گلوبل ویلیج

بقول ارسطو انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور تنہا زندگی بسر کرنااس کیلئے ایک مشکل کام ہے۔ ارسطو نے اپنے نظریات۔۔فلسفہ میں انسانوں کا مل جل کررہنے کا درس دیا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے نظریات پیش کیے ہیں۔ شروع مین انسانوں نے مل جل کررہنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ انسانوں نے مل کر دیہات قائم کیے، دیہات نے ترقی کرتے ہوئے محلے، پھر شہر، صوبے اور ملک تشکیل پائے۔ ممالک نے آپس میں تعلقات قائم کیے تو عالمی تعلقات کا آغاز ہوا۔ شروع میں دنیا بھر میں تجارت بارٹر سسٹم کے ذرائع کی جاتی تھی۔ پھر رقوم کی بدولت تجارت کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ تاجراپنے ملک کی اشیاء کوفروخت کیلئے بیرون ممالک کے دورے کرتے اور اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ کماتے۔ 20 ویں صدی میں تاجروں نے فون۔۔خط۔۔فیکس۔۔E-mail کے ذریعے کاروبای رابطے شروع کیے۔ جس سے تاجر بھائیوں کا کافی مدد ملی۔فیکس کے ذرائع آرڈر شیٹ منٹوں میں مل جاتی ۔ لیکن E-mail کی مدد سے نہ صرف آرڈرشیٹ منٹوں میں مل جاتی ہے بلکہ اشیاء کی شکل ۔۔کوالٹی ۔۔جسامت کا بھی پتہ لگ جاتا ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں بھی تاجر بھائیوں کو گاہکوں کی تلاش میں بیرون ملک دورے کرنا پڑتے ہیں۔
متحدد عرب امارات کے شیخوں نے آج سے 18سال پہلے ایک منصوبہ بنایا کہہ متحدد عرب امارات میں ایک ایسا بازار ۔۔مارکیٹ قائم ہونی چاہیے۔ جہاں پر پوری دنیا کی اشیاء موجود ہو۔ اور پوری دنیا سے گاہک خریداری کیلئے تشریف لائے اور پوری دنیا کے مینوفیکچربھی اپنی اشیا ء کے ہمراہ تشریف لائیں۔ اس منصوبہ کو گلوبل ویلیج کا نام دیا گیا تھا۔اور اس منصوبے کیلئے دبئی میں جگہ حاصل کی گئی۔
1996میں جب گلوبل ویلیج کا آغاز کیا گیا تو تقریبا 5لاکھ افراد نے اس کا وزٹ کیا۔1997میں تعداد میں اضافہ ہوا اور تقریبا9 لاکھ افراد نے گلوبل ویلج کا وزٹ کیا اور 18 ممالک نے اپنے پویلین تعمیر کیے۔ 1998میں20 ممالک نے اپنے پویلین تعمیر کیے اور وزٹر کی تعداد1.4ملین تک پہنچ گئی۔اکیسویں صدی کے آغازمیں پویلین کی تعداد22 ہوگئی جس کا اثر بھی وزٹر پر بھی ہوا اور 1.5ملین افراد نے گلوبل ویلیج کا وزٹ کیا۔2002میں28ممالک نے پویلین قائم کیے اورتقریبا 2.3ملین افراد نے وزٹ کیا۔ 2004میں38 ممالک نے پویلین قائم کیے اور 5.2ملین افراد نے وزٹ کیا۔ 2005میں گلوبل ویلیج نے اپنا 10 سالہ جشن منایاجس کی وجہ سے وزٹر کی تعداد 5.3ملین سے بھی زیادہ ہوگئی۔ 2011-12 میں39ممالک نے پویلین لگائے اور گلوبل ویلیج کا دورانیہ بھی124 دن ہوگیا۔

گلوبل ویلیج نہ صرف ایک تجارتی وثقافتی مرکز ہے بلکہ ایک اچھا تفریح گاہ بھی ہے۔ جہاں پربچوں۔۔نوجوانوں۔۔بزرگ مرد وعورت کیلئے جھولے۔۔کشتی رانی۔۔ڈانس و میوزک پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عرب کے خشک زمین میں ایک مصنوعی جھیل بنا کرکشتی رانی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بچے اپنی فیملی ۔۔دوستوں کے ہمراہ کشتی میں فوٹو گرافی کرتے ہیں اور گلوبل ویلیج کا دورہ بھی۔دیدہ زیب ۔۔خوبصورت اور جدید قسم کے جھولے مسائل کی شکار عو ام کو وقتی طور پرلطف اندوز ہونے کا موقع مہیا کرتے ہیں۔برصغیر۔۔مصر۔۔ایشیاء۔۔امریکہ۔۔افریقہ۔۔یورپ۔۔عرب فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے ہر سال گلوبل ویلیج جاتے ہیں اور اپنے فن سے پوری دنیا کو آگاہ کرتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات ایک اسلامی ملک ہے ، اسلام میں ہر مرد و عورت پر دن میں 5 وقت کی نماز فرض ہے۔ دنیا کے جس کونے ۔۔مقام پر مسلمان رہائش یا کاروباری سرگرمیاں شروع کرتے ہیں، وہاں عبادت کیلئے مساجد کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ گلوبل ویلیج انتظامیہ نے مرد وں اور عورتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ مساجد تعمیر کی ہیں۔ جہاں وہ باآسانی مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرسکتے ہیں۔مزید خواتین کیلئے علیحدہ Mother,s Room بنا یا گیا ہے جہاں پر وہ دیگر خواتین رشتے دار۔۔دوستوں سے معلاقات کر سکتی ہیں۔ انتظامیہ نے وزٹر کی سہولت کیلئے جگہ جگہ ATM مشینوں کا اہتمام کیا ہوا ہے ،تاکہ وزٹرکو سامان کی خریداری میں رقم کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔فارن وزٹر کیلئے فارن ایکسچینج آفس بھی کھولے ہوئے ہیں، گلوبل ویلیج کی معلومات کے حصول کیلئے ویب سائٹ اور شوشل میڈیا کا استعما ل کیا جاتا ہے۔رہنمائی کیلئے انفارمیشن ڈسک موجود ہوتا ہے جہاں سے گلوبل ویلج کا نقشہ بھی با آسانی مہیا ہوجا تا ہے۔پرائیویٹ گاڑیوں کیلئے وسیع پارکنگ موجود ہے، پبلک کیلئے گورنمنٹ کی ٹرانسپورٹ بھی موجود ہے، ایمرجنسی حالات کیلئے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ہر وقت موجود ہوتی ہے۔

گلوبل ویلیج کا آغاز نومبر میں ہوجاتا ہے، 2014 میں 33پویلین افریقہ، فلپائن، فلسطین، قطر، اٹلی، جرمنی/ انگلینڈ/ فرانس، اسپین،انڈیا، سعودی عرب، یمن، پاکستان، مصر، لبنان، سیریا، ماراکو، خلافہ فاؤنڈیشن، تھائی لینڈ، forsail ، jorden، ملائیشیا/ سنگاپور،ویت نام ، افغانستان، ترکی، ایران، بحرین ، اومان، چین، کویت، Repital World، Mirron Maze، Thai Food Court اور ورلڈ کلچرسٹیج کے نام سے تعمیر کیے گئے ہیں۔افریقہ کا پویلین 15 ممالک کینیا، یوگینڈا، Tanzania، Senegal ،گانا، ایتھوپیا، Mauritania، Angola، زمباوے، سوڈان،Rwanda، Mada Gascer ، Numibia، جنوبی افریقہ، Nigeria کی نمائیندگی کرتا ہے۔

تمام ممالک کے کاروباری افراداپنے اپنے ملک ، علاقہ کی اشیاء فروخت کرنے کیلئے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے آتے ہیں، افریقہ کے پویلین میں افریقی ملبوسات۔۔برتن۔۔جیولری۔۔خوشبو۔۔لیڈر جیکٹ۔۔لیڈر بیگ ودیگر اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ مصر کے پویلین میں مصری ممی کا عارضی میوزیم بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ مصر تہذیب و تمدن کی ملبوسات ۔۔برتن وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔یمن کے پویلین میں لیڈر جیکٹ۔۔بچوں کی ملبوسات۔۔تصویریں۔۔خوشبو۔۔میٹل بیج۔۔میٹل میڈل۔۔جھنڈے۔۔جیولری وغیرہ میسر ہوتی ہے۔یورپی ممالک جرمنی ، فرانس،اٹلی،اسپین وغیرہ اور انگلینڈ کے تاجر ٹیکنالوجی کی اشیاء۔۔جوتے ۔۔کپڑے۔۔جیولری وغیرہ کی نمائش کرتے ہیں۔ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان9/11کے بعد سے حالت جنگ میں ہے لیکن افغانی تاجروں کی کثیر تعداد UAEمیں موجود ہے۔افغانی کارپٹ۔۔قالین۔۔برتن۔۔خوشبو۔۔ملبوسات کی کثیر ورائٹی موجود ہوتی ہے۔بھارت کے پویلین میں ساڑھی۔۔سلور جیولری کے خریداروں کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ چین کے پویلین میں ٹیکنالوجی سے متعلقہ اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ پاکستان کے پویلین میں لکڑی کے برتن۔۔لکڑی کی خوبصورت اشیاء۔۔لیڈر جیکٹ۔۔لیڈر بلٹ۔۔لیڈر ویلٹ۔۔پاکستانی ملبوسات۔۔کارپٹ وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔

 

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89290 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.