ماں ایک رشتہ ، ایک جذبہ ، قربانی کی مثال ، محبتوں کا گہوارہ ، خوشیوں کا
پہناوہ ، غموں کے بادل سے اوپر صبر کے پہاڑ کی چوٹی ۔
گود اپنی میں سر سہلاتی ،پیار سے تھپتھپاتی ، آنکھوں سے جھولا جھولاتی ۔
راتوں میں تیری دھڑکنوں کا پہرہ ، انگلی ہی تیری میرا سہارا ، قدموں کا
راستہ ،سانسوں سے جڑا میرا کنارہ ۔
تیرا ہی وجود تھا تجھ میں سمایا رہا ۔ اپنےقلب محبت کو مجھ سے زیادہ تم نے
بھی نہ سنا ہو گا۔ میرے قلب نے پہلی دھڑکن تیرے قلب سے سیکھی۔وجود سے سینچ
کر اپنی محبت کا پہلا گھونٹ تم نے مجھے پلایا۔ لفظ زمانے نے مجھے سکھائے۔
تیری عظمت کو سلام کروں بھی تو کیا پیش کروں۔ خون جگر بھی دے دوں تو کیا وہ
بھی تو تیرا ہے۔ میری پہلی دھڑکن بھی تو تیری ہی دھڑکن سے جڑی ہے۔ سانسوں
کا طوفان تیرے سینے سے لپٹ کر تھما تھا۔ تیری روح سے جدا ہوا بھی تو تیرے
وجود سے نہ جدا ہو پایا۔ جدائی تیری فانی وجود مجھے دے گیا ۔ قلب تیرے سے
نکلی جو دعائیں سر میرا سجدہ ہی میں جھکاگیا ۔
لحد میں ہاتھوں سے میں نے تمھیں اتارا ۔ تیرے رخ ماہ کو جو میں نے قبلہ رخ
چاہا ۔ تجھے تو چاہت تھی اپنے خدا کی ۔ ایسی خوشی تو تیرے چہرے پہ مجھے
دیکھنے سے بھی نہ کبھی آئی ۔
پھولوں کی طرح کھلتی چہرے پہ مسکراہٹ۔ تیری بیماریوں کی کہانی دفن ہو گئی ۔
تیری عشق اللہ و رسول کی جوانی ابھر آئی ۔ جنہیں تو رات کے پہروں میں ذکر
یاد کے دئیے جلاتی ۔
دنیا سے لاتعلقی اور بےزاری کا تیرا اظہار مجھے تیری قربتوں میں جدائی کا
غم دے گیا مگر تیری چاہتوں کے میں قربان کہ اصل راستہ میں پا گیا ۔ تم نے
مجھے ایسا سکھا دیا ، دنیا اپنی کو سلا دیا ۔
محبتیں حسرتوں سے لپٹ جائیں ۔ تو زمین سے جڑیں اکھڑ جائیں ۔ کونپلیں شاخوں
میں ہی سمٹ سمٹ کر سکڑ جائیں ۔
شاخ شجر کی محبت اپنی کونپل سے تب تک
جڑ سے جو آب امر پہنچے اسے جب تک
محبتوں کے یہ بہاؤ شجر شجر ، شاخ شاخ ،کونپل کونپل ،گلوں کے مہکانے تک ,
پھلوں کے پکانے تک , دھوپ سے بچانے تک ۔
کٹ کٹ کر جو شجر خواہشوں کے ایندھن بن گئے ۔ آب امر کو ترستے جل جل کر
خاکستر کرب و اذیت سے دوچار رہ گئے۔
تجھے میرا سلام جو محبت کا یہ رنگ مجھے سکھا گئی ۔ ماں سے بھی بڑھ کر اللہ
کی محبت کا نشہ مجھے لگا گئی۔ |