قرض کالین دین (اصول و ضوابط)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

قرآن مجید میں سورۃ بقرہ کے اندر اﷲ تعالی نے قرض کے اصول و ضوابط صراحتاََ بیان فرمائے ہیں۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوجب کسی مقررہ مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کروتو اسے لکھ لیاکرو،فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے ،جسے اﷲ تعالی نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہواسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے ،پس وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتاہے (یعنی قرض لینے والا)اور اسے اﷲ ،اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہواہواس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہویااملا نہ کراسکتاہو تو اسکا ولی و سرپرست انصاف کے ساتھ املا کروائے ۔پھراپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو ۔اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تودوسری اسے یاددلائے ۔یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو،گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہاجائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ،معیاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوالینے میں تساہل نہ کرو ۔اﷲ تعالی کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے ،اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کاامکان کم رہ جاتاہے۔۔۔۔اگرتم سفر کی حالت میں ہواور دستاویز لکھنے والا نہ ملے تورہن بالقبض پر معاملہ کر لو۔‘‘آیات(282-283)۔تمہاراقرض دار اگر تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو اور جو صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘(آیت280)۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑاکرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی،واقعہ یہ تھاکہ ایک آدمی نے دوسرے سے قرض لیا تھا اور اس کی وصولی میں کمی اور نرمی کرنے کا کہ رہاتھااور دوسرا کہ رہا تھا کہ اﷲکی قسم میں ایسا ہر گزنہیں کروں گا،آخر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا اس بات پر اﷲ کی قسم کھانے والاکہاں ہے؟کہ وہ ایک اچھاکام نہیں کرے گا،اس مسلمان نے عرض کی میں ہی ہوں یا رسول اﷲ ﷺاب میں وہی کروں گا جو میرا بھائی کہ رہا ہے۔حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں عبداﷲ بن ابی حدر سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند ہونے لگی یہاں تک آپ ﷺ نے اپنے حجرہ مبارکہ میں سماعت فرمالیااور باہر تشریف لے آئے اورارشاد فرمایا اے کعب!!کعب بولے جی !اﷲ کے رسول میں حاضرہوں آپ ﷺ نے حکم فرمایاتم اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دو آپ ﷺ کا اشارہ تھاکہ نصف معاف کردو،کعب نے کہا اے اﷲ کے رسول ﷺ میں نے بخوشی کر دیا پھر آپ ﷺ نے عبداﷲ بن ابی حدر کو حکم دیا اب اٹھواوراس کا قرض اداکردو۔حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ تم سے پہلے گزشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت)فرشتے آئے اور پوچھاتو نے کوئی اچھے کام کیے؟؟روح نے جواب دیاکہ میں اپنے نوکروں سے کہاکرتاتھا کہ وہ مالدارلوگوں کو جو مقروض ہوں انہیں مہلت دیاکریں اور ان پر سختی نہ کیاکریں اور محتاجوں کو معاف کر دیاکریں،تب فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیااور اس پر سختی نہیں کی۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے بیان کیاکہ آپ ﷺنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ایک تاجر لوگوں کو قرض دیاکرتاتھا اور جب کسی تنگ دست کو دیکھتاتواپنے نوکروں سے کہتا اس سے درگزر کرو شاید اﷲ تعالی (آخرت میں)ہم سے درگزرکرے چنانچہ اﷲ تعالی نے اس آدمی کو مرنے کے بعد بخش دیا۔حضرت ابوہریرہرضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ مالدار آدمی کی طرف سے قرض اداکرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانی معاملات کے تمام تر پہلوؤں کااحاطہ کر دیاگیاہے۔قرآن مجیدکاحسن اسلوب ہے کہ نماز جیسے معاملے کی بھی کہیں کہیں جزوی تفصیل بیان فرمائی جبکہ قرض کے تمام معاملات بتصریح بیان فرمادیے۔اﷲ تعالی نے حکم دیاہے کہ قرض کے معاملے کو ضبط تحریر میں لایا جائے خواہ معمولی رقم ہو یا غیر معمولی اور صرف تحریر ہی کافی نہیں بلکہ اس پر عادل گواہوں کی شہادت بھی ضروری ہے۔گواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں کیونکہ اسلام نے عورتوں کے حفظ نسوانیت کی خاطر خواتین کو تھانہ،تحصیل اور کچہری کے جھنبیلوں سے دور ہی رکھنا چاہاہے۔ اس معاہدہ قرض میں مدت کا واضع تعین بھی ضرور کیاجائے جس میں فصل کاٹنے،سفرسے کسی کی واپسی یا کسی میلے ٹھیلے کے انعقاد کی بجائے تاریخ مہینہ اور سال کا تعین ضروری ہے۔مقروض کو شریعت نے یہ اجازت دی ہے کہ فراخی و آسودگی کے حصول پر وقت سے پہلے بھی قرض کی ادائگی کرسکتاہے۔تاہم وقت سے پہلے وصولی پر قرض کا کچھ حصہ معاف کرنے کی شرط جائز نہیں ،عبدالرحمن بن مطعم نے حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ سے پوچھاکہ ایک شخص کے ذمہ میری کچھ رقم ہے ،مقررہ وقت سے پہلے وصولی کی خاطراسے کچھ رقم معاف کردوں؟؟ابن عمر نے اس سے منع کردیااورفرمایاکہ ہمیں امیرالمومنین نے درہم و دینارکو قرض کے بدلے فروخت کرنے سے منع کیاہے۔

جو مال قرض لیاجائے اس پر مقروض کا قبضہ ہونا اور اس پرمقروض کاحق تصرف ہونا شرط ہے۔مال ایسا ہو جس کامثل بھی میسر ہوتاکہ بوقت ادائگی ،قرض خواہ کومال قرض کامثل لوٹایاجاسکے،ایسامال جس کا مثل ہی موجود نہ ہوتو اس کی واپس ادائگی ممکن ہی نہ ہوگی اور قرض کے قوانین تعطل کا شکار ہوجائیں گے ،تاہم اس کی ایک صورت نکالی جا سکتی ہے کہ مال کے عوض درہم و دینار وصول کر لیے جائیں کیونکہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا کہ مجھے ایک شخص سے دینار لینے ہیں تو کیا میں ان کی بجائے درہم لے لوں؟؟حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اگر قیمت برابر ہے تو لے لو۔اس کے باوجود بھی ربا کے شک سے بچنے کے لیے حزم و احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہی مال ہی واپس لیاجائے کیونکہ ممکن ہے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کسی خاص حالات کے تحت یہ فیصلہ دیاہو۔قرض کی وصولی میں ربا سے بچنے کے لیے حزم و احتیاط کی اس حد تک ضرورت ہے کہ بزرگ جسے قرض دیتے تھے پھر اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بھی کھڑے ہونا گناہ سمجھتے تھے۔حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ نے ایک آدمی کو کچھ درہم قرض دیے مقررہ مدت پر جو درہم واپسی کے لیے پیش کیے گئے وہ زیادہ کھرے اور چمکدار تھے حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ نے وہ درہم لینے سے انکار کردیااور کہاہمیں ہمارے دیے ہوئے جیسے ہی درہم لوٹاؤ۔ایک شخص نے پانچ سودرہم قرض دیے ساتھ یہ شرط لگادی کہ وہ مقروض کا گھوڑا استعمال کرے گاحضرت عبداﷲ بن مسعودنے فرمایا کہ گھوڑے کی سواری سود میں شمار ہوگی۔

قرض لوٹانے والے کو چاہیے کہ حسن ادائگی کے ساتھ لوٹائے اور کچھ اضافہ بطورہدیہ اداکرے تو جائز ہے،حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے دس ہزار قرض لیااور پھر کچھ عرصہ بعد اپنی باغ کی عمدہ کھجوریں حضرت عمررضی اﷲ عنہ کوبھیجیں جو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا،اس پر حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ نے کہاکہ اپنی رقم واپس لے لو مجھے یہ بے مروتی نہیں چاہیے اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ان کھجوروں کے ہدیے کو قبول کرلیا۔مقروض کے فوت ہوجانے کی صورت میں پہلے اس کے ترکے میں سے قرض اداکیاجائے گا بعد میں ترکہ کی تقسیم عمل میں آئے گی۔مقروض اگر تنگ دست ہو تو اس سلسلے میں کسی فقہی یا قانونی رائے زنی کی ضرورت نہیں اس پر اﷲ تعالی نے واضع فیصلہ دے دیاہے کہ اسکے ساتھ نرمی کی جائے اور پھر بھی ادائگی ممکن نہ ہو سکے تو قرض کامال اسے صدقہ کر دیاجائے،تاہم معاملہ بہت بڑا ہو تو ریاست اپنا مثبت کردار اداکرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔قرض وصول کرنے والا گم ہوجائے تو مقروض کوچاہیے کہ قرض کی رقم مالک کی طرف سے صدقہ کردے تاکہ روزحساب کی ادائگی سے مامون ہوجائے اور اگر صدقہ کر چکنے کے بعد مالک لوٹ آئے تو اسے اختیارہے کہ چاہے تو صدقے کااجر لے اور چاہے تو اصل زر وصول کر لے۔

قرض کے معاملے میں دوکرادارپیش منظر میں واضع طورپردیکھے جاسکتے ہیں،ایک رحمۃاللعالمین ﷺکے لائے ہوئے قوانین ہیں جن میں انسانی مجبوری کے تحت قرض کو ایک ضرورت کی حیثیت سے معاشرے میں رائج کیاگیاہے اور صدقہ کاایک گنااور قرض کااٹھارہ گنااجر کاوعدہ کیاگیاہے اور عدم ادائگی پر نرمی اور پھر معافی سے بڑھ کر مزید صدقے کی صورت میں مددجیسے انسانی اقدارمتعارف کروائے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف موجودہ یورپی سیکولرتہذیب کا اجتماعی کردار ہے جس نے قرض کو تجارت کاروپ دے کر دنیاکی رگوں سے سودکی صورت میں خون حیات نچوڑنے کا بازار گرم رکھاہے اور فرد سے لے کر بڑے بڑے اداروں تک اور حکومتوں سے لے کر اقوام عالم تک سب کو ناک تک سونے کے پانی میں ڈبوکر چاندی کے غوطے دے دے کر ان سے باقی ماندہ اثاثوں پر بھی حق ملکیت سے دستبرداری کے انگوٹھے لگوائے جا رہے ہیں۔اور ان سب پر مستزادیہ کہ ان روح فرساشائلاک کی فکرکے حامل یہودی شرانگیزیوں کو انسانیت کے خوبصورت نعروں میں لپیٹ کر دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں لیکن آسمان گواہ ہے اب اس سیکولر مغربی تہذیب کے دن گنے جا چکے ہیں اور آنے والے دن کا سورج عالم انسانیت کے لیے محسن انسانیت ﷺکا پیغام لیے طلوع ہواچاہتاہے۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.