اﷲ کا شکر ہے حکومت نے طالبان سے مذاکرات کی رضا منددی
ظاہرکی اور ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی
تقریر میں کیا حقیقتاً یہ پارلیمنٹ کی قراداد اوراے پی سی کی سفارشات کے
عین مطابق ہے گو کہ اس میں دیر ہو گئی مگر پھر بھی یہ قابل تعریف عمل ہے جس
کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ملک میں امن و امان قائم ہونے کے خواہش
مند پاکستان کے تمام حلقوں نے اس کا استقبال کیا اکثریت نے صدق دل اور
اقلیت نے اگر مگر سے لیکن الحمد اﷲ سب اس کام میں شریک ہو گئے اس کمیٹی میں
وزیر اعظم سینئر صحافی کالم نگار تجزیہ نگار جناب عرفان صدیقی،میجر (ر)
محمد عامر، رحیم اﷲ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند شامل ہیں اس کمیٹی کا پہلا
اجلاس وزیر اعظم نے اکتیس جنوری کو طلب کیا جس میں کمیٹی ممبران کے علاوہ
وزیر داخلہ بھی شریک ہوئے اس میٹنگ میں کمیٹی کو با اختیار بنا دیا گیا اور
طالبان سے فوری مذاکرات کرنے کی ہدایت کی گئی کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات
کرنے کے لیے پاکستان میں کسی بھی جگہ کی حمایت کی اور مذاکرات کے لیے
طالبان سے نام بھی طلب کر لیے اس کے ساتھ ہی ساتھ تحریک طالبان پاکستان نے
اس کمیٹی پر اعتماد کیااور بات چیت شروع کرنے کے لیے اپنی پانچ رکنی کمیٹی
کا اعلان کر دیا شاہد اﷲ شاہد کا کہنا ہے طالبان کے تمام ڈھڑے متحد ہیں
سنجیدہ مذاکرات کے حامی ہیں پرویز مشرف اور زرداری نے مذاکرات کو ہتھیار کے
طور پر استعمال کیا مذاکرات کو دھوکے کی سیاست سے پاک کیاگیا تو امن مشکل
نہیں طالبان نے کمیٹی میں عمران خان، مولانا سمیع الحق، پروفیسر محمد
ابراہیم مولانا عبدالعزیز اور مفتی کفایت اﷲ کوشامل کیا الحمد اﷲ پاکستان
کے اندر ایک اچھی فضاء قائم ہو گئی دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ لڑ کر دیکھ
لیا جماعت اسلامی کے امیر کے مطابق ہر لڑائی کے بعد فیصلہ مذاکرات کے ذریعے
ہی ہوتا ہے اب دو نوں فریقوں نے نیک نیتی کا اعلان کیا ہے جو اچھا شکون ہے
برطانیہ میں ایک ہزار سال تک آئر لینڈ کے دہشت گرد لڑنے کے بعد گڈ فرئیڈے
معاہدے کے تحت ایک ہوئے افریقہ میں دہشت گردنیلسن مینڈیلا بھی عرصہ دراز تک
لڑنے کے بعد مذاکرات کی ٹیبل پر آیا کل کے دہشت گرد محب وطن اور امن پسند
ہو گئے اپنے ملک کی ترقی میں شامل ہو گئے دنیا میں اور بھی بہت سے مثالیں
ہیں حقیت یہی ہے کہ معاملات ہمیشہ بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں اﷲ سے دعاء ہے
کہ پاکستان کے دہشت گرد بھی محب وطن اورپرامن بن کر پاکستان کی تعمیر و
ترقی میں شامل ہو جائیں تحریک طالبان کی کمیٹی نے مولانا سمیع الحق کی
زیرصدارت اسلام آباد میں اپنا اجلاس کیا اصل میں یہ دونوں کمیٹیاں ایک پل
کا کردار ادا کرنے والی ہیں اصل فریق تو حکومت اور طالبان ہیں مگر جو دو
فریق لڑ رہے ہیں وہ تو ممکن نہیں کہ ایک دم آمنے سامنے آجائیں کیونکہ اس
میں خدشات ہوتے ہیں پہلے یہ دونوں کمیٹیاں برف کو پگلائیں گی مذاکرات کی
ٹیبل پر دونوں کے اصل نمایندے آمنے سامنے مل بیٹھنے کی سبیل کریں گی حکومت
کے باغی گروپ کے مطالبات سامنے آئیں گے یہ کمیٹیاں ان مطالبات کو کم از کم
اور قابل عمل بنائیں گی چھان بین کے بعد کچھ لو کچھ دو کی فارمولے کے تحت
اس کو بنائیں گی پھر جا کر کہیں بات بنے گی طالبان نے اپنے نمایندے چننے کے
لیے اس سوچ کو سامنے رکھا جو سوچ پاکستان میں آگ و خون کو مذاکرات کے ذریعے
حل کرنے چاہتے ہیں اب ضرورت اس بات کی تھی کے سب پارٹیاں اس کو مان کر
ابتدائی کام کرتیں مگر تحریک کی کور کمیٹی نے عمران خان کو اس کمیٹی میں
شامل ہونے سے روک دیا جو دانشمندی کا ثبوت نہیں ہے عمران خان ہمیشہ مذاکرات
کی بات کرتے رہے ہیں اب جب مذاکرات کی ٹیبل بچھ گئی تو انکار کیوں؟ کیا ہی
اچھا ہو تا وہ عمران کو شرکت کی اجازت دیتے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ تک
نے نے بھی عمران کی شرکت کی اپیل کی ہے۔مولانا فضل ا لرحٰمان نے بھی ہمیشہ
مذاکرات کی بات کی ہے ان کی جماعت نے بھی مشاوارت کے بعد کمیٹی میں شامل نہ
ہونے کی بات کی ہے اور کہا ہے کہ ہماری پارٹی کا رکن پارٹی کے فیصلے
کاپابند ہے پریس کانفرنس میں کہا کہ طالبان کو اپنے اندر سے ممبران کو چننا
چاہیے ہم سے مشاورت نہیں کی گئی اپنے قائم گئے جرگہ کی بات سامنے رکھی کہ
اس جرگے، جس کو سب نے تسلیم کیا تھا کو کیوں نظر انداز کیا گیا ہے ا س روش
سے پاکستان کے لوگ رائے قائم کرنے میں بجا ہوں گے کہ جرگہ بھی صحیح ہے بلکہ
جرگہ کیا ہر قسم کی بات جو صلح کے لیے کی جائے صحیح ہے مگر ان مذاکرات کے
لیے پاکستان کی پارلیمنٹ نے قراداد پاس کی پھر اس پر اے پی سی ہوئی ان
دونوں قومی اداروں کی سفارشات پر مذاکرات کی بات پردردمند انہ عمل ہو رہا
ہے تو وہ اپنے قائم کردہ جرگے کو بیچ میں کیوں اصرار کرتے ہیں صدق دل سے
مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے مولانا صاحب !یہ شروعات ہیں اصل مذاکرات تو
حکومت اور طالبان کے نما یندوں میں ہی ہونگے اس لیے برائے مہربانی روڑے نہ
اٹکائیں طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم
نے مولانا پر اعتماد کیا مگر مولانا کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ذرائع کہتے
ہیں کہ تحریک انصاف اور جمعیت اسلام (ف) کو سیاسی پوئنٹ اسکور کرنیس کے
بجائے اس نازک قومی مذاکرات میں شامل ہونا چاہے یہ قوم و ملت کی خدمت ہے ان
دونوں پارٹیوں کے عمل کو قوم نے پسند نہیں کیا طالبان کی قائم کردہ کمیٹی
نے اپنے اجلاس میں ان دونوں پارٹیوں سے اجلاس میں شرکت کی درمندانہ اور پر
زور اپیل کی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے مطابق حکومتی کمیٹی نے اپنا اجلاس طلب
کیا اور طالبان کمیٹی سے فوراً بات جیت کرنے کا طے کیا ہے طالبان کے ترجمان
کے مطابق انہوں نے ابھی تک کوئی مطالبات نہیں رکھے۔ تین رکنی کمیٹی ہماری
فائنل کمیٹی ہے اسی سے مذاکرات کئے جائیں اس کو مکمل اختیار ہے۔ ادھر تین
رکنی کمیٹی نے کہا ہے ہم سے حکومتی کمیٹی نے رابطہ نہیں کیا ہم جماعت
اسلامی اسلام ا ٓباد کے دفتر میں حکومتی کمیٹی کا انتظار کریں گے پھر قوم
فیصلہ کرے گی کہ کون مخلص ہے۔
قارہین! مسئلے کی نزاکت اوراہمیت کو سمجھتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی ،دینی ،سماجی،تجزیہ
نگار، کالم نگار اور سول سوسائٹی نے مذاکرات کی حمایت کی ہے جو خوش آیند ہے
اپنے اپنے سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ دیں اور قومی سوچ کو اُبھاریں آہیے
ہم سب اس آگ کو بجھانے کی صدقِ دل سے کوشش کریں تاکہ اسلامی دنیا کی واحد
ایٹمی طاقت اسلامی جمہوریہ پاکستان جو امت مسلمہ کی امانت ہے میں امن وامان
ہو ملک ترقی کرے بے قصور لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں صاحبو!اس جنگ نے کبھی
نہ کبھی تو ختم ہونا ہی ہے ایسا نہ ہو کہ ہماری کوتاہی سے سب کچھ بھسم ہو
جائے اور ہم ایک درماندہ قوم بن جائیں تب ہمیں خیال آئے دشمن تو یہی چاہتا
ہے یاد رکھیں تاریخ ہمیں معاف نہ کرے گی اﷲ ہمارے ملک کا محافظ ہو آمین ۔ |