میں جب دنیا کے کام دھندوں سے تھکاہارا بستر پر لیٹتاہوں تودل و دماغ راحت
و سکوں کا گہوارہ بن جاتے ہیں ۔ایسے میں دنیا کی الجھنوں ،رزق روزگار کے
مصروفیت و دیگر کاموں کی کوفت سے آزاد پر ان لمحوں کو غنیمت جانتے ہوئے
عالم دنیا کے تخیلات میں نظارے کرتاہوں اور مظاہرِ عالم پر غورو فکر کے
گھوڑے دوڑاتاہوں ۔ان دنوں سردی سردی کی سی سی کی آواز سنائی دے رہی تھی
۔میں خود بھی ایسی ہی آوازیں بلاقصد نکال رہاتھا۔چینل سے چھٹی کرنے کے بعد
جب لیاقت لائبریری تک پیادہ جاتاہوں توسردی کی ضدی ہوا میری ٹانگوں کی ایسی
ٹکھورکرتی کے بس پھر یوں لگتاگویامیں اب وائیبریشن پر ہوں ۔سردی جسے ہم نے
سردی سے سردری سمجھ رکھاہے ۔ایساسمجھنامیری معلومات اور تجزیہ کے مطابق
درست نہیں ۔بلکہ کے سردی انعام ربانی ہے ۔آئیے میں آپ کو اپنے دعوے پر
دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتاہوں امید ہے کہ عقل سلیم اس بات کی تصدیق
کرے گی کے ڈاکٹرظہوراحمد دانش نے نفع بخش معلومات ہمارے ذوق مطالعہ کی نظر
کی ۔
محترم قارئین!!
موسمِ سرماقدرت کی عطاکردہ4 موسموں میں سے ایک خوبصورت موسم ہے۔ اس موسم
میں دن چھوٹے ہو جاتے ہیں اور راتیں لمبی۔ درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ پاکستان
میں موسمِ سرما نومبر سے فروری تک رہتا ہے۔ 1 دسمبر کو سال کی سب سے لمبی
رات ہوتی ہے اور دن سب سے چھوٹا۔موسمِ سرما کو سردی، پالا اور جاڑا بھی
کہتے ہیں۔
سردی و گرمی کے آنے کی ایک ظاہری علامت ہے ایک باطنی ۔ظاہری علامت تو سورج
کی گردش و زمین کا سورج سے قُرب و بُعد ہے زمین کاجوحصہ سورج سے قریب ہوتا
ہے وہ گرم اور جو حصہ سورج سے دور ہوتا ہے وہ سرد ہوتا ہے۔باطنی سبب جھنم
کا سانس لینا ہے اس کے ایک بار سانس لینے سے گرمی ہوتی ہے جب کہ دوسری بار
سانس لینا سردی کا سبب بنتا ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب
حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : جہنم نے اپنے رب سے عرض کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛
میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس لینے کی
اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں
، اسطرح تمہیں جو گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو
سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زَمْہَرِیْر کی وجہ سے ہے ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے
پڑھو ، ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے -
ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے
علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اسکا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے
جہنم کے دو سانس ، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا
ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو سردی آجاتی ہے۔نیز ان حدیثوں سے
ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ جنت وجہنم مخلوق ہیںاور اس وقت بھی موجود
ہیں،البتہ اسکا مکان ِوجود کہاں ہے یہ اللہ تعالی کو معلوم ہے ۔ سردی کا
موسم لوگوں کے لباس وہیئت پر اثر انداز ہوتا ہے، ہر شخص اپنی اپنی حیثیت و
وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے و لحاف کا انتظا م کرتا ہے ، حتی کہ
بازاروںاور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کے آثارپائے جاتے ہیں، ایسے
موقعہ پرلوگ اپنی بساط ، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے مختلف رجحا ن رکھتے ہیں
کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہوتا ہے تو کوئی لطف اندوز۔کسی کے لئے موسم سرما
باعثِ رنج ہے تو کسی کے لئے وجہ مسرت۔لیکن یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ سردی کو
بُرا کہنا یا کُوسنادرست نہیںکیونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں
،ان میں سختی وگرمی بحکم الہی ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا
درست نہیں ، حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے اللہ تعالی
فرماتا ہے :یُوْذِیْنِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّھْرَ وَاَنَا الدَّھْرُ
اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَ النَّہَارَ۔ ( صحیح البخاری و صحیح مسلم )
آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے ،
حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الہی آنے جانے
والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ، کیونکہ علی سبیل المثال ہوا
حکم الہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا اسکے خالق اور
اسمیںمُتَصَرِّف ذات کو برا کہنا ہے لہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند
ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے
کہ اللہ تعالی اسے اس ہوا کے شر سے محفوظ رکھے اوراس کا خیر عطا فرمائے۔
اس شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہیے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے
ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس موسم میں خیر کے پہلو بھی تلاشے۔ اللہ
تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے۔اور اسی نے رات و دن کو ایک دوسرے کے پیچھے
آنے جانے والا بنایا ، اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر
گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو (الفرقان)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں
کو دیکھکر اللہ تعالی ہنس دیتا ہے ، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر
اور لحاف سے اٹھکر وضو کرتا ہے ، پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ
تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے :میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز
نے ابھارا ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امید وار ہے اور
آپ کے عذاب سے خائف ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے
اسکی امیدیں پوری کردیں اور جس چیز سے خوف کھا رہاہے اس سے امن دےدیا ۔
(طَبَرانی شریف )
سردی کا موسم اپنے اندر پیغام عبرت بھی رکھتا ہے آج دنیا کی سردی یہ برداشت
نہیں ہوتی جھنم کی سردی کس طرح برداشت ہوگی۔جی ہاں! جھنم میں صرف آگ کا
عذاب ہی نہیں بلکہ سردی کا عذا ب بھی ہے حدیث شریف میں سرکار ؐ کا فرمان ہے
ـ '' جب سخت گرمی ہوتی ہے تو بندہ کہتا ہے لا الہ الا اللہ آج بڑی گرمی ہے
اے اللہ! مجھے جھنم کی گرمی سے پناہ دے ۔اللہ تعالی دوزخ سے فرماتا ہے
ــ''میرا بندہ مجھ سے تیری گرمی سے پناہ مانگ رہا ہے میں تجھے گواہ بناتا
ہوں کہ میں نے اسے تیری گرمی سے پناہ دی''۔ اور جب سخت سردی ہوتو بندہ کہتا
ہے ۔لا الہ الا اللہ آج کتنی سردی ہے ۔اے اللہ ! مجھے جھنم کی زمھریر سے
بچا۔اللہ تعالی جھنم سے کہتا ہے ''میرا بندہ مجھ سے تیری زمھریر سے پناہ
مانگ رہا ہے میں نے اسے تیری زمھریر سے پناہ دی ۔صحابہ کرام نے عرض کی جھنم
کی زمھریر کیا ہے؟ فرمایا وہ ایک گڑھا ہے جس میں کافر کو پھینکا جائے گا تو
سخت سردی سے اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا ۔اے رب ہمارے ! ہمیں دنیا میں
بھی سردی کے عذاب سے بچا اور آخرت میں بھی۔
سردی کا موسم اللہ کی عبادت کا شوق رکھنے والوں کے لئے ایک انعام ہے ،خدا
سے محبت رکھنے والوں کے لئے غنیمت ہے نبی کریم ؐ فرماتے ہیں : سردی مسلمان
کے لئے غنیمت ہے اس کی رات طویل ہوتی ہے تو وہ عبادتِ الہی میں مشغول رہتا
ہے اس کا دن چھوٹا ہوتا ہے وہ اس میں روزہ رکھتا ہے۔ایک روایت میں ہے : رات
لمبی ہے ،سو کر چھوٹی نہ کر۔دن روشن ہے گناہ کر کے ماند نہ کر (تنبیہ
الغافلین)
مزید نفع بخش معلومات اگلی تحریر میں آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
بہت جلد |