واقعات، لوگ، ہمارے سامنے آزمائش بن کر آتے ہے، یہ کائنات
محوِ رقص ہے، چاند سورج کو دیکھیں اس کا رقص اللہ کے گرد سمجھ آ جائیگا،
بارش کا بھی ایک رقص ہوتا ہے، پھول کا کلی سے کھل جانا خوشبو پھیلانا، پھر
مرجھا جانا یہ سب بھی اسکا محوِ رقص ہونا ہی ہے، یہاں جو بندگی کے راز کو
کو پا گئے وہ رقص کے لفظی حد و مطلب یا جسمانی حد سے نکل گئے، وہ اس کی
حقیقت کو پا گئے، انکی روح اللہ کے گرد سوتے جاگتے نیند میں خواب میں ہر ہر
پل، محوِ طواف ہے۔
ہر ہر زمانے میں اللہ نے کسی کو چنا ہے جو استعارات میں تشبیہات میں الفاظ
میں عمل میں اسلام کی محبت کی حقیقت بتاۓ، اللہ نے نبی کریم ﷺ بشرِ کامل،
اپنے آخری رسولﷺ کو چنا کہ وہ اسلام سے روشناس کروائیں، اللہ نے ان کے
ذریعے ہم پر اسلام مکمل کیا، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے محبت
بھرے کیف کی کیا مثل کہ وہ سجدے میں روح کے طواف میں اللہ سے جا ملے، حضرت
علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کیف کہ سجدے میں تیر نکالے جاتے، یہ ہےمحبت،
روح کا کیف جس سے عام لوگ بے بہرہ تھے، ایک وقت آیا تاریکی چھانے لگی تو
شمس و رومی کو بھی اللہ نے منتخب کیا وہ بھی بمطابق ظرف محبت کے اصل کیف کو
پا جانے والے اللہ کے منتخب بندے تھے، انکا مذہب اسلام یعنی محبت تھا، یہ
دنیا جو کہ خیر و شر کا مجموعہ ہے جہاں خیر شر کی اور شر خیر کی آزمائش ہے،
یہ دنیا جنت نہیں کہ یہاں بس خیر ہو یہ دنیا دوزخ نہیں کہ یہاں بس شر ہو،
یہاں ہم عام سے بندے اپنے اپنے اعمال اور نیتوں کے سبب اپنی اپنی دوزخ اپنی
اپنی جنت ساتھ لیئے گھومتے ہیں اور بلا شبہ ایک بیج آخرت کے لیئے بھی بو
رہے ہیں، سو یہ دونوں جنہوں نے شر سے نفرت کی بجاۓ اس کو خیر کی پہچان کا
پردہ سمجھا، وہ دنیا جو باہر اچھے برے میں پھنسی ہوئ تھی اسکی نگاہ خود
اپنے آپ پر مبذول کروائ، انہوں نے ایک رقص متعارف کروایا، آج جس رقص کی
ظاہری بحث میں سب الجھ گئے وہ بالکل وہسی ہی حد میں الجھ گئے، جس میں سب بس
خیر و شر میں الجھ گئے، محبت کو نہ پا سکے نیت سے دور ہو گئے۔ انہوں نے
اللہ کو کعبہ میں محدود سمجھ لیا، عبادت کو سجدوں میں اور روزوں میں..!
جسم پردہ ہے ۔۔ حقیقت روح ہے
رقص پردہ ہے ۔۔ حقیقت ھو ہے۔۔!
رقص کے 'کیف' میں محبوب کا احساس ہے، کس طرح کوئ سب سے بے نیاز ہو کر اپنی
لو اللہ سے لگاتا ہے، اپنی حقیقت اپنے اللہ کو پاتا ہے، غور کیجیے تو نماز
۔۔ مومن کی معراج، آنکھوں کی ٹھنڈک ایک کیف اللہ سے ملاقات کی کیفیت ہے، یہ
کیف صرف انکو عطا ہوتا ہے جو اللہ سے واقعی محبت رکھتے ہیں، پھر ایسے میں
روح باکیف ہو جاتی ہے، صرف 5 وقت کے سجدوں میں نہیں، نیت ہر وقت اللہ کی
رہتی ہے، قیام ہر لحظہ اللہ کے لیئے ہوتا ہے، دل پل پل اللہ کی رضا کے
سامنے سربسجود رہتا ہے، اور یہ ہے وہ کیفِ رقص جسے انہوں نے ایک رقص کی
صورت لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ کسی طرح لوگ اس کیف کو پا سکیں ، کہ جب وہ
ہو تو میں نہیں ہوتا، پھر بس وہ ہوتا ہے، تو معاملہ بحث کا نہیں بات نیت کے
اخلاص کو پانے کی ہے، ضد رقص کو جسٹی فائ کرنے کی نہیں، بات مقصد کو اجاگر
کرنے کی ہے، یہاں سب محوِ رقص ہیں اپنی اپنی خواہشوں اپنی اپنی انا کے گرد
محوِ رقص، ایسے بھی لوگ ہیں جو بظاہر کعبہ کے گرد محوِ طواف ہوں مگر دھیان
حضوری کہیں اور ہو، ہم ہی ایسے بھی ہیں کہ نماز میں بظاہر اللہ کے سامنے
ہوں مگر دل کہیں اور ہو، سوچ کہیں اور ہو، ایسے بھی لوگ ہیں جو کہنے کو تو
کسی کمین گاہ میں ہوں مگر انکے ہر دھیان میں اللہ ہو، تو جج کرنے کے لیئے
اللہ ہے، ہم لوگ پتہ نہیں کیوں اللہ بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اللہ
ہماری نمازوں کو اپنے لیئے خالص کرے، ہمیں ہر ہر پل روح کا کیف عطا فرماۓ،
ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے منور کر دے، اللھم آمین! |