ایک سیانے کا قول ہے’’بچہ کوری سلیٹ کے مانند ہے،اس پہ جو
چاہے لکھ ڈالو۔‘‘یہ بات سو فیصد سچ ہے،خصوصاً جب ’’جنگلی بچوں‘‘(Feral
Children)کے عجیب و غریب واقعات سے آگاہی مل جائے۔ان کے عقل دنگ کر دینے
والے واقعات پڑھ کے احساس ہوتا ہے کہ ماحول اور ساتھی انسانی سوچ و رہن سہن
پر قوی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان انوکھے بچوں پہ ہوئی تحقیق واضح کرتی ہے کہ
یہ انسانی بچے جس جانور…بھیڑئیے،کتے،بندر یا شترمرغ وغیرہ کے درمیان پلے
بڑھے،ان میں اسی حیوان کی بعض خصوصیات پیدا ہو گئیں۔یہ امر افشا کرتا ہے کہ
تمام جانداروں میں انسان ہی سب سے زیادہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ بہت جلد
اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرلے۔ورنہ آپ کتے یا بلی کا پلّا لے کر پالیں ،تو
وہ کبھی انسان کے مانند نہیں چلے گا اور نہ ہی باتیں کرے گا۔مگر انسانی بچہ
تقریباً ہر جانور کی بولی سیکھنے اور چوپائے کی طرح چلنے پہ قادر ہے۔ تاریخ
ِانسانی میں ایسے کئی بچوں کا تذکرہ ملتا ہے جو بھیڑیوں،کتوں،بندروں وغیرہ
کے درمیان رہتے ہوئے پلے بڑھے۔اسی باعث ان میں متفرق حیوانی خصوصیات نے بھی
جنم لیا۔سائنس داں ایسے بچوں کو بہت قیمتی گردانتے ہیں۔کیونکہ ان پہ ہوئی
تحقیق آشکارا کرتی ہے کہ ماحول انسانی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں کس حد
تک اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ عموماً یہ بچے گمشدہ ہوتے یا والدین کی بے
توجہی کے باعث حیوانی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ایسے ہی بچوں کی
داستانوں کے بطن سے ٹارزن جیسے لازوال کردار وجود میں آئے۔بعض بچوں کو تو
والدین ہی نے ’’پالتو جانور‘‘ بنا ڈالا۔ذیل میں چند ایسے ہی جنگلی بچوں کی
بیان پیش ہے جو کہ دنیا میگزین میں شائع ہوا اور اب یہاں ہماری ویب کے
قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے۔
|
جرمنی کا جنگلی پیٹر
1725ء میں جرمن شہر،ہیملین(Hamelin)کے نزدیک واقع جنگل سے برطانوی
بادشاہ،جارج اول کے شکاریوں کو ایک بارہ سالہ بچہ ملا۔اس کا برہنہ جسم
بالوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ باآسانی درختوں پہ چڑھ جاتا ،پتے و ٹڈے کھا کر
پیٹ بھرتا ،جانوروں کی طرح زبان سے پانی چاٹ کے پیتا اور بولنا نہیں جانتا
تھا۔وہ جانور کی طرح ہاتھوں پیروں کے بل چلتا دوڑتا ۔گویا انسانی معاشرے سے
کٹے اس بچے نے مکمل طور پہ حیوانی بود و باش اختیار کر لی تھی۔ برطانوی
شکاری اسے عجوبہ سمجھ کر اپنے شاہ کے پاس لے گئے جو فرانس کے دورے پہ آیا
ہوا تھا۔ جارج اول لڑکے کو برطانیہ لے آیا اور پیٹر کا نام دیا۔یہ انسانی
تاریخ کا پہلا مصدقہ ’’جنگلی بچہ ‘‘ ہے جسے برطانوی شاہ نے اپنے محل میں
’’پالتو جانور‘‘ بنا دیا تاکہ موصوف کے بچے اس کی حرکتوں سے لطف اندوز ہوں۔
پیٹر کی گردن میں پٹاّ بندھا ہوتا تھا تاکہ وہ کہیں کھو جائے تو اس کی
بدولت واپس مل سکے۔ پیٹر (Peter the Wild Boy)کو انسانی رہن سہن سکھانے میں
شاہی ملازمین کو خاصی دقت اٹھانی پڑی۔ بہرحال وہ انسانوں کی معیت میں رہتے
ہوئے کئی حیوانی عادات بھول گیا۔تاہم وہ ساری عمر بول نہ سکا۔وہ صرف دو لفظ…پیٹر
اور کنگ جارج بول سکتا تھا۔1785ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کی داستان کئی
یورپی مورخین نے تحریر کی ہے۔ |
|
شیمپئین کی جنگلی لڑکی
اس جنگلی لڑکی کا اصل نام میری انجلیق میمی تھا۔1712ء میں امریکی
شہر،ویسکونسن میں پیداہوئی۔نو سال کی تھی کہ ایک فرانسیسی امیر کی بیگم اسے
بطور ملازمہ اپنے ساتھ فرانس لے آئی۔ میری(Marie-Angeilque) کی بدقسمتی کہ
جب وہ فرانس پہنچی تو وہاں طاعون پھیل چکا تھا۔اس موذی مرض کی لپیٹ میں آ
کر بچی کی مالکہ بھی چل بسی۔جب کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں رہا اور سب
کو اپنی جانیں بچانے کی پڑ ی، تو میری نے نجانے کیا سوچ کے جنگل کا رخ کر
لیا۔ اس نے پھر جنگلوں میں رہتے ہوئے ’’دس سال ‘‘ گزارے۔یہ طویل ترین عرصہ
ہے جو کسی انسان نے مصدقہ طور پہ جنگل میں رہتے ہوئے بسر کیا۔چونکہ اس
دوران میری مسلسل جانوروں کے درمیان رہی،سو بڑی حد تک خود بھی حیوان بن
گئی۔جب 1731ء میں علاقہ شیپمئین کے دیہاتیوں نے اسے پکڑا،تو میری کی
انگلیوں کے ناخن خوب بڑھے ہوئے تھے۔آنکھوں کی پتلیاں مسلسل حرکت کرتی
رہتیں…کہ جنگل میں رہتے ہوئے اسے ہمہ وقت چوکنا رہنا پڑتا تھا۔نیز وہ بلی
کی طرح سکڑ و جھک کے پانی پیتی۔ میری نو برس انسانوں کے درمیان گزار چکی
تھی،سو اسے انسانی عادات اپناتے ہوئے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔رفتہ رفتہ
لوگوں کو اس کی دیگر حیوانی عادات بھی معلوم ہوئیں۔مثلاً وہ اناج نہ کھاتی
بلکہ مینڈک،پتے،کچا گوشت،شاخیں اور جڑیں اس کی مرغوب غذائیں تھیں۔ جنگل کی
سخت زندگی نے اس کی انگلیاں اور انگوٹھے لمبے کر ڈالے تھے…تاکہ وہ ہاتھوں
سے زمین کھود کے جڑیں نکال سکے۔انہی کی وجہ سے وہ بندروں کی طرح درختوں پہ
لٹکنا اور چھلانگیں مارنا بھی سیکھ گئی۔میری انیس سالہ لڑکیوں کی نسبت
زیادہ تیزرفتاری سے بھاگتی اور بہت عمدہ نظر رکھتی تھی۔1737ء میں فرانسیسی
ملکہ کی ماں اور پولینڈ کی ملکہ شیپمئین کے اس مقام سے گزری جہاں میری مقیم
تھی۔ شکار کھیلنے کا موڈ بنا تو ملکہ اسے بھی ساتھ لے گئی۔جنگل میں میری نے
اتنی پھرتی سے ایک خرگوش پکڑا کہ سبھی حیران رہ گئے۔اس نے خرگوش کی کھال
بھی چند لمحوں میں اتار ڈالی۔ بعد ازاں اس نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور نن بن
گئی۔1765ء میں ممتاز اسکاچ فلسفی،مونبوڈو(Monboddo)نے میری کا انٹرویولیا
تو اسے غیر معمولی عورت قرار دیا۔تاہم اس خاتون کی شہرت اب افسانوی ہیرؤنوں
کے تلے دب چکی۔وہ پیرس میں رہائش پذیر تھی کہ 1775ء میں چل بسی۔
|
|
جسے شترمرغ نے پالا
یہ 1945ء کی بات ہے،صومالیہ میں ایک پانچ سالہ لڑکا ،سیدی محمد اپنے گاؤں
کے مضافاتی علاقے میں کھیل رہا تھا۔وہ کھیل میں ایسا مگن ہوا کہ کھیلتے
کھیلتے صحرا میں جا نکلا اور بھٹک گیا۔ جب حواس بحال ہوئے تو اپنا گھر
ڈھونڈنے لگا۔گھومتے پھرتے ایسے علاقے میں جا نکلا جہاں شترمرغوں کا بسیرا
تھا۔تب وہاں ان کے بچے کھیل رہے تھے۔سیدی محمد فطرتاً ان کے پاس چلا
گیا۔لگتا ہے، حیوانوں کے بچوں اور انسانی بچے کے جسموں کی بوئیں گھل مل
گئیں اور ماؤں نے سیدی کو بھی اپنا بچہ ہی سمجھا۔جب حسب ِجبلت شتر مرغوں نے
اپنے بچے پروں میں سمیٹے ،تو ان میں سیدی بھی شامل تھا۔ یوں بھٹکے بچے کو
سر چھپانے کا ٹھکانا مل گیا۔وہ پھر انہی جانوروں کے ساتھ رہنے لگا اور ان
کی کئی عادات اپنا لیں۔ نو سال بعد شکاریوں نے اسے دریافت کیا، تو وہ واپس
انسانی دنیا میں پہنچا۔سیدی تب تک گھاس اور جڑی بوٹیاں کھانے کا عادی ہو
چکا تھا۔ نیز قدرت نے اسے شترمرغ کے مانند تیزی سے دوڑنا سکھا دیا
تھا۔بہرحال انسانوں میں آنے کے بعد سیدی بھی آہستہ آہستہ ہماری طرح
کھانا پینا اور بولنا چالنا سیکھ گیا۔
|
|
بھیڑئیے جس کے محافظ رہے
یہ 1953ء کا واقعہ ہے، اسپین کے رہائشی،سات سالہ مارکوس روڈگویز(Marcos
Rodríguez) کو ایک سنیاسی گڈریے نے اس کے باپ سے خرید لیا۔وہ پھر اسے سیرا
مورینا نامی پہاڑی علاقے میں لے گیا جہاں وہ معاشرے سے الگ تھلگ رہتے اپنے
فارم میں بھیڑ بکریاں پالتا تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ گڈریا چند ماہ بعد
چل بسا۔مارکوس اپنی سوتیلی ماں کے مظالم سے بہت تنگ تھا۔سو اس نے گھر نہ
جانے کا فیصلہ کیا اور پہاڑوں کی سمت نکل گیا۔پچھلے چند ماہ کا تجربہ اسے
بتا چکا تھا کہ جانور پکڑنے کے لیے ڈنڈیوں اور پتوں سے پھندا کیونکر بنتا
ہے۔ تعجب خیز بات یہ کہ کچھ ہی عرصے میں پہاڑوں پہ مقیم بھیڑیے، سانپ، ہرن،
لومڑیاں وغیرہ اس کے دوست بن گئے۔یوں اس کا احساس ِتنہائی جاتا رہا اورایک
انسانی لڑکا پہاڑی جنگلی ماحول کا حصّہ بن گیا۔وہ طویل عرصہ غار میں
بھیڑیوں کے ساتھ رہا جو اس کی حفاظت کرتے تھے۔ 1965ء میں آخر پہاڑوں پہ
آنے والے شکاریوں نے اسے دیکھ لیا۔اسے پھر زبردستی قریبی گاؤں لایا گیا۔تب
وہ صورت شکل اور عادات سے کوئی جانور ہی لگتا تھا۔انسانی زبان بھول چکا تھا
اور غُرا کے بات کرتا۔ مگر مارکوس کچھ عرصہ انسانوں کے درمیان رہا ،تو رفتہ
رفتہ اس کی حیوانی عادتیں ختم ہونے لگیں۔ بعد ازاں اسپین کے مشہور ماہر
بشریات اور مصنف،جبرائیل جینر نے مارکوس کی دس سالہ جنگلی زندگی پہ تحقیق
کی اور اسے سچ پایا۔سو اس نے اسی موضوع پہ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔نیز ایک
ناول بھی قلمبند کیا جس پہ ’’Entrelobos‘‘نامی ہسپانوی فلم بنائی گئی۔
|
|
چوں چوں کرتا بچہ
2008 ء میں روسی پولیس نے وولگاگراڈ (Volgograd) شہر میں واقع دو کمروں کے
فلیٹ پہ چھاپہ مارا۔کسی نے وہاں ایک عجیب الخلقت بچہ موجود ہونے کی اطلاع
دی تھی۔سپاہی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ فلیٹ ہمہ اقسام کے پرندوں سے بھرا
پڑا تھا جو چھوٹے بڑے پنجروں میں بند تھے۔مگر انھیں زیادہ حیرت ایک سات
سالہ لڑکے کو دیکھ کر ہوئی۔ جب ایک سپاہی نے لڑکے سے بات کرنا چاہی،تو وہ
کسی چڑیا کے مانند چوں چوں کرنے لگا۔جب اسے احساس ہوا کہ ہونق بنے سپاہیوں
کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی ،تو وہ پرندوں کی طرح ہوا میں ہاتھ پھڑپھڑانے
لگا۔ 31سالہ ماں سے تفتیش ہوئی،تو انکشاف ہوا کہ اس کا بیٹا انسان کی طرح
نہیں بول سکتا…کیونکہ پرندوں کی حد سے زیادہ عاشق ماں نے اسے بھی کسی پرندے
کی طرح پالا تھا۔سو وہ صرف پرندوں کی زبان ہی بولتا تھا۔ ماں بہت کم بیٹے
کو باہر لے جاتی تھی اورنہ کبھی اس سے بات کرتی۔لہذا لڑکا پرندوں کے درمیان
رہتے رہتے ان کی بولی سیکھ گیا۔سپاہی اسے علاج گاہ لے گئے تاکہ لڑکے کو
انسان کے جون میں لایا جا سکے۔وہاں نیا انکشاف یہ ہوا کہ لڑکا دانہ دنکا
بہت شوق سے کھاتا ہے۔
|
|
بھونکنے والی لڑکی
اوکسانا مالایا Oxana Malaya انیس سو تراسی 1983 میں نووا بلاگویس چینکا
نامی یوکرائنی گائوں میں پیدا ہوئی۔اس بدقست لڑکی کی داستان رونگٹے کھڑے کر
دینے والی ہے۔اوکسانا کے والدین شرابی ،خودغرض اور اپنی ذات میں مگن رہنے
والے تھے۔چناں چہ انھیں اس کی کوئی پروا نہ تھی۔ایک دن تین سالہ اوکسانا
کھیلتے کھیلتے گاؤں کے اس الگ تھلگ واقع حصّے میں چلی گئی جہاں آوارہ کتے
رہتے تھے۔کتوں نے بچی سے شفقت برتی ،تو وہ وہیں رہنے لگی۔بچی نے پھر کتوں
کے ساتھ رہتے ہوئے پانچ سال گزارے۔جو کتے کھاتے،وہی اوکسانا کھا لیتی اور
یوں زندہ رہی۔ کتوں کی معیت میں رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں ان کی
عادات پیدا ہو گئیں۔وہ انسان کی طرح بولنے کے بجائے غُرا اور بھونک کے بات
کرنے لگی۔ ہاتھ پاؤں کے بل چلتی۔ہر شے کو سونگھنا اس کی عادت بن گئی۔1991ء
میں جب مقامی انتظامیہ نے کسی باہوش دیہاتی کی خبر پہ اسے دریافت کیا،تو وہ
اوکسانا کی حالت زار دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ اوکسانا تب سے ایک اسپتال میں
زیرعلاج ہے۔لیکن وہ کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتی۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے
دماغ کی نشوونما ایک چھ سالہ بچے کی سطح پہ پہنچ کر رک چکی۔
|
|
یوگنڈا کا بندر بچہ
یہ1981ء کی بات ہے جب افریقی ملک یوگنڈا میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔تب
علاقہ لویرو میں مقیم ایک جوڑے نے اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ جنگل میں پناہ
لی۔لیکن وہ مخالفوں کے ہتھے چڑھ گئے۔انھوں نے میاں بیوی کو تو مار ڈالا،بچے
کو جانوروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ جنگل کے باسی
بندروں نے اس انسانی بچے کو لقمہ تر بنانے کے بجائے پال لیا۔بچے نے پھر
اپنی ابتدائی زندگی کے چار سال بندروں کے ساتھ ہی گزارے…اور خود بھی تقریباً
بندر بن گیا۔ 1985ء میں قومی مزاحمتی فوج سے تعلق رکھنے والے فوجی جنگل سے
گزرے۔انھوں نے دیکھا کہ بندروں کے درمیان ایک انسانی بچہ بھی گھوم پھر رہا
ہے۔چناں چہ انھوں نے بھاگ دوڑ کے اسے پکڑ ہی لیا۔فوجی بتاتے ہیں:’’بندروں
نے شدید مزاحمت کی۔جب ہم نے ہوا میں گولیاں چلائیں تبھی وہ فرار ہوئے۔ایک
بندریا تو لڑکے سے یوں چمٹ چمٹ جاتی تھی جیسے اس کی ماں ہو۔‘‘ وہ لڑکا
بندروں کی طرح خوخیاتا اور انہی کی طرح جھک کر ہاتھوں پیروں کے سہارے چلتا
۔گھاس پھونس اس کی مرغوب غذا تھی۔بندر کے مانند زبان باہر لٹکی رہتی اور وہ
چھپنے کی جگہ تلاش کرتا رہتا۔ آج یہ لڑکا،جسے رابرٹ مایانجا(Robert
Mayanja )کا نام دیا گیا،یوگنڈین دارالحکومت ،کمپالا کے ایک یتیم خانے میں
رہتا ہے۔اس کی ذہنی حالت میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔بندروں کے چار سالہ
ساتھ نے اسے ذہنی طور پہ بہت پسماندہ بنا دیا۔
|
|