قارئین ذی قدر !!
سردی سرد ہواؤں کا موسم،سردی پہاڑوں کا سفید لباس اوڑھ لینے کا موسم ،سردی
دن کے چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجانے کاموسم،
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سردی آتی کہاں سے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن سردی جاتی کہاں ہے۔۔۔۔۔
لیکن شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے
اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں ، لہذا موسم سرما کی مناسبت سے خیر کے
طالب مسلمانوں بھائیوں کے لئے چند ہدایات رکھی جارہی ہیں
سردی کا اصل سبب :
اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالی نے ایک سبب رکھا ہے
جسکا علم عام طور پر لوگوں کو ہے ،مثلا بارش کا ایک سبب ہے گرمی کا ایک سبب
ہے اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے لیکن بسا اوقات کسی چیز کے
وجودکا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جسکا علم صرف عالم الغیب ولشہادہ کے پاس
ہے ، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا
علم دے دیتا ہے ، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے
عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش ، موسم سرما یا
گرما کا داخل ہونا اور ہواؤں کا چلنا وغیرہ ، لیکن اسکا ایک باطنی سبب بھی
ہے جسکا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے ، چنانچہ صحیح
بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اشتکت النار الی ربہا فقالت :
یارب اکل بعضی بعضا ، فاذن لہا نفسین نفسا فی الشتاء ونفسا فی الصیف ، فاشد
ماتجدون من الحر من سموم جہنم واشد ماتجدون من البرد من زمہریر جہنم ( صحیح
بخاری : 537 المواقیت ، صحیح مسلم : 617 المساجد بروایت ابوہریرہ )
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے
دوسرے کوکھا لیا ،لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی ، ایک سانس
سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو سخت
گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس
ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے : اذا اشتد الحر فابردوا بالصلاۃ فان شدۃ
الحر من فیح جہنم (صحیح البخاری :534 المواقیت ،صحیح مسلم :615 المساجد
بروایت ابوہریرہ )
جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو ، ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم
کی گرمی کی وجہ سے ہے ۔
ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے
علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اسکا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے
جہنم کے دو سانس ، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا
ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو موسم میں سردی چھا جاتی ہے ۔نیز
ان حدیثوں سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کے
مطابق جنت وجہنم مخلوق اور اس وقت بھی موجود ہیں، البتہ اسکا مکان وجود
کہاں ہے یہ صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے
- فطری وطبعی چیزوں کو برا بھلا مت کہو :
چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی وگرمی بحکم الہی
ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ حدیث
قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے
:یوذینی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر اقلب اللیل و النہار۔ ( صحیح البخاری
: 4826 بدء الخلق ، صحیح مسلم : 2246 الادب بروایت ابوہریرہ)
آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کا گالی دیتا ہے ،
حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور
بحکم الہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ، کیونکہ
علی سبیل المثال ہوا حکم الہی کے تابع ہو کر چلتی ہے، اب اسے برا کہناگویا
اسکے خالق اور اسمیں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنی ہے لہذا اگر کوئی
شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ
اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اسمیں جو خیر
کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے ۔(سنن ابو داود:5097 الادب ، سنن ابن ماجہ :
3727 الادب بروایت ابو ہریرہ)
اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے
ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لئے
خیر کے پہلو کیا ہیں؟ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے : وھو الذی
جعل اللیل والنہار خلفۃ لمن اراد ان یذکر اواراد شکورا (الفرقان:62)اور اسی
نے رات و دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا ، اس شخص کی نصیحت
کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں
کو دیکھکر اللہ تعالی ہنس دیتا ہے ، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر
اور لحاف سے اٹھکر وضو کرتا ہے ، پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ
تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے :میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز
نے ابھارا ہے ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امید وار ہے اور
آپ کے عذاب سے خائف ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے
اسکی امیدیں پوری کردیں اور جس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دےدیا ۔
(الطبرانی :صحیح الترغیب 1/402 علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ
حدیث موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے ۔ )
عن النبی ؐ انہ قال : ''الشتاء غنیمۃ المومن طال لیلہ فقامہ وقصر نھارہ
فصامہ ۔ وفی روایۃ اخری : اللیل طویل فلا تقصر بمنامک والنھار مضی فلا تکدر
باثامک
محترم قارئین !!!
میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آپ احباب ذی قدر کے لیے تحقیقی مواد پیش کرتارہوں
۔جو میرے لیے توشہ ئ آخرت اور آپ کے لیے علم میں اضافے کا باعث بنے اس
معاملہ میں کہاں تک کامیاب رہایہ آپ کے پیش کردہ تاثرات ہی مجھے بتائیں گئے
۔ہماری ویب اشاعت و ترویج کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔میں دعاگو ہوں ان ٹیم
کے ارکین کے لیے جنھون نے ایک قابل تحسین پلیٹ فارم ترتیب دیا۔
نیک خواہشات کے ساتھ آپ کی دعا کا طالب |