ہر کیف سے بے نیاز کر کے ۔۔
تو مجھے اپنا کیف دے میرے اللہ!
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اللہ کی تلاش کیوں ہے؟ ھمم لگتا ہے اسکی متلاشی
اسلیئے نہیں کہ وہ مجھے معاف کر دے، یا مجھے کچھ عطا کر دے، مجھے نہیں پتہ
مجھے اس سے محبت ہے یا نہیں، حقیقت تو شاید یہ ہے کہ مجھے اسکی ضرورت ہے،
بالکل سانسوں کی طرح، جیسے پھول خوشبو کے بنا کچھ نہیں، مچھلی پانی کے بنا
کچھ نہیں، جیسے شمع روشنی کے بنا کچھ نہیں، جیسے آنکھ بصیرت کے بنا کچھ
نہیں، دل دھڑکن کے بنا کچھ نہیں، میں جاندار ہوتے ہوۓ بھی صرف اسکے بنا
بےجان ہوں ایک زندہ لاش سی۔ اسکا احساس نہ ہو تو کتنی بے حس ہوں میں، اس سے
امید نہ ہو تو کتنی مایوس ہوں میں، اس کا یقین نہ ہو تو کتنی خالی ہوں میں،
اس کی بات نہ ہو تو کتنی بے کیف ہوں میں، اس کی خواہش نہ ہو تو کتنی بے
مقصد خواہش ہے میری، جیسے قوسِ قزح کو نکھرنے کے لیئے روشنی کی اس ایک
معجزاتی کرن کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے کچھ نہیں سے کھلکھلاتی قوسِ قزح کر دے،
وہ میرے لیئے ایسا ہے، جیسے کسی تپتے صحرا میں دور دور تک سرابوں سے جابجا
اٹی چلچلاتی ریت میں وہ ایک واحد نخلستان ہو۔ جیسے بس وہ ایک اس قابل ہو کہ
اسکے لیئے سب تیاگ دیا جاۓ، جیسے اس ساقیء ازل کے مہکتے ہاتھوں سے جام کی
خواہش لیئے ہر تشنگی بھی سر بکف، بصدِ شوق نوش کی جاۓ،
کسی چڑیا کی ہر پکار ہر اڑان کے پیچھے جب اسکا جلوہ جھلکتا ہے تو ہر پرواز
کیسی جاندار سی لگتی ہے، ہم سب میں اسکی تلاش ایسے ہی تو سمائ ہوئ ہے،
ہماری ہر تلاش میں وہ ہے، یہ تلاش بھی تو ہمارا خود آگاہی کا سفر، مقصد ہے
ہم پر احسان ہے
اکثر سوچتی ہوں لمحہ فراغت میں
کتنے احسانوں تلے دبی ہوئ ہوں میں!
ہماری ہر گرتی پڑتی اٹھتی اڑان میں وہ ہے، اسے ہم سے محبت ہے اور ہم اسکے
محتاج ہوتے ہوۓ بھی اسکے احسانوں سے غافل ہوۓ اپنی خواہش میں الجھے وہ
دیوانے ہیں، کہ اس سے غافل ہو کر خود سے غافل ہونے کا سودا کیئے بیٹھے ہیں،
ورنہ اسکی تلاش تو ہماری پور پور میں سمائ ہوئ ہے، ہم اسکا وہ عکس ہیں جو
اپنی انا کے گردو غبار میں اٹے اپنی ہی حقیقی صورت سے ناآشنا ہیں، ہم اسکے
بنا قظعی ادھورے ہیں، ہماری تکمیل ہے وہ، جس محبت سے ہمیں اس نے ہمیں اپنے
لیئےچنا ہمیں تخلیق کیا، یہ محبت ہم دوسروں میں اپنے لیئے ڈھونڈتے ہیں اور
وہ مہربان اس سے بٖڑھ کر محبت کے خزانے لیئے ہمارے لیئے منتظر بیتھا ہے اور
ہم نادان اپنی خواہش کے بت کے در سے نگاہ ہی نہیں ہٹا پاتے، خواہش سچی ہے،
تلاش سچی ہے، بس ہر کوئ اپنے اپنے ظرف جتنا راستہ لیئے ہے، ہر کوئ وہ در
کھٹکھٹا رہا ہے جہاں اس نے اپنی آس بندھائ ہے، مگر دیتا تو وہی ہے جس کا 'سب'
ہے، جس سے 'سب' ہے۔ ہم خالق کو بھلا کر مخلوق میں الجھ گئے، حالاںکہ خالق
کا احسان ہی تو تھا کہ اس نے اپنی تلاش آسان کرنے لیئے مخلوق کے پردے میں
خود کو چھپا لیا، اب دیکھیں کب مخلوق سے نگا خود پر جا رکتی ہے، اور کب وہ
چاہے تو نگاہ اس پر جا ٹکے۔ 'میں' سے 'تم' تک کا فاصلہ محبت سے ہی ہو کر
گزرتا ہے ناں۔۔! |