۵ فروری ……یوم یکجئتی کشمیر

۵ فروری کا دن کشمیر کی جدو جہد آزادی میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کشمیر بقول قائد اعظم پاکستان کی شہ رگ ہے۔اہل کشمیر گزشتہ سڑسٹھ سالوں سے تکمیل پاکستان کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد ، ایک ایسی خطرناک محبت، ایک ایسا لازوال رشتہ، جس کی دنیا کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ کچھ جذبے محض دلوں کے سودے ہوتے ہیں، محبت کرنے والے ، محض دوریوں پر غزل سراء ہوتے ہیں، ہجر اور وچھوڑے پر رنج و الم کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کا معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ ایک ایسی محبت اور ایک ایسا لازوال رشتہ…… جس کے لیے اہل کشمیر نے بے مثال قربانیاں دے کر ہزار بار یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اول و آخر پاکستانی ہیں۔ وہ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں، وہ پاکستان کے لیے زندہ رہنے اور پاکستان کے لیے موت کو گلے لگانا باعث عزت و توقیر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سڑسٹھ سالوں میں آٹھ لاکھ سے زائد جوانوں کی قربانی دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور جدوجہد آزادی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ کسی اچانک حملے میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگوں کا کام آجانا اور بات ہے اور کسی منزل اور نصب العین کے لیے مسلسل سڑسٹھ سال تک جمے رہنا، اٹک جانا بلکہ کوہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر کی تاہوں سے زیادہ گہرا اور مضبوط تعلق قائم رکھنا اور اس تعلق کی خاطر مسلسل اپنے بچوں کو قربان کرنا، اپنی عزتوں کی پامالی کو برداشت کرنا، اپنے گھروں اور املاک کو نذر آتش کیے جانے کا روزانہ مناظر دیکھنا، اپنے بڑوں کے تڑپتے لاشے دیکھنا…… اور بات ہے۔

ان سڑسٹھ سالوں سے ہم پاکستانیوں نے کتنے پینترے نہیں بدلے، ہمارے موقف اور ہمارے حوصلے کتنی بار نہیں ہارے۔ ہم نے کتنی بار کشمیر سے ہاتھ نہیں کھینچا، ہم نے 1948 سے 2014 تک کہاں ، کہاں سے پسپائی اختیار نہیں کی۔ ہمیں شائید یاد نہ ہو، یہ کہنے اور لکھنے کے لیے لائبریریاں چھاننی پڑیں گی لیکن کشمیریوں نے ہماری پسپاہیوں کاہر ایک لمحہ اپنے خون سے رقم کیا ہوا ہے۔ جب بھی ہم کوئی ایک قدم پیچھے ہٹے تو بھارتی درندوں نے وہاں کے ایک، ایک کشمیر ی سے حساب لیا۔ کتنے ہیں جنہیں ہزاروں میڑ بلند پہاڑوں سے نیچے پھینک دیا گیا، کتنے ہیں جن کے ناخن کھینچ کر نکال دیئے گئے، کتنوں کے ہاتھ اور پاوں کاٹ دئیے گئے، گھر جلا دئیے گئے، عزت لوٹ لی گئیں۔ اس لیے اہل کشمیر کو ہماری ایک ، ایک پسپائی ازبر یاد ہے۔ مجھے میجر رشید چوہدری کی یہ بات ہمیشہ لرزہ دیتی ہے کہ جب آپریشن جبرالڑ کی ناکامی کے بعد انہیں راجوری سے اپنے سپاہ سمیت واپسی کا حکم ملا تو گاوں کی چند جوان بچیاں ان کے قدموں سے لپٹ گئیں، چاچا کہاں جا رہے ہو اور ہمیں کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو۔ میرے مادروطن کشمیر کی بچیوں کی یہ صدائیاں ہر وقت میرے تحت الشعور میں تازہ رہتی ہیں اور مجھے بے چین رکھتی ہیں۔ یہ میجر رشیدچوہدری کی پسپائی نہیں، پاکستان کی پسپائی تھی اور یہ کشمیر کے کسی ایک گاوں کے بچیوں کی صدا نہیں پورے کشمیر کی بچیوں کی صدا تھی۔ یہ صرف 1965 کی کہانی نہیں ، 1948 سے آج تلک ہر کشمیری بچی پاکستان سے روز یہی سوال کر تی ہے۔

پاکستانی گونگے اور بہرے نہیں۔ پاکستان صرف حکمرانوں، نوابوں، سرداروں ، جاگیرداروں ، خان بہادروں، ذیلداروں اور وظیفہ خوار درندوں سے عبارت نہیں۔ یہ عزیز بھٹی، میجر طفیل، میجر سرور، راشد منہاس، سوار محمد خان محفوظ، کرنل شیر خان، میجر مست گل، میجر عمار محبوب شہید، شہید مقصود الزمان بٹ، بشارت عباسی شہید، شیر خان شہید، کمانڈو سجاد خواجہ شہید المعروف عبدالرحمن جیسے ان لاکھوں شہداء سے عبارت ہے جنھوں نے وطن عزیز پاکستان اور اہل کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا کہ صرف تم ہی ہم سے محبت نہیں کرتے بلکہ ہم پاکستانی بھی تم پر ’’واری، واری‘‘ جاتے ہیں۔ ہم بھی تمہاری خاطر اپنی جان قربان کرتے ہیں، ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں…… تم کبھی خود کو اکیلے نہ سمجھنا۔ ہم اپنی جان وار چلے…… آج نہیں تو کل ان شاء اﷲ تم بھی پاکستان ہو گے اور ہم اور تم مل کر ’’ میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘ کا نعرہ مستانہ لگائیں گئے۔ یہ دن دور نہیں۔ یہ منزل کٹھن ضرور ہے، اس کی راہیں اب گھٹاٹوپ اندھیروں میں گم نہیں بلکہ اس راستے کے ہر موڑ پر ہمارے شہدا ء نے روشنی کے چراغ جلا دئیے ہیں۔ آؤ…… ہم اور تم خون شہداء کی اس معطر روشنی میں مل کر سفر کریں …… یہ روشن روشن راہیں، یہ خون شہداء کی معطر معطر فضائیں…… ہماری راہ رو ہیں، ہماری ہم سفر ہیں۔ شہداء کے خون سے اٹھنے والی خوشبو کبھی تمہیں تھکنے نہیں دے گی، رکنے نہیں دے گی۔ بڑھتے چلو، کاٹتے چلو…… ہمارا دشمن حوصلے ہار چکا ہے۔ ان کے فوجی آر سی سی مورچوں میں دبکے ہوئے ہیں اور واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ پورے عالم سے با حفاظت واپسی کا راستہ مانگ رہے ہیں۔ یہ عصابی جنگ ہے۔ تم ثابت قدم رہنا، کچھ ڈرپوک اور موقع پرست لوگ تمہیں گمراہ کر کے اس راہ کو گھوٹا کرنا چاہتے ہیں۔ میدان ہم مار چکے ہیں، یہ عصابی جنگ بھی ہم ٹیبل پر جیت جائیں گے۔ سید علی گیلانی سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ چکا ہے۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر میدان میں موجود ہے اور تحریک آزادی کشمیر کے آخری معرکے کو جیتنے میں لگا ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ پوری کشمیری قوم اس کی پشت پر موجود ہے۔ اگر قوم اسی طرح اس مرد آہن کے ساتھ کھڑی رہی تو اپنی منزل پا لے گی۔

ہم پورے بیس کروڑ پاکستانی آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی کچھ مجبوریاں ہیں، آپ کا اور ہمارا ڈٹ جانا بھی انہیں مجبور کر دے گا اور وہ بھی آج نہیں تو کل ہمارے ساتھ ہوں گے اور ہم سب مل کر بہت جلد، ان شاء اﷲ بہت جلد سرینگر اور جموں میں جشن آزادی منا ئیں گے۔ ۵ فروری کو ہم اسی عزم کے اظہار کے لیے پاکستان کی ہر گلی اور کوچے میں یہ عہد کریں گے کہ کشمیر پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی، کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔نہ آزادکشمیر صوبہ بن سکے گا نہ کوئی نام نہاد آئینی ترمیم کچھ کام آئے گی، بھارت سے دوستی کی باتیں کرنے والے شہداء کے خون سے گزرنے کی ہمت کیسے پیدا کریں گے۔ پاکستان مردان خدامست انسانوں کے سمندر سے بھرا پڑا ہے۔ نہ بھٹو کشمیر کو صوبہ بناسکا نہ مشرف کی کوئی چال کام آسکی،یہ لولے لنگڑے لوک کیا کریں گے جو اپنے گھروں میں بھی خوف کے سائے سے گھبرائے رہتے ہیں۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117402 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More