ریڈیو کے عالمی دن پر

رات کے دو بجے ایف ایم ریڈیو کی نشریات نے مجھے چونکا کر رکھ دیا۔

ریڈیو کے پروگرام میں فون کرنے والی خاتون کالر پروگرام پریزینٹر سے یوں محوگفتگو تھیں جیسے ان کی یہ نازیبا گفتگو کوئی تیسرا سن ہی نہیں رہا۔ میں نے اپنا موبائل فون اٹھایا اور غور سے دیکھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی اور ملک کا چینل ٹیو ن ان کرلیا ہے۔ لیکن نہیں جناب! یہ ہمارے پیارے دیس ہی کا ریڈیو چینل تھا، جہاں اخلاقی قدروں کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔

ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اس سلسلے کی شروعات 2000 کے عشرے میں ہوئی جب مشرف حکومت نے ریڈیو چینلزکے لائسنس کوڑیوں کے مول بیچنا شروع کردیے۔ بہ ظاہر معاشی گہماگہمی کی وجہ سے اشتہارات کا تو دور تھا ہی، نئی صدی، آواز کی دنیا کا سحر، ان سب وجوہات کی بنا پر ریڈیو چینل خود رو پودوں کی طرح اگتے گئے۔ شروع میں چند لاکھ روپے میں ریڈیوچینل کے لائسنس جاری کیے گئے۔ لائسنس کے حصول کے لیے کسی بھی درجے کی تعلیمی قابلیت اور تجربے کی ضرورت نہیں تھی۔ جو ریڈیو اسٹیشن قائم کرنا چاہے فیس دے کر لائسنس لے اور قائم کرلے۔ اس صورت حال سے ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر فائدہ اٹھایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب تیرہ سال گزرنے کے بعد ریڈیو اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ہم اپنے یہاں گھرگھر سنے جانے والے ایف ایم ریڈیو چینلز کو پاکستانی تو نہیں کہہ سکتے۔

مختلف اقسام کے ذرائع ابلاغ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ اکیسویں صدی میں سامنے آتے جارہے ہیں اور اس شعبے میں مزید ترقی کے روشن اور قوی امکانات موجود ہیں، لیکن ابلاغ کا کوئی بھی ذریعہ چاہے کتنا پُرانا ہوگیا ہو اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی کچھ ریڈیو کا بھی احوال ہے۔ میرے پاس آج ابلاغ کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں، اس کے باوجود میں ریڈیو سنتی ہوں۔ میرے اس شوق ہی نے مجھے ایک انٹرنیٹ ریڈیو چینل سے وابستہ کردیا اور پھر اس شعبے کے راز میرے سامنے کُھلتے چلے گئے۔

پاکستان میں جب لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایک بار پھر ریڈیو کی طرف مائل ہوئی تو لائسنس ایشو کرنے والے اداروں کو بھی اس کی فیس بڑھانے کا خیال آیا۔ یوں وہ لائسنس جو بنا کسی قابلیت کے چند لاکھ روپے میں دست یاب تھے، ان کی مالیت کروڑوں تک جاپہنچی۔

اصول یہ مرتب کیے گئے کہ ’’میٹرو سٹی‘‘ یعنی وہ شہر جس کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہو، وہاں لائسنس کی بولی لگ بھگ پچاس لاکھ سے ، جب کہ ایک ملین سے کم آبادی والے شہر جو ’’جنرل‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، وہاں یہ شروعات ایک لاکھ روپے سے ہوگی۔

کہا جاتا ہے کہ ریڈیو ابلاغ کا سستا ترین اور آسان ذریعہ ہے۔ ایک تو ٹیلی ویژن کے مقابلے میں ریڈیو چینل قائم کرنے پر بہت کم رقم خرچ ہوتی ہے۔ دوسرے اس کی رسائی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ ایک شخص انفرادی طور پر بنا کسی خرچ کے ریڈیو کی نشریات سن سکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا میڈیم جسے ہم سامعین کے لیے مکمل طور پر مفت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس کی لائسنس فیس اتنی زیادہ کیوں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ریڈیو نشریات جو پہلے ’’اینالوگ‘‘ تھیں اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈیجیٹل کردی گئی، جس کی بدولت آواز کا معیار بہتر ہوا۔ پاکستان میں لائسنس فیس تو آسمان تک پہنچا دی گئی لیکن نشریات کا معیار بہتر بنانے کے لیے ہم جدید ٹیکنالوجی اب تک نا اپنا سکے۔ ہمارے یہاں نشریات اب بھی ـاینالوگ ہے، ساتھ ہی ’’کونیٹینٹ منیجمینٹ‘‘ پر بھی خاطر خواہ توجہ نادی گئی۔ لائسنس فیس اب اتنی زیادہ ہے کہ اس شعبے کی قابلیت رکھنے والے پروفیشنلز میدان سے باہر ہوگئے اور اناڑی کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔

یہ وہی ریڈیو ہے جو عشروں تک ہماری ذہنی تربیت کرتا رہا ہے۔ یہ وہی ریڈیو ہے جس نے بڑے بڑے فن کار پیدا کیے۔ یہ وہی ریڈیو ہے جو زیڈاے بخاری کی قیادت میں ایک اعلیٰ درجے کا ادارہ بن کر ابھرا۔ مگر ایف ایم چینلوں کی فصل اگنے کے بعد اس ذریعۂ ابلاغ پر اشتہارات کی بھرمار ہوگئی۔ ریڈیو پروگرام کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر تربیت کا کوئی ادارہ نا تو قائم کیاگیا اورنا ہی اس سسلے میں کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ جب پیسہ ہی سب کچھ ٹھہرا تو ریڈیو کی دنیا میں پروفیشلنز پیچھے رہ گئے اور سیلز، مارکیٹنگ کے لوگ آگے آگئے۔ کیسا اور کس معیار کا پروگرام چل رہا ہے؟ اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ٹی وی چینلز کے کسی نازیبا پروگرام پر ایکشن لے بھی لیا جاتا ہے، مگر ریڈیو کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا۔ اس وقت پورے پاکستان میں 150کے قریب ایف ایم چینل قائم ہیں۔ صرف کراچی میں 13ریڈیو چینل کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی چینل دوسرے سے مختلف نہیں۔ ایک بھیڑچال ہے اور سب اسی میں مگن۔ کوئی سا بھی چینل لگالیجیے، ایک طرح کے مکالمے، ایک جیسے پروگرام آپ کی سماعتوں سے ٹکرائیں گے۔ کسی قسم کی کوئی اسکرپٹنگ نہیں۔ رات کے شوز میں بے ہودگی عروج پر ہے۔ اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں، کہ جہاں مقصد کمرشیل ازم ہی قرار پایا وہاں اخلاقی اور ثقافتی اقدار کی کیا حیثیت۔ مستقبل کی پرواہ سے بے نیاز ہوکر ہم رفتہ رفتہ اپنی روایات کو دفن کر رہے ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ وہ کیسی نسل ہوگی جو ہمارے بعد آرہی ہے اسے ہم کیا دے رہے ہیں۔
فقط لائسنس فیس کم کرکے، اداروں کی اجارہ داری ختم کرکے اور باقاعدہ ضابطۂ اخلاق بناکر اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے اس صنعت کو پورے ملک میں مزید فعال کیا جاسکتا ہے۔ اب بھی اس میں بہت کھپت کی گنجائش ہے۔ حکومت کے لیے آمدنی کے ذرائع کھلے ہیں۔ فقط نظرثانی کی ضرورت ہے۔

اصول بنائے بھی جاتے ہیں تو اس طرح کے کہ ریڈیو پاکستان کے علاوہ کوئی چینل کرنٹ افیئرز اور نیوز کے پروگرام نہیں چلاسکتا۔ فقط نیوز بلیٹن دینے کی اجازت ہے، اس اصول کا کئی منطقی جواز موجود نہیں۔
ریڈیو کی ایک اور نوع جس نے گذشتہ سالوں میں اپنا مقام بنایا ہے انٹرنیٹ ریڈیو ہے۔ انٹرنیٹ ریڈیو ساری دنیا میں اداروں اور انفرادی سطح پر چلائے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ ریڈیو شروع کرنے کے لیے ’’اسٹیمنگ‘‘ اور ’’سرور‘‘ ورلڈ وائڈ ویب سے نہایت کم نرخوں پر خریدا جاسکتا ہے اور پھر سالانہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ریڈیو کا حال بھی یوٹیوب کی طرح ہے۔ یعنی جس طرح بہ ظاہر بند ہونے والی یوٹیوب تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، اسی طرح انٹرنیٹ ریڈیو کسی لائسنس اور اجازت کے بغیر ہمارے یہاں دست یاب ہیں۔ لیکن چوں کہ انٹرنیٹ کی سہولت پاکستان میں نسبتاً کم لوگوں کو میسر ہے، لہٰذا انٹرنیٹ ریڈیو کے سامعین بھی محدود ہیں۔

اس طرز پر کام کرنے والے ریڈیوچینلز کا معاہدہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سب سے بڑی کمپنی سے ہے، لہٰذا حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر ایسے کسی چینل سے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہو یا اس کی نشریات ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہوں تو انٹرنیٹ پروٹوکول سے اس جگہ کی نشان دہی ہوسکتی ہے جہاں سے یہ چینل چلایا جارہا ہے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

ایسے قابل ذہین اور ریڈیو کے سچے خیرخوا جنہیں اپنی روایات سے پیار ہے، پاکستان سے پیار ہے، لیکن لائسنس فیس زیادہ ہونے کے باعث ایسے سچے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کو غیرتجارتی بنیاد اور محدود فریکوئنسی پر لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تو سوچا جائے کہ اس قسم کا لائسنس جاری کر بھی دیا جائے تو اشتہار کے بغیر کوئی ریڈیو کیسے چلایا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا میں ’’شارٹ ٹرم لائسنسز‘‘ جاری کیے جاتے ہیں۔ چند ماہ ریڈیو چینل کی کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو یہ اصول ہے کہ اگر کوئی پیسے کے بل پر کسی میٹرو سٹی کا لائسنس لے لیتا ہے تو چھوٹے شہروں کے لیے لائسنس لینا اس کے لیے مشکل نہیں رہتا۔ مدعا فقط یہ ہے کہ جو پیشہ ورانہ مہارت کی بنا پر لائسنس کا صحیح حق دار ہے وہ کہاں جائے؟

آج 13فروری کو عالمی سطح پر ’’ریڈیو کا دن‘‘ منایا جارہا ہے۔ یہ دن اس تصور کی بنیاد پر منایا جاتا ہے کہ ریڈیو وہ ذریعۂ ابلاغ ہے جو فرد کے اندر شعور پیدا کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر قوموں کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے اور ایک ایسا ذریعہ ہے جو بیک وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ آواز کی اس دنیا میں ہوا میں رقصاں الفاظ ہماری سماعتوں سے ٹکراتے ہیں اور جاوداں ہوجاتے اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ اتنا اہم میڈیم، جس کی آواز گھر گھر گونجتی ہے، ہمارے یہاں بری طرح نظرانداز کیا جارہا ہے۔ میں حکومت اور پاکستان میں کام کرنے والے تمام ریڈیو چینل مالکان سے ریڈیوانڈسٹری کے حوالے سے قوانین مرتب کرنے اور مرتب شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی درخواست کرتی ہوں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.