی فکر کو آگے بڑھا کر معقولیت (Reason)کے زیور سے سنوارا گیا جو تمام صدی کی قوت تصدیق کا جوہر اور تمام کا رناموں کی کنجی قرار پایا۔ Reasonکا دائرہ کار اتنا وسیع ہوا کہ علم طبیعیات، ریاضیات تک محدود نہ رہا بلکہ تمام کاوش انسانی کی توضیح و تشریح کا ذریعہ بن گیا۔ سیاسیات، اخلاقیات اور مذہب کے روحانی شعبۂ حیات کو بھی (Reason)اور منطق کے نظریہ پر پرکھا گیا، خیال تھا کہ اسکی پیچیدگی، تشویش اور اضطراب کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ جو تصور حیات اس جدید منہاج پر پورا نہ اترا اسے رد کردیا گیا یا بے وقوفی اور بے معنی قرار دیا گیا۔ چرچ کو ختم کردیا گیا۔

New world orderدراصل یہودی دانشوروں کی دین ہے۔ عالمی برادری کا نعرہ کوئی نئی بات نہیں، روشن خیالی (Enlightenment) اور معقولیت(Reason)کے تصور بھی عالمی برادری کے علمبردار تھے ۔ سب کا مقصد عقائد اور روحانیت اور مذہب کے خلاف جنگ تھی۔ بیسویں صدی کے وسط میں کمیونزم یہودیت کی ایجاد تھی۔ مسیحیت (مذہب) کو عوام کی افیون قرار دیا گیا۔ روس کی اب ضرورت نہیں رہی جو خود یہودیت کی پیداوار تھا، اسے گرادیا گیا۔ نئے عالمی نظام کا ظہور تین بنیادی شعبوں کے تحت ھے۔ ایک معاشی جوW.T.O. کے تحت تمام دنیا کی معاشیات کو امریکی مفادات کا پابند کرنے کے لیے ہے۔ دوسرا شعبہ عسکری (Defence) کا ہے جس کے تحت تمام دنیا کو نہتا کرنا اور تمام غیر یہودی ممالک کو فوج ختم کرنے اور صرف پولیس رکھنے پر مجبور کرنا ہے۔ تیسرا شعبہ ماحولیات کے َعلَم کے نیچے ہے۔ یہ بڑا ہمہ گیر شعبہ ہے جو بڑے خوبصورت غلاف میں پیش کیا گیا ہے۔ ورڈواچ انسٹیٹیوٹ W.W.I. کے تحت ایک قابل برداشت سوسائٹی (Sustainable Society)کا قیام اسکا بنیادی مقصد تفویض کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ کیسے حل ہو، اسکے لیے قابل برداشت سوسائٹی ضروری ہے جو پانچ ضروریات کو پورا کرے ۔
۱۔ ۲۰۳۰؁ ء تک ضرور قائم ہوجائے۔
۲ ۔توانائی کے لیے رسائل پیدا کرے ۔
۳ ۔موجودہ آبادی کے سائز کو کم کرے۔
۴۔ اس ضرورت سے مطابقت رکھنے والی نئی ٹیکنالوجی بنائے ۔
۵۔ موجودہ معاشی صورت حال کو بدل ڈالے۔
مختصر یہ کہ موجودہ دنیا کے ہوتے یہ سوسائٹی پیدا نہیں ہوسکتی دنیا کی موجودہ شکل کو بدلنے کے لیے پھر ضرورت عقائد اور اقدار کو بدلنے کی ہے۔ گویا فرد کی بنیادی قدروں، امنگوں اور ارادوں کی نئی ترتیب سامنے لائی جائے جو معاشرے کی اجتماعی قدروں کو بدلنے کا ذریعہ بن سکیں۔ اسکے لیے زندگی کی تمام قدروں میں نمایاں اور یکسر تغیر ضروری ہے جسکا سیدھا مقصد ہے تصور کائنات میں تبدیلی اور سیدھے الفاظ میں عقائد میں تبدیلی چنانچہ اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے اقوام قابل برداشتگی (Sustanability) کو مشترکہ مقصد کے بطور اختیا کرتی جائیگی عقائد اور فکری اختلاف ختم ہوتے جائیں گے۔ گویا عقائد کا خاتمہ منزل مقصود ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کر لینے کی انہیں بہت جلدی ہے۔ یہودیت کو یہ احساس ہے کہ کچھ کر لینے کاوقت بہت کم ہے۔ بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف یہودی دانش کدے عقائد کو ختم کرنے کی درپے ہیں تو دوسری طرف غیر یہودی اور خصوصاً مشرقی دانش کدے عقائد اور اقدار کی تعلیم کو تمام تعلیمی پالیسی اور نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ادھر ہارورڈ یونیورسٹی کے چند دانشور یہ اعلان کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب کا زوال ہو جائے گااور تین تہذیبیں اس کی جگہ لے سکتی ہیں۔ ایک اسلامی تہذیب، دوسری چینی تہذیب اور تیسری ہندو یا ہندی تہذیب۔ جلدی یہ ہے کہ بازی کون لے جائے گا۔

اسلامی تہذیب کے اپنے اصول و عقائد ہیں جو اس تہذیب کے تصور کائنات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ۱۱؍ستمبر کے بعد پورے عالم میں ان اصولوں پر نئے انداز میں غور و فکر کا آغاز ہوا ہے۔ خو د مسلمان خود احتسابی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ہم میں کون سی قوت ہے جس کو یہودی دانشور پہچان گئے ہیں اور ہمیں ہدف بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی اور مشرقی غیر یہودی دنیا از سر نو اسلام کو پرکھنے پر تیار ہوئی ہے۔ یہودیت کو جلدی ہے کہ یہ پیغام عام نہ ہونے پائے۔

International Fedration of Indsitutes of Advance Study (IFIAS) Stockhom نے 1981؁ء میں چھپی کتاب (Knowledge and Values)میں ۱۱۱اسلامی تصورات اور عقائد کی نشاندہی کی ہے جو اسلامی تصور کائنات پر مبنی تہذیب کے اجزائے ترکیبی اورعلمی تحقیق کی بنیاد ہونے چاہئیں۔ اس میں توحید، خلافت (Trust ship)، عبادت، علم، حلال، حرام، عدل، ظلم، استقلال (Public Interest) اور زیاں (Waste) اخلاق، آخرت، امن، امانت، عقل، ارض (زمین)، بدعت، دارالسلام (Peace Zone)، دارالحرب(War Zone) دعوت دین، ذکر، دعاء، دنیا، فرض، فتوا، فقہ، غیب وغیرہ ہیں۔ آج کے تہذیبی عناصر میں علمیات کے ساتھ سائنس،ٹکنالوجی، معاشیات، سیاسیات اور میڈیا شامل ہیں۔ ماحولیات سب سے بڑھ کر ایک عنصر بن گیا ہے۔ اب دیکھئے کہ ان تمام تہذیبی عناصر سے اقدار کا رشتہ کس طرح جڑتا ہے۔ کسی سماج اور معاشرے کی کلید میں تاریخی تجربے اور تصور کائنات کے مظہر کے طور پر ٹکنالوجی بنیاد کے پتھر کا کام کرتی ہے۔ یہ بحث تو طویل ہے۔ اتنا اشار ہ کافی ہے کہ مغربی ٹکنالوجی تمام ممالک کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہے جس کے ذریعے مختلف معاشرے اور اس میں بسنے والے افراد ایک مخصوص اعلیٰ (Elite) طبقہ پر تمام عمر منحصر رہیں۔ یہی کچھ حال علم (Knowledge)، سیاست، معاشیات، میڈیا ، ماحولیات، قانون سازی اور تجارت کے میدانوں کا ہے۔
یہودیت اقدار کو مٹانے میں جلدی کرنا چاہتی ہے۔ غیر یہودی دنیا اور مشرق کے دانشور اقدار کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ یہودیت کو جلدی اس لئے ہے کہ مشرق اور غیر یہودی دانش کدے، خود اسلامی فکر کے سوتے اپنی روحانی برکات کے تحت فتحیاب نہ ہو جائیں۔ اسلام وہ اصول مقرر کرتا ہے جس میں تمام تہذیبی عناصر کے ظہور میں کچھ مثبت راہ نما اصول جو توحید، عبادت، امانت، حلال، عدل، استقلاء (Pubic Interest) وغیرہ ہیں۔ اس طرح حرام، زیاں، بدعت، ظلم، خیانت، وہ منفی اصول ہیں جو پابندیاں اور قدغن لگاتے ہیں۔ عدل کا تصور ہمہ گیر ہے جو مالی، سماجی، ٹکنالوجی، سائنس ا ور نفسیات اور علم کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔

ہمارے موجودہ 52اسلامی ممالک میں گوناگوں امنگیں رنگارنگ رجحانات، زیروزبر کا وشیں، پہ درپہ خوف اوردرپردہ تمنائیں اور امیدیں سب مغربی فکر اور یہودی تہذیبی عناصر کی دلدادہ ہیں۔ اسلامی تصور کائنات سے ہمارا رشتہ کمزور ہوتا گیا ہے۔ تمام ٹوٹتے ہوئے رشتے اس بدلتے ہوئے تصور کائنات کی دین ہیں۔
خودمغربی فکرمیں ماحولیاتی آلودگی کے خطرے کی جڑ یہود و نصارا کے فطرت کی طرف رویے کو قرار دیتے ہیں۔ سائنس (Reason) کے خلاف تمام مغربی دانش کدوں میں آواز بلند ہو چکا ہے۔ اسلامی تہذیب کو چیلنج اپنی سچائی ثابت کر دینے کا ہے۔ ایک دنیا حق کو تسلیم کرنے کی منتظرہے۔ ہمارا تصور کائنات ہمارے درپردہ عقائد کا پابند ہے۔ ہمارے گھر، باہر، کنبے اور شہر کے رشتے اور پھر بین الاقوامی سطح پر ملکوں ملکوں سے رشتے ہمارے تصور کائنات سے وجود پاتے ہیں۔ وہ تہذیب جس کی دنیا تمنائی ہوہمارے اسلامی تصور کائنات میں موجود تو ہے مگر کرۂ ارض پر بسے ہوئے کسی بھی اسلامی ملک میں نظر نہیں آتی ہے۔ اس کو واضح کرنا اسی وقت ممکن ہے جب علم وآگہی، سائنس و ٹکنالوجی اور (Economy)اور میڈیا تمام عناصر تہذیب میں ہمارے تصور کائنات کی جھلک نظر آئے۔ اس سمت میں ابھی بہت کچھ نئے نظریے، نئے تجربے اور نئے انکشافات ہونے ہیں۔ جو ایک فعال تصور کائنات کو دنیا سے منوا سکیں اور ایک نئی دنیا سے ہمارے نئے رشتے کی بنیاد پڑے۔
Anjum Iqbal
About the Author: Anjum Iqbal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.