علامہ شبلی نعمانی بنام سر سید احمد خاں

علامہ شبلی نعمانی کے خطوط کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ۹۸؍ مکتوب الیہم کے نام ان کے ۱۰۵۹؍مکاتیب میں سے سرسید کے نام محض سولہ دستیاب خطوط کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان سے شبلی کے نظریات یا اسلوب پر بحیثیت مجموعی بات ہو سکتی ہے، لیکن چونکہ شبلی و سرسید اپنے وقت کے دو عبقری تھے، اس لیے ان کی خط کتابت سے اُس عہد کے خیالات، موضوعات اور اندازِ فکر و نظر پر کچھ نہ کچھ روشنی ضرور پڑتی ہے۔

شبلی ۱۸۵۷ء میں پیدا ہوئے، جب جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سرسید آئینِ اکبری کی تدوین سے اسبابِ بغاوتِ ہند کی طرف قدم بڑھا رہے تھے اور پھر جب شبلی نے پچیس برس کی عمر میں علی گڑھ میں قدم رکھا تو ہندوستانی دانش سرسید کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں اپنا سفر طے کرنے پر مجبور ہو چکی تھی۔ ۱۸۸۳ء سے علی گڑھ میں دونوں بظاہرہ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ذہنی و نظریاتی طور پر بتدریج دُور ہوتے گئے اور اختلافات کی خلیج بڑھتی رہی، حتیٰ کہ شبلی کو سرسید پر براہِ راست تنقید کی ضرورت محسوس ہوئی۔

سرسید احمد خاں کے نام علامہ شبلی کے سولہ دستیاب خطوں میں سے پہلا خط بغیر تاریخ کے ہے، لیکن اس پر سرسید احمد خاں نے ۴؍جنوری ۱۸۷۹ء کو ایک نوٹ لکھا تھا، جب کہ آخری معلومہ خط ۱۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء کا تحریر کردہ ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ۴؍جنوری ۱۸۷۹ء کو لکھا گیاشبلی کا خط سرسید کے نام اوّلین خط نہیں ہے، کیونکہ اس میں شبلی نے کچھ روز پہلے لکھے گئے ایک خط کا ذکر کیا ہے‘۔(۱) بہرحال دستیاب خطوں کے مطابق اس خط کتابت کا دورانیہ جنوری ۱۸۷۹ء سے ۱۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء تک ،یعنی کم و بیش سترہ برسوں پر محیط ہے۔ ذیل میں ان دستیاب خطوں کی تفصیل درج کی جاتی ہے، ساتھ ہی ان خطوں کے ماخذ بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ جن خطوں میں مقام تحریر درج نہیں وہاں ’م ن‘، یعنی مقام ندارد لکھ دیا گیا ہے، البتہ جن مکتوبات سے اندرونی شہادت ملی، وہاں مقامِ تحریر کے بعد سوالیہ نشان دے دیا گیا ہے:
الٰہ آباد،ت ن، مکتوباتِ شبلی م ن، ۴؍مئی ۱۸۸۳ء، مکتوباتِ شبلی
م ن، ۱۹؍دسمبر ۱۸۸۳ء ، مکتوباتِ شبلی م ن، ۱۵؍جون ۱۸۸۴ء، مکتوباتِ شبلی
م ن، ۸؍اگست ۱۸۸۴ء ، مکتوباتِ شبلی م ن، ۲۴؍اپریل ۱۸۸۵ء، مکتوباتِ شبلی
م ن، ۱۴؍جون ۱۸۸۶ء ، مکتوباتِ شبلی اعظم گڑھ؟، یکم جون ۱۸۹۰ء ، مکتوباتِ شبلی
م ن، ۲؍دسمبر ۱۸۹۱ء ، مکتوباتِ شبلی عدن؟، روز شنبہ۸؍مئی ۱۸۹۲ء ، مکتوباتِ شبلی
قسطنطنیہ،۲۵؍مئی۱۸۹۲ء، مکاتیبِ شبلی اوّل باب عالی، ۱۵؍جون ۱۸۹۲ء، مکاتیبِ شبلی اوّل
م ن، ۵؍محرم الحرام ۱۳۱۰ھ، مکتوباتِ شبلی م ن، ۲۰؍جنوری۱۸۹۵ء، مکتوباتِ شبلی
م ن، ۲۲؍جنوری ۱۸۹۵ء ،مک مکتوباتِ شبلی اعظم گڑھ، ۱۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء،م مکاتیبِ شبلی اوّل

علامہ شبلی نے سرسید احمد خاں کو ہمیشہ نہایت ادب و احترام سے مخاطب کیا، مثلاً ’حضرت بندہ‘، ’بحضورِ اقدس‘، ’بحضرتِ اقداس‘، ’حضرتِ اقدس‘، ’حضرت سید اقدس‘، ’سیدی و سیدے‘، ’سیدی‘، ’جناب آنریبل سید احمد خاں صاحب‘، ’قبلہ ام‘، ’سیدنا و مولانا‘، ’سیدی و مولائی‘، ’مطاعی‘۔ سلام و آداب کا بالخصوص التزام نہیں کرتے، البتہ کسی کسی خط میں ’تسلیم‘، ’’ادام اﷲ بقاء ہ‘، ’دام فضلکم‘، القابکم اﷲ‘جیسے الفاظ مل جاتے ہیں۔

شبلی خطوں کا اختتامیہ مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ بالعموم تو وہ اپنا نام ’شبلی نعمانی‘ لکھتے تھے؛ لیکن کبھی ’محمد شبلی‘،کبھی ’محمد شبلی نعمانی‘ اور بعض اوقات صرف ’شبلی‘ لکھتے تھے، البتہ ایک خط میں نام سے پہلے ’خادم‘ اور ایک دوسرے خط میں ’خادمِ قدیم‘ کے الفاظ بڑھائے۔ سرسید کے نام اوّلین خط میں شبلی نے اپنا پورا پتا ’از الٰہ آباد، محلہ کرنیل گنج، مکان بابو ہری موہن داس صاحب‘درج کیا۔ اسی طرح ۲۵؍مئی ۱۸۹۲ء کے ایک خط پر بھی انھوں نے اپنا پورا پتا تحریر کیا۔

شبلی تاریخِ تحریر یا مقامِ تحریر کا التزام باقاعدگی سے نہیں کرتے۔ زمانۂ تحریر اکثر درج کرتے ہیں، جس کی ترتیب تاریخ، ماہ اور سال ہوتی ہے۔ کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو ’یکم‘ کے بجاے ’۱‘ سے ظاہر کرتے ہیں، مثلاً ’۱؍جون ۱۸۹۰ء‘۔ ایک خط پر دِن بھی تحریر کیا ہے، یعنی ’روز شنبہ ۸؍مئی ۱۸۹۲ء‘۔ تاریخِ تحریر کے سلسلے میں ایک خط میں انھوں نے ہجری تقویم سے بھی کام لیا ہے، یعنی ’۵؍محرم ۱۳۱۰ء‘۔ مقامِ تحریر کے حوالے سے وہ اکثر تساہل سے کام لیتے ہیں، چنانچہ سرسید کے نام بارہ خطوں میں اس سے اغماض برتا گیا ہے۔

سرسید کے نام شبلی کے محض تین خط مفصل کہلا سکتے ہیں، باقی تمام خطوط مختصر تحریریں، یعنی رقعات کی ذیل میں آتے ہیں، حتیٰ کہ چند مکاتیب میں تو مکتوب نگار نے فقط دو تین جملوں پر اکتفا کیا ہے۔

پہلا خط ایک بائیس سالہ نوجوان کا ایک معروف شخصیت سے تخاطب ظاہر کرتا ہے۔ یہ خط ایک ضرورت کے پیشِ نظر لکھا گیا، اس لیے اس کے اسلوب میں تعلقِ خاطر کی جگہ ایک اجنبیت پائی جاتی ہے۔ شبلی لکھتے ہیں:
اس سے کچھ روز پہلے ایک خط بغرضِ دریافت قیمت تہذیب الاخلاق ارسال کیا تھا، لیکن اب تک جواب سے مشرف نہ ہوا۔ غالباً وہ خط بھی نہیں پہنچا، ورنہ منفرداً و مشترکاً سے بہت جلد مطلع فرمائیے گا۔ خطباتِ احمدیہ کی کیا قیمت ہو گی اور آیا آپ غریب طالب علموں کے لیے کچھ کمی ہے یا نہیں۔ اردو خطباتِ احمدیہ (اگر جداگانہ مطبوع ہوئی ہو) کی بھی قیمت سے بھی آگاہ فرمائیے گا۔ سنینِ اسلام کی دوسری جلد ہو تو مطلع کیجیے۔ ٹکٹ آدھ آنہ کا ارسال ہے۔امید کہ جلد تر جواب لکھیں گے۔(۲)

جنوری ۱۸۸۳ء کے اواخر میں علی گڑھ کالج میں مشرقی زبانوں کے معلم کی ضرورت ہوئی تو اسسٹنٹ عریبک پروفیسر کی حیثیت سے شبلی کا تقرر عمل میں آیا۔ سرسید پر شبلی کی صلاحیتیں ظاہر ہو گئی تھیں، چنانچہ وہ کئی معاملات میں شبلی کی راے کو اہمیت دینے لگے تھے۔ پروفیسر اصغر عباس نے اپنے ایک مضمون ’بعض مشاہیر کے غیر مطبوعہ خطوط‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’۱۸۸۳ء میں مدرسۃ العلوم کے بیرونی دروازے پر کتبہ لگانا تجویز ہوا تھا۔ اس سلسلے میں جو اشعار کندہ ہونے تجویز ہوئے تھے، انھیں سرسید نے شبلی کے پاس بغرضِ اصلاح بھیجا تھا‘۔(۳) شبلی موصولہ اشعار کے بارے میں اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جو خدمت مرحمت ہوئی، وہ میری وقعت کے حد سے زیادہ ہے، مگر امتثالاً للامر عرض ہے، اشعار مرسلہ غالباً بحر حزج مسدس میں لکھے گئے ہیں اور اس میں صرف دو زحاف قصر و حذت واقع ہوتے ہیں، مگر تین پہلے مصرعوں کا وزن درست نہیں یا شاید مجھی کو غلطی ہوئی ہے۔ جو تغیر اس میں کیا گیا ہے، وہ اس وجہ سے ضروری تھا کہ صنعت اقتباس محفوظ رہے اور اس لحاظ سے ایک شعر اَور مزید [کذا] کہا گیا ہے۔ مجھ کو معلوم ہے کہ مَیں اپنی خدمت کو پوری طرح سے ادا نہیں کر سکا، مگر میری وسعت میں اسی قدر تھا۔ (۴)

سرسید نے علامہ عنایت رسول چریا کوٹی سے عبرانی زبان کا درس لیا تھا، جب کہ شبلی علامہ عنایت رسول کے بھائی مولوی محمد فاروق چریا کوٹی سے فیض یافتہ تھے۔ سرسید ،شبلی کے استاد مولوی محمد فاروق چریا کوٹی کے علم و فضل کے پیشِ نظر انھیں علی گڑھ لانے کے متمنی تھے، چنانچہ انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو شبلی نے لکھا:
مولوی صاحب موصوف وہاں کے قیام کو پسند فرماتے ہیں۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ بہ مجموعہ اس پایے کا شخص اس قلیل مشاہرہ پر بمشکل ہاتھ آ سکتا ہے۔ اگر ارشاد ہو تو مَیں ان کو ساتھ لے آؤں۔(۵)

اگرچہ شبلی نے ’قلیل مشاہرہ‘ کو ان کے علی گڑھ آنے میں رکاوٹ قرار دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سرسید کے نظریات کو پسند نہیں کرتے تھے۔علی گڑھ سے اختلافات میں وہ اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ مسدسِ حالی کے جواب میں مسدسِ عوالی لکھ ڈالا۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے خیال میں،شبلی انھیں علی گڑھ کالج سے وابستہ کرنے کے خواہش مند تھے،مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔(۶)

الفاروق لکھنے کے لیے شبلی کو جن کتابوں کی ضرورت تھی، وہ ہندوستان میں بالعموم دستیاب نہ تھیں، چنانچہ شبلی مطلوبہ کتب کے لیے بے چین رہتے اور مصر و روم و شام کے کتب خانوں سے استفادے کی تدبیریں سوچتے رہتے۔ بالآخر انھیں ۱۸۹۲ء میں اس سیاحت کا موقع ملا۔ ۲۶؍مئی کو وہ علی گڑھ سے چل پڑے اور براستہ بمبئی بحری جہاز کے ذریعے اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ بمبئی سے انھوں نے سرسید کے نام ایک خط لکھا، جو دستیاب نہیں ہو سکا، البتہ ۸؍مئی کو عدن سے لکھا گیا خط علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہونے کی وجہ سے محفوظ رہ گیا۔ اس میں شبلی نے اپنی ناسازیِ صحت اور سفر کی صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
جہاز کی حرکت اور دوران دردِ سر کی وجہ سے مفصل حالات کے لکھنے سے معذوری ہے۔ یہ خط لیٹے لیٹے لکھتا ہوں۔ دو دِن تک سخت تکلیف رہی، مَیں نیم مردہ پڑا رہا۔ اب اچھا ہوں، لیکن جہاز کی تعفن اور جنبش سے کسی وقت طبیعت بحال نہیں ہوتی۔ کھانا نہایت عمدہ ملتا ہے۔ اٹالین ڈش نہایت خوش مزہ ہوتے ہیں۔ کیا لکھوں، لکھا نہیں جاتا۔(۷)

۲۲؍مئی ۱۸۹۲ء کو شبلی قسطنطنیہ پہنچ گئے۔ یہ سیاحت خالصتاً کتب بینی کے لیے تھی، چنانچہ شبلی کی پہلی ترجیح کتب خانوں کا دورہ اور دستیاب کتب سے استفادہ رہی۔ اس حوالے سے وہ خطوں کے ذریعے سرسید کو مسلسل مطلع کرتے رہے:
کتابیں یہاں بہت ہیں اور نادر ہیں، لیکن کہاں تک لکھوائی جا سکتی ہیں۔ امام غزالی کی تصنیفیں یہاں موجود ہیں اور بوعلی سینا کی تو شاید کُل تصنیفات مل سکتی ہیں۔ امام غزالی کے خطوط بھی موجود ہیں۔ خیر، جو ممکن ہو گا، کیا جائے گا۔ ……یہاں آج کل عینی کی شرحِ بخاری چھپ رہی ہے، ۹؍جلدیں چھپ چکی ہیں۔ بہت بڑی کتاب ہے۔ …… بیروت کے علما نے تمام نصاراے عرب، خواہ وہ جاہلیت کے ہوں، خواہ اسلام کے، ان سب کے اشعار کا ایک مجموعہ تیار کر کے چھاپنا شروع کیا ہے۔ ایک جلد چھپ چکی ہے، اسی میں اخطل کا دیوان بھی ہے، لیکن وہ مستقل تین جلدوں میں چھپ چکا ہے۔ یہ آج تک کہیں نہیں مل سکا تھا، یورپ میں بھی اس کی تلاش تھی۔(۸)

قلمی کتابیں یہاں [براے فروخت] نہیں ملیں، مصر میں کبھی کبھی ہاتھ آ جاتی ہیں، اس لیے صرف مطبوع کتابیں خریدی جا سکتی ہیں، لیکن ان کی تعداد بھی متعدبہ ہے۔ …… ارسطو وغیرہ کی کتابوں کے اصلی ترجمے نہایت قدیم خط میں موجود ہیں، لیکن کیا حاصل؟ کتابت کی شرح ۴؍روپے جز سے کسی حال میں کم نہیں ۔ …… عبدالقاہر جرجانی کی تفسیر ہے، مگر اس میں کوئی نئی بات نہیں۔(۹)

واضح رہے کہ ۲۵؍مئی اور ۱۵؍جون کے خطوں میں شبلی نے اس بات کا بالخصوص ذکر کیا ہے کہ یہاں معتزلہ کے بارے میں کتب دستیاب نہیں ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ’نعمانی‘ کو معتزلہ سے متعلق کتب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا وہ سرسید کی خواہش پر ان کی تلاش میں سرگرداں تھے یا خود انھیں اس نظریے سے دلچسپی ہو گئی تھی؟ اتنا ضرور ہے کہ بعد میں شبلی نے ’المعتزلہ و الاعتزال‘ کے نام سے ایک مضمون ضرور لکھا، جو تہذیب الاخلاق کے شمارے جولائی ۱۸۹۵ء شائع ہوا، البتہ اتنی احتیاط کی کہ اس پر ’شبلی نعمانی‘ کے بجاے ’اسدی الاعظمی‘ کا قلمی نام اختیار کیا۔(۱۰) اس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید انھیں یہ مضمون اپنی مرضی کے برخلاف یا کسی [سرسید؟] کے اصرار پر لکھنا پڑا اور پھر یہ کہ اس نامکمل مضمون کی طرف انھوں نے کبھی پلٹ کر نہ دیکھا۔ اس مضمون میں شبلی نے معتزلہ کے لیے توصیفی انداز اپنایا تھا، اس لیے سید عبدالحئی حسنی نے علامہ شبلی کو معتزلی قرار دے دیا۔(۱۱) سید سلیمان ندوی نے شبلی کے ہاں عقل و نقل کی تطبیق کو سرسید کی صحبت کا اثر قرار دیتے ہوئے اس بات کی پُرزور تردید کی کہ شبلی معتزلی بن گئے تھے۔(۱۲)چنانچہ اغلب یہی ہے کہ وہ سرسید کی خواہش کے احترام میں ان کتب کے متلاشی ہوئے، ورنہ سرسید کے نام خطوط میں ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔

قسطنطنیہ میں انھیں زبان کی اجنبیت کی وجہ سے بہت دِقت ہوئی، چنانچہ انھوں نے مطلع کیا کہ ’مَیں نے ترکی پڑھنی شروع کی ہے اور اِن شاء اﷲ کچھ نہ کچھ بقدرِ ضرورت واپسی کے وقت تک سیکھ لوں گا‘۔(۱۳) دوسری مشکل،جو انھیں درپیش تھی، وہ یہ کہ ’ہر روز تین چار میل کا چکر کرنا پڑتا ہے۔ بہت بڑا شہر ہے اور تمام کتب خانے وغیرہ دُور دُور ہیں‘۔(۱۴)

اس سفر میں شبلی کی تخلیقی سرگرمیاں برابر جاری رہیں۔ سرسید کو مطلع کرتے ہیں کہ ’حالاتِ سفر میں ایک قصیدہ موزوں ہو گیا ہے، وہ خط کے ساتھ شامل ہے، مطبع مفید عام میں چھاپ کر علی گڑھ گزٹ کے ساتھ شائع کر دیا جائے تو مناسب ہو گا‘۔(۱۵)یہ اطلاع بھی دیتے ہیں کہ ’مَیں نے ایک مثنوی لکھنی شروع کی تھی، جو ناتمام رہ گئی؛ ستر بہتر شعر تک نوبت پہنچی تھی، پھر طبیعت رُک گئی‘۔(۱۶) ساتھ ہی ساتھ وہ علی گڑھ کالج کو بھی نہیں بھولے۔ شبلی نے وہاں کے ایک فارسی اخبار اختر، جو دو ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا، سرسید کے نام جاری کرادیا اور انھیں لکھا:
اس اخبار میں ہمارے کالج کے حالات چھپتے رہیں اور وہ ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ دیں گے۔ یہاں اکثر لوگ ہندوستان کے نام سے بھی واقف نہیں، ورنہ اگر مسلمانوں کے تمام حالات اور ضرورتیں معلوم ہوں تو کالج کو مدد ملنا یقینا مشکل نہیں۔ ہزاروں میل تک یہاں کے اوقاف کا فائدہ پہنچتا ہے۔(۱۷)

یہاں کا ٹائپ بے انتہا عمدہ ہے۔ تمام دنیا میں اس کا نظیر نہیں۔ علی گڑھ گزٹ کے لیے یا مستقل مطبع کے لیے ضرور خریدنا چاہیے۔ بیروت و ہالینڈ کے حروف میں بھی یہ نوک پلک نہیں۔(۱۸)

مَیں نے کالج کا نتیجہ اکمل الاخبار میں دیکھا اور بے انتہا خوش ہوا، بلکہ سچ یہ ہے کہ اسی عالم میں خط لکھنے بیٹھ گیا، ورنہ معمولی باتیں توروز روز کیا لکھوں۔(۱۹)

مَیں چاہتا ہوں کہ کالج کے لیے چند ترکی زبان کی عمدہ کتابیں خریدی جائیں، جن سے یہاں کی علمی ترقی کا اندازہ ہو سکے گا۔(۲۰)

ان خطوں سے شبلی کے بعض گھریلو حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ یکم جون ۱۸۹۰ء کے خط میں شبلی نے اپنی اہلیہ کی ناسازیِ طبیعت کے تسلسل کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اپنے دادا حسن علی کی رحلت سے مطلع کیا۔ لکھتے ہیں:
افسوس کہ جناب جدِ امجد نے بیاسی برس کی عمر میں، تین چار دِن ہوئے، انتقال کیا۔ اگرچہ ان کی عمر پوری ہو چکی تھی، لیکن چونکہ ان کی موت ناگہانی طور پر ایک صدمے سے ہوئی، اس لیے لوگوں کو نہایت رنج ہوا۔ ان کے تمام قویٰ درست تھے۔ مَیں نے رسالہ حسن[حیدرآباد] ان کو دیا تھا تو بغیر عینک کے پڑھ گئے۔ خدا مغفرت کرے۔ (۲۱)

علاوہ ازیں وہ اپنے والد اور افرادِ خاندان کو بھی یاد کرتے رہے۔ ۲۵؍مئی کو لکھا کہ ’یہ خط والد قبلہ کو بھیج دیا جائے یا اس کی نقل۔ متعدد خطوط لکھنے کی فرصت نہیں‘(۲۲)؛۱۵؍جون کو تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ خط والد قبلہ کے پاس بھیج دیا جائے، میاں حمید کو تاکید فرمائیے کہ مجھ کو نہایت مفصل خط لکھیں اور عزیزوں کے امتحانات کے نتیجے بھی لکھیں‘(۲۳) اور ایک ۵؍محرم کے خط میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ ’مَیں نے والد قبلہ کو دو خط لکھے، لیکن وہاں سے کوئی تحریر نہیں آئی، تردّد ہے۔ آپ نے بھی کچھ تذکرہ نہیں فرمایا، خدا سے امید ہے کہ سب طرح سے خیریت ہو گی‘۔(۲۴)اسی خط میں انھوں نے اپنی دو متضاد کیفیات کا ذکر کیا:
مَیں جانتا ہو کہ میرے احباب مجھ کو بھول گئے ہیں، لیکن محبی خوشی محمد ناظر کے ایک ضمنی تذکرے نے میرے دل میں ایک عجیب رِقت انگیز اثر پیدا کیا۔ آپ ان کو بُلا کر ضرور میری طرف سے ممنونیت اور محبت کا اظہار فرمائیں۔(۲۵)

ہاں، مَیں نادم اور سخت نادم ہوں کہ مَیں نے کسی تحریر میں محبی و مخلصی مولوی سید ممتاز علی صاحب کے حالات نہیں پوچھے۔ حقیقت میں اس سے زیادہ بدعہدی اور بے وفائی نہیں ہو سکتی۔ آپ ضرور ان کی خیریت، مزاج و شغلِ موجودہ سے مجھ کو مطلع فرمائیں۔ اگر مصر میں کوئی کتاب ڈھب کی مل گئی تو ان کو ہدیہ دینے کے لیے اِن شاء اﷲ ساتھ لاؤں گا یہی اس گناہ کا کفارہ ہوگا۔(۲۶)

یہ بھی ہے کہ وہ پردیس میں بیٹھے دوستوں کی کامیابیوں سے خوش ہوتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کا ذکر کر کے مسرور ہوتے ہیں۔ ۵؍محرم کے خط سے دو اقتباس پیش کیے جاتے ہیں:
مَیں نے اکمل الاخبار میں پڑھا کہ مولوی زین العابدین صاحب ’خان بہادر‘ ہوئے۔ اگرچہ اخبار میں زائد تصریح نہ تھی، مگر مَیں نے یقین کر لیا کہ ہمارے ہی مولوی زین العابدین خاں صاحب مراد ہیں۔ اگر ایسا ہے (اور ضرور ایسا ہے) تو میری طرف سے لمبی چوڑی عرض کی جائے[کذا]۔(۲۷)

آپ اس خبر کو سن کر خوش ہوں گے کہ مجھ کو پیش گاہِ سلطانی سے درجۂ چہارم کا تمغۂ مجیدی عطا ہوا۔ (۲۸)

لیکن ساتھ ہی شبلی نے ایک ایسی خواہش کا اظہار کیا، جس سے حیرت ہوتی ہے۔ نام و نمود کی ایسی خواہش کی بظاہر شبلی سے توقع نہیں کی جا سکتی، بہرحال انھوں نے لکھا کہ ’اب تو امید ہے کہ وہاں [ہندوستان] پہنچ کر مجھ کو آپ ’شمس العلماء‘ کا خطاب ضرور ہی دِلوائیں گے‘(۲۹) اورشاید اس خدشے کے پیش نظر کہ سرسید اسے محض خوش طبعی خیال نہ کریں، یہ بھی لکھ گئے کہ ’ورنہ گستاخی معاف، وہی مثل صادق آئے گی کہ چراغ تلے اندھیرا‘۔(۳۰) پھر یوں ہوا کہ سرسید کے یہ لکھنے پر کہ ’مولانا شبلی جیسے فاضل کی قدردانی ترکی گورنمنٹ تو اتنی کرے کہ ’تمغۂ مجیدی‘ عطا فرمائے اور انگریزی حکومت، بڑے افسوس کی بات ہے، اس فرض سے غافل رہے‘(۳۱)، شبلی کو جنوری ۱۸۹۴ء میں ’شمس العلماء‘ کا خطاب مل گیا؛ لیکن دوسری جانب انگریز حکومت یہ گمان کرنے لگی تھی کہ شبلی شاید سلطان عبدالحمید کا سفیر بن کر ہندوستان پلٹے ہیں، چنانچہ حکومت کی یہ بدگمانی شبلی کا تعاقب کرتی رہی، حتیٰ کہ ۱۹۱۱ء کے بعد کسی موقع پر وہ نشانِ محبت،یعنی ’تمغۂ مجیدی‘ چوری ہو گیا۔ (۳۲)

شبلی کی سیاحت محض کتب بینی تک محدود نہ رہی،بلکہ انھوں نے اس ملک کو کھلی آنکھ سے دیکھا۔شبلی سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں دیگر سماجی و سیاسی اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کی ابتری کی اصل وجہ انگریز سامراج کی حکومت ہے، لیکن ممالک اسلامیہ کی سیاحت کے دَوران، جہاں خود مسلم حکومتیں قائم تھیں، ہندوستان ایسی صورتِ حال نظر ٓئی تو وہ بہت مایوس ہوئے۔ ایک خط میں اپنی اس ذہنی و روحانی اذیت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
افسوس ہے کہ عربی تعلیم کا پیمانہ یہاں بہت ہی چھوٹا ہے اور جو قدیم طریقہ تعلیم تھا، اس میں یورپ کا ذرا بھی پرتَو نہیں۔جدید تعلیم وسعت کے ساتھ ہے، لیکن دونوں کے حدود جدا رکھے گئے ہیں اور جب تک یہ دونوں ڈانڈے نہ ملیں گے، اصلی ترقی نہ ہو سکے گی۔ یہی کمی تو ہمارے ملک میں ہے، جس کا رونا ہے۔(۳۳)

شبلی دیگر امور کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات سے ہونے والے ملاقاتوں کا احوال بھی بیان کرتے جاتے ہیں۔ دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
پرسوں مَیں عثمان پاشا سے ملا۔ نہایت اخلاق سے ملے، عربی سمجھ لیتے ہیں اور دو چار معمولی باتیں بھی کر سکتے ہیں۔ مَیں نے ان کے ہاتھ کا بوسہ دینا چاہا،لیکن راضی نہ ہوئے، بلکہ الٹے خود میری تقلید کرنی چاہی۔ رخصت کے وقت فرمایا کہ آپ جب چاہیں، تشریف لائیں، بہت خوشی سے ملوں گا، تمام اَور بڑے بڑے پاشاؤں سے بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔(۳۴)

آج مَیں حسین حبیب آفندی سے، جو بمبئی میں سفیر تھے اور اب یہاں پولیس جنرل ہیں، ملا۔ بے انتہا مہربانی کی۔ گھر کے تمام کمرے دِکھائے، دعوت کی اور بہت سی مہربانیاں کیں۔ وہ اردو بخوبی بولتے ہیں۔ آپ فوراً سیرۃ النعمان کا ایک نسخہ، جو وہاں مَیں دیکھ آیا ہوں اور اس پر کالج کی مہر نہیں لگی ہے، بھیج دیجیے۔ ضرور مَیں ان کو ہدیہ دوں گا، وہ اسی مذاق کے آدمی ہیں۔(۳۵)

کہنے کو تو علی گڑھ کالج سے شبلی کا تعلق سرسید کی وفات(۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء) کے بعد(مئی ۱۸۹۸ء) تک قائم رہا، لیکن بہت دِن پہلے سے دونوں کے مابین اختلافات رونما ہو چکے تھے۔سید سلیمان ندوی نے قیصر باغ لکھنؤ میں ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۷ء کو ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پڑھے گئے ایک مقالے ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘ کے بعض اندراجات کو دونوں کے اختلافات کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے،(۳۶) لیکن سرسید کے نام شبلی کے اس سے بہت پہلے کے خطوط میں موجود تلخی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں اکابر میں ’سب ٹھیک نہیں‘ تھا۔کالج میں درس و تدریس کے حوالے سے ۲۰؍جنوری ۱۸۹۵ء کو شبلی نے ایک تجویز پیش کی:
مولانا عبداﷲ صاحب انصاری ماشاء اﷲ جلیل القدر فاضل اور نہایت بابرکت شخص ہیں۔ اب یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کا ترجمہ، جو کہ خاکسار کالج کلاس کے طلبہ کو پڑھاتا ہے، وہ مولانا صاحب ممدوح کے تعلق کر دیا جائے۔ علاوہ عمدہ تعلیم پانے کے طلبہ کو ان کی برکت سے روزانہ مستفیض ہونے کا موقع ملے گا۔ (۳۷)

اسی روز سرسید نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’یہ کام مولوی عبداﷲ صاحب کے متعلق نہیں ہو سکتا۔ ان سے ایک خاص کام طے ہوا ہے، دیگر خدمات سے ہمیشہ مستثنیٰ رہیں گے‘۔ سرسید یہاں تک لکھ گئے کہ ’آپ برسوں سے بخوشیِ خاطر یہ کام کر رہے ہیں، اب کیوں خود غرضی سے جی چراتے ہیں‘۔(۳۸)ایسی صورتِ حال سے شبلی کو سخت مایوسی ہوئی۔ شبلی کے ردِ عمل کے لیے شبلی کا خط پیش کیا جا سکتا ہے، جس میں آہنگ اور تلخی میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ شبلی لکھتے ہیں:
اگر جناب کو کچھ خرابی کا احتمال ہو تو مولوی عبداﷲ صاحب کے تعلق یہ کام صرف ایک دو مہینے کے لیے کر دیا جائے۔ میری یہ استدعا ایک معمولی بات تھی، لیکن بعض وقت بدقسمتی سے چھوٹی سے بات بھی ایک امرِ مہم بن جاتا ہے۔ جب مولوی صاحب ہر ہفتہ نہایت تفصیل و توضیح کا موقع پاکر وعظ میں محتاط ہو گئے ہیں تو ترجمہ میں کیوں نہ احتیاط کریں گے۔ مَیں پہلے روز ان کو قرآن کے گھنٹہ میں بلا کر دِکھا دوں گا کہ مَیں اس طرح پڑھاتا ہوں اور آپ کو بھی یونہی پڑھانا چاہیے۔ ورنہ وہ ضرور اُسی طرح پڑھائیں گے۔کالج کا ،بخدا، اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ جو شخص خاص دینیات کے لیے ایک معقول مشاہرہ پاتا ہو، کالج کی انتظامی حیثیت سے یہ کام اس کے تعلق ہونا بہتر ہے۔ میری ذاتی غرض صرف اس قدر ہے کہ مجھ کو لکھنے پڑھنے کے لیے وقت نکل آئے گا، ورنہ چونکہ جاڑوں میں مدرسہ ۹؍بجے سے ہوتا ہے اور صبح ۷؍بجے ہوتی ہے، اس لیے ضروریات سے فارغ ہو کر ذرا دیر کے، بعد کھانا کھانے کے، مدرسہ جانے کی پڑ جاتی ہے۔ اگر میری استدعا کو میرے جی چرانے اور کسی قسم کی خود غرضی پر محمول کیا جائے تو میری کمال بدقسمتی۔ اس باب میں میرے یہ آخری کلمات ہیں۔(۳۹)

شبلی نے تو’آخری کلمات‘ لکھ دیے، لیکن سرسید کے نقطہ نظر سے ابھی ’حرفِ آخر‘ باقی تھا، چنانچہ انھوں نے ۲۲؍جنوری ۱۸۹۵ء کو درج بالا مراسلے کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے اپنی طولانی تحریر کو ایسے عنوان سے شروع کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مجھ کو مولوی صاحب کے کام پر اطمینان نہیں‘، بلکہ سرسید نے کا کہنا تھا کہ ’مجھے ان پر بہت بڑا طمینان ہے، وہ صدہا علما میں سے اس جلیل القدر کام کے واسطے منتخب کیے گئے ہیں۔ مَیں کسی طرح ان کے خلافِ مرضی کام ان کے متعلق کرنا پسندنہیں کرتا‘، حتیٰ کہ سرسید نے یہاں تک لکھا کہ ’مَیں منشی سعید احمد صاحب (؟)کی معرفت مولوی صاحب کی مرضیِ مبارک دریافت کروں گا‘۔(۴۰) اس سلسلے میں آئندہ کیا کارروائی ہوئی؟ اس کی بابت معلوم نہیں ہو سکا۔

سرسید کے نام شبلی کا آخری خط ۱۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء کو لکھا گیا، جس میں انھوں نے علی گڑھ کالج میں ہونے والے مبینہ غبن کے بارے میں سرسید کو آگاہ کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’غبن کا معاملہ، خدا خیر کے، بخیر انجام ہو۔ ہم لوگ بایمان و یقین جانتے ہیں کہ اَور صیغوں میں بھی نہایت ابتری ہے، مگر جرأتِ اظہار نہ تھی۔ کم از کم سال میں [ایک بار] قاعدے کے موافق جانچ تو ہونی چاہے‘۔(۴۱) اس خط کے جواب میں سرسید نے محض دو جملے لکھ کر بھیجے، یعنی ’جن صیغوں میں آپ کے نزدیک، ابتری ہے، ان کے نام بتانے ضروری ہیں۔ امید ہے کہ اس سے مطلع فرماویں گے‘۔(۴۲)

اوّل اوّل جب شبلی کے خطوط جمع کرنے کے حوالے سے شیخ رشید الدین انصاری نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو جواب میں شبلی نے لکھا کہ ’میرے خطوط بالکل بے مزہ ہوتے ہیں۔ ان کو کیا جمع کرتے ہو۔ جب مجھ کو خود مزہ نہیں آتا تو اَوروں کو کیا آئے گا‘،(۴۳) لیکن شبلی کے بعض خطوں میں ایسی شگفتگی پائی جاتی ہے کہ اگر شبلی اس طرف توجہ کرتے تو ان کے خط ایسے ’بے مزہ‘ نہ رہتے۔ سرسید کے نام ایک خط سے اقتباس دیکھیے:
قسطنطنیہ کی آب و ہوا کی عمدگی اس قابل ہے کہ انسان اپنی عمر کا ایک حصہ ضرور اس کی نذر کرے۔ اگر مَیں پرہیز کر سکتا تو موسم کی عمدگی سے بہت فائدہ اٹھاتا اور خوب موٹا تازہ ہو کر آتا، لیکن یہاں کے لذیذ میوے، جو لذت کے ساتھ کم بخت نہایت ارزاں بھی ہیں، کسی طرح مجھ جیسے شخص کو اعتدال کی حد پر نہیں رہنے دیتے۔(۴۴)

دستیاب خطوط کی روشنی میں ہونے والی درج بالا گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسید کے نام شبلی کے تمام خطوط منصہ شہود پر نہیں آ سکے۔ موجودہ خطوں سے اگرچہ سرسید اور شبلی کے تعلقات کے تمام نشیب و فراز نمایاں نہیں ہوتے، تاہم لب و لہجے کے تغیرات کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے۔ ان خطوں سے سرسید کے دل میں شبلی کی اہمیت، سرسید سے مخاطب ہوتے ہوئے شبلی کا انکسار، اہل خانہ اور افرادِ خاندان سے متعلق معلومات، ترکی کے کتب خانوں کا کسی قدر احوال، کتب کی دستیابی، معتزلہ سے ان کی دلچسپی، قسطنطنیہ میں مشاہیر سے ملاقاتوں، ترک تعلیمی اداروں کی صورتِ حال، وطن میں عزیزوں اور دوستوں سے ان کے قلبی تعلق، تمغہ ملنے پر اظہارِ مسرت اور امتیاز حاصل کرنے کی خواہش اور سرسید سے تعلقات میں در آنے والی خلیج کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر کبھی گم شدہ خطوط دریافت ہو سکے تو شاید ان دونوں عظیم شخصیات کے درمیان اشتراکات و اختلافات کو زیادہ بہتر اندازہ میں سمجھا جا سکے۔
ز
حوالے:
۱۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ قبل از ۴؍جنوری ۱۹۷۹ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی مرتبہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، اعظم گڑھ: ادبی دائرہ، ۲۰۱۲ء، ص ۱۷
۲۔ ایضاً
۳۔ پروفیسر اصغر عباس: ’بعض مشاہیر کے غیر مطبوعہ خطوط‘، مطبوعہ اردو ادب، علی گڑھ، شمارہ ۱، ۱۹۷۰ء، حاشیہ ۱۰۶۔ بحوالہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی (مرتب): مکتوباتِ شبلی، ص ۲۹
۴۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۴؍مئی ۱۸۸۳ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۱۸
۵۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۱۸؍اگست ۱۸۸۴ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۰-۱۹
۶۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی(مرتب): مکتوباتِ شبلی، ص ۳۰
۷۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ یکم جون ۱۸۹۰ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۱
۸۔ شبلی نعمانی بنام سرسید،مرقومہ ۸؍مئی ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۳
۹۔ شبلی نعمانی بنام سرسید،مرقومہ ۲۵؍مئی ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل مرتبہ سید سلیمان ندوی، اعظم گڑھ: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۱۰ء، ص۱۴-۱۳
۱۰۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۱۵؍جون ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۵
۱۱۔ سید سلیمان ندوی: حیاتِ شبلی، اعظم گڑھ: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۰۸ء، ص ۲۳۹
۱۲۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی: آثارِ شبلی، اعظم گڑھ: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۱۳ء، ص ۵۴۲
۱۳۔ سید سلیمان ندوی: حیاتِ شبلی، ص ۲۳۷
۱۴۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، ۲۵؍مئی ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ۱۳
۱۵۔ ایضاً، ص ۱۴
۱۶۔ ایضاً
۱۷۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۵؍محرم الحرام۱۳۱۰ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ۲۶
۱۸۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۲۵؍مئی ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۵-۱۴
۱۹۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۱۵؍جون ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۶
۲۰۔ ایضاً
۲۱۔ ایضاً
۲۲۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۲۵؍مئی۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۴
۲۳۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۱۵؍جون ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۶
۲۴۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۵؍محرم الحرام ۱۳۱۰ھ، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۵
۲۵۔ ایضاً
۲۶۔ ایضاً
۲۷۔ ایضاً
۲۸۔ ایضاً، ص ۲۷
۲۹۔ ایضاً
۳۰۔ ایضاً
۳۱۔ سید سلیمان ندوی: حیاتِ شبلی، ص۲۰۴
۳۲۔ ایضاً، ص ۲۳۴
۳۳۔ شبلی بنام سرسید، مرقومہ ۱۵؍جون ۱۸۹۲ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۶
۳۴۔ ایضاً، ص ۱۵
۳۵۔ ایضاً، ص۱۷-۱۶
۳۶۔ سید سلیمان ندوی: حیاتِ شبلی، ص ۱۳۶
۳۷۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۲۰؍جنوری ۱۸۹۵ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۷
۳۸۔ سرسید احمد خاں بنام شبلی نعمانی، مرقومہ ۲۰؍جنوری ۱۸۹۵ء، مشمولہ علامہ شبلی کے نام، ص۳۱
۳۹۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۲۲؍جنوری ۱۸۹۵ء، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۸
۴۰۔ سرسید احمد خاں بنام شبلی نعمانی، مرقومہ ۲۲؍جنوری ۱۸۹۵ء، مشمولہ علامہ شبلی کے نام، ص۳۲-۳۱
۴۱۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۱۲؍ستمبر ۱۸۹۵ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۷
۴۲۔ سرسید بنام شبلی نعمانی، مرقومہ ۱۵؍ستمبر ۱۸۹۵ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۱۷
۴۳۔ شبلی نعمانی بنام شیخ رشید الدین انصاری، مرقومہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۳ء، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۳۰۷
۴۴۔ شبلی نعمانی بنام سرسید، مرقومہ ۵؍محرم الحرام ۱۳۱۰ھ، مشمولہ مکتوباتِ شبلی، ص ۲۴

Khalid Nadeem
About the Author: Khalid Nadeem Read More Articles by Khalid Nadeem: 14 Articles with 39975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.